ہم کیسا معاشرہ چاہتے ہیں؟
پاکستان بطور ریاست یا معاشرہ لاتعداد مسائل سے دوچار ہے۔ یہ مسائل کسی ایک حکومت یا کسی ایک خاص سیاسی یا غیر سیاسی دور کا نہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا یہ مسائل مجموعی طور پر ہماری ریاستی و حکومتی پالیسیوں کا حصہ رہے ہیں۔
ہم نے معاشرہ کو بنانے کے بجائے اس میں یا تو بگاڑ پیدا کیا یا اس میں ایک ایسی سیاسی، سماجی، انتظامی، معاشی تقسیم کو پیدا کیا جو قومی اجتماعی عمل کو کمزور کرنے کا سبب بنی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج بھی ریاست، حکومت اور معاشرہ کا باہمی تعلق مضبوط کم اور کمزور زیادہ ہے۔ ریاست اور معاشرہ کے لوگوں میں جو خلیج بڑھ رہی ہے وہ خود ریاستی نظام اور اس کی بقا کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔
ہم مجموعی طور پر معاشرے میں موجود مسائل کو دیکھیں تو ان میں انتہا پسندی، دہشتگردی، عدم انصاف پر مبنی نظام، اداروں کی بدحالی، عدم برداشت، سیاسی، سماجی اور معاشی محرومی کا پہلو، سماجی عدم رواداری، کرپشن، بدعنوانی سمیت معاشی بدحالی کا پہلو نمایاں ہے۔ اسی طرح اس ملک میں سیاسی عدم استحکام، کمزور جمہوری وسیاسی نظام اور غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت بھی ریاستی نظام کو کمزور کرتی ہے۔
اس بحران کے حل کے لیے ہمیں اجتماعی طور پر ایک بڑے سیاسی، سماجی اور معاشی سمیت ادارہ جاتی اصلاحات کے لیے روڈ میپ کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے قومی سطح پر ایک بڑے تدبر، فہم فراست، اور بردباری سمیت اتفاق رائے پر مبنی موثر حکمت عملی، منصوبہ بندی، عمل درآمد کے نظام کی ضرورت ہے۔ مسئلہ محض داخلی مسائل کا ہی نہیں بلکہ علاقائی اور خارجی سطح پر بھی ہم کئی بڑے مسائل کا شکار ہیں۔ ان مسائل میں پاک بھارت تعلقات اور بالخصوص مقبوضہ کشمیر کی صورتحال، افغان بحران، سعودی عرب تعلقات، سی پیک، علاقائی سطح پر چین سے نئے تعلقات اور نیافریم ورک جیسے اہم امور شامل ہیں۔
سیاست میں ایک بنیادی تھیوری موجود ہے کہ