کیسے کیسے لوگ جدا ہوگئے
پاکستان کے مقامی ہیروز پر نظر ڈالیں تو ایسے بے شمار سیاسی، سماجی ساتھیوں کی ایک طویل فہرست ہے جنھوں نے دائیں اور بائیں بازو کی بنیاد پر علمی و فکری اور انقلابی بنیادوں پر بہت اعلی کام کیا ہے۔
اگرچہ ہمارے ہاں ہیروز کی پزیرائی میں کھیل، فن، اداکاری سمیت کچھ شعبوں کو زیادہ پزیرائی ملی ہے، جب کہ سیاسی، سماجی اور علمی و فکری میدان میں کام کرنے والے حقیقی ساتھیوں کو زیادہ پزیرائی نہیں مل سکی اور بہت سے لوگ ان کے کاموں سمیت ان کی جدوجہد سے بھی آگاہ نہیں۔ سماج میں وہ لوگ جو کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں اور وہ اپنی ذاتی زندگی کے ساتھ ساتھ سماج میں رہنے والے کمزور طبقات کی جدوجہد میں نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔
پاکستان کی سیاست اورجمہوریت سے جڑی جدوجہد پر جب بھی مورخ بات کرے گا تو اس میں سے مزدور اور طلبہ تحریک کے کردار کو کسی بھی سطح پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ ان دونوں تحریکوں نے مزدور اور طلبہ کے ساتھ ساتھ ملک کی سیاست میں جمہوریت کی بڑی جنگ لڑی ہے۔ سیاسی جماعتوں اور سیاسی تحریکوں کا حسن بھی ان ہی طلبہ اور مزدور تحریکوں سے جڑا ہوا تھا۔ دونوں تحریکوں نے سیاسی جماعتوں اور اپنے اپنے پلیٹ فارم سے ملکی سطح پر غیر سیاسی اور سیاسی آمریتوں کے خلاف خوب جنگ لڑی، قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کیں، کوڑے کھائے، بے روزگاری اور معاشی بدحالی سمیت خاندانی سطح پر کئی بڑی مشکلات کا سامنا کیا، مگر ہمت نہ ہاری۔
ان ہی کرداروں میں ایک معاشرے کا چلتا پھرتا کردار معروف مزدور راہنما اور ساری زندگی مزدوروں کے حقوق سمیت سیاسی، سماجی، انسانی حقوق، بچوں، عورتوں، اقلیتوں، خواجہ سرا، کسان حقوق کی جنگ بغیر کسی تضاد کے لڑتا رہا۔ اس جنگ میں کئی کردار آئے اور کچھ ساتھ بھی چھوڑ گئے مگر یوسف بلوچ کو حقیقی معنوں میں داد دینی ہوگی جو آخری سانس تک اس جدوجہد کی جنگ کا سپاہی رہا اور اسی جنگ کو لڑتے لڑتے بیاسی برس کی عمر میں عید سے چند دن قبل انتقال کر گیا جس سے مزدور تحریک کا ایک اہم باب بند ہوگیا۔ کیا کمال کا درویش انسان تھا۔ وہ اس عمر میں بھی مزدور فیڈریشنوں کے اتحاداور پاکستان ورکزر فیڈریشن کے سربراہ تھے۔ جب کہ نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے چیئرمین جب کہ پروگریسیو لیبر فیڈریشن کے بانی راہنما تھے۔
میں نے یوسف بلوچ کو اسی شہر میں مزدوروں کے حقوق کی جنگ لڑتے دیکھا ہے۔ بسوں، ویگنوں اورکئی کئی گھنٹے پیدل چل کر اس تحریک کا حصہ بننے والا یوسف بلوچ واقعی ہمارا حسن تھا۔ نہایت ہی ملنسار اور دوسروں کی بات کو سننے، سمجھنے اور ساتھ چلنے والا کردار اس کا خاصہ تھا۔ جب بھی ملاقات ہوتی تو میرا ماتھا چومتے، بوسہ دیتے اور سر پر شفقت اور محبت کا ہاتھ رکھ کر ہمیشہ کہتے کہ تم سے مل کر تمارے والد کی یاد آجاتی ہے۔ میرے والد اور ان کے خیالات میں زمین آسمان کا فرق اور خود میرے اور یوسف بلوچ کے خیالات میں فرق کے باوجود ہم میں بطور انسان کا ایک دوسرے کے باہمی احترام کے رشتے کو فوقیت حاصل رہی۔ اپنے مخالفین اور سوچ اور فکر سے مخالف فرد کے بارے میں بھی ان کا لہجہ شائستگی کا عملی خاکہ پیش کرتا تھا تنقید کرتے ہوئے کبھی کسی کے لیے تضحیک کا پہلو خود پر غالب نہ ہونے دیا۔ کئی دہائیوں سے لاہورکی مجلسوں میں یوسف بلوچ کے ساتھ بیٹھتا اورکئی رسمی اجلاس میں ہم شریک ہوتے تو اس رشتہ کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔
ساری زندگی ریلوے سے منسلک رہے اور اسی کی ٹریڈ یونین کا حصہ رہے۔ اگرچہ بہت زیادہ تعلیم یافتہ نہ تھے، مگر سوچ کے پکے دانشور اور اپنے خیالات میں گہرائی تک معاملات کو پرکھنے والے یوسف بلوچ بڑی جرات کے ساتھ نہ صرف مسائل پر تنقید کرتے بلکہ بے لاگ انداز میں مسائل کا حل بھی پیش کرتے تھے۔ ٹھراو ان میں خوب تھا کبھی جلدی میں نہیں دیکھا آخر تک مجلس میں رہتے سب سے ملتے تصویریں بھی اتارتے اور مزاح بھی ان کا خوب تھا۔ لاہور میں جہاں سیاست، جمہوریت، مزدور، بچوں، عورتوں، کسانوں، خواجہ سرا کے مسائل پر بات ہوتی یا ان کا کوئی اجتجاج ہوتا تو یوسف بلوچ صف اول ہمیں میدان میں کھڑا نظر آتا۔ پچاس برس تک مزدور اور سیاسی جدوجہد کا یہ سپاہی عملا اب اس دنیا میں نہیں رہا، لیکن مجھ سمیت بہت سے دوست اس کو اپنا حقیقی ہیرو سمجھتے ہیں اور وہ ہمیشہ دلوں پر راج کرے گا۔
ایک اور کردار اور میرا جگری دوست سماجی و سیاسی تبدیلیوں کا حقیقی سپاہی رانا شفیق الرحمن بھی عید کی چھٹیوں میں مجھ سمیت اپنے دوستوں کو تنہا چھوڑ گیا۔ اس کی اچانک موت نے واقعی دل اداس کردیا۔ کئی ماہ سے اس سے ملنے کی خواہش مگر کورونا بحران نے سب کچھ ہی بدل ڈالا اور اس سے وعدے کے باوجود نہ مل سکا۔ خیال تھا عید کے فوری بعد ملوں گا، مگر وہ واقعی جلدی میں تھا اور چلا گیا۔ پنجاب میں سماجی تبدیلی کے حوالے سے اسے کنگ آف پنجاب کہا جاتاتھا۔ کئی برسوں تک میں نے اس کے ساتھ سفر کیا اور سفر کرنے والے کو ایک دوسرے کے بارے میں جاننے کا موقع ملتا ہے۔
بغیر کسی لالچ کے ہر ایک کی مدد میں پیش پیش رانا شفیق الرحمن کا کوئی متبادل نہ تھا۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت پر وہ اور میں نے لاہور سے یکجہتی کے لیے دوستی بس کے نام سے تیس کے قریب سول سوسائٹی کے دوستوں کے ساتھ بے نظیر بھٹو کی قبر پر فاتحہ پڑھنے گئے اور یہ پیغام دیا کہ اہل پنجاب بھی سندھ کے اس قومی دکھ میں ان کے ساتھ ہیں۔ پنجاب سمیت دیگر صوبوں میں چھوٹے کسانوں کو خوب موبلائز کیا، تربیت اور شعور و آگاہی کے پروگرام کیے، زراعت پر وہ نہ صرف کتابی بلکہ عملی پی ایچ ڈی بھی تھے اوراس شعبہ میں ان کی مہارت کا سکہ پاکستان سمیت بھارت میں بھی مانا جاتا تھا۔
کسان میلوں کا انعقاد اسی کے ذہن کی اختراح تھی اور کئی صوبوں اور اضلاع میں کسان میلوں کا انعقاد کرکے ان کے حقیقی مسائل میں وہ خود بھی اور اس کی تنظیم " گرین سرکل آرگنائزشن )جی سی او(میدان میں موجود ہوتی۔ سیاست پر بھی اس کی گہری نظر تھی اور ہر سیاست کے پہلو پر کمال کی گفتگو کرتا۔ راو طارق لطیف، حارث خلیق، بلال نقیب، شہبازملک، مصطفی بلوچ، زیشان نوئیل، امتیاز الحق، عطا شیخ اور راقم کے ساتھ اس کے مکالمے خوب تھے۔ بڑی سے بڑی مشکل بات کا بہت آسان سا جواب اس کے پاس ہمیشہ ہوتا۔ پاکستان این جی کوارڈنیشن پنجاب کے صدر کی حیثیت سے اس کا کام ہمیشہ یاد رکھا جانے والا ہے۔
کمزور اورمظلوم کے ساتھ کھڑا ہونا اور جس حد تک اس کی مدد کرنا وہ اس کا خاص شوق تھا۔ ہمیشہ نئے سے نئے خیالات لے کر مجلس میں آتا اور پھر اپنے مقدمہ کی بنیاد پر چھا جاتا۔ زرعی شعبوں میں عالمی ٹرینڈز کے مقابلے میں مقامی روایات کو مضبوط بنا کر پیش کرنا او راسی طرح مورینگا کے پودوں کے ادوایاتی استعمال میں تحقیق کے لیے نہایت محنت سے کام کیا۔ کاش ہم سب حکومتوں کو یہ باور کرواسکیں کہ یوسف بلوچ اور رانا شفیق جیسے دوست بھی ہمارے قومی ہیروز ہیں اور ان کی بھی ہر سطح پر بڑی پزیرائی ہونی چاہیے کیونکہ یہ اس سماج کے جیتے جاگتے کردار تھے جن کی محنت، جدوجہد، دیانت اور عملی کاموں کی وجہ سے آج اس معاشرے میں کچھ خیر کے پہلو بھی موجود ہیں۔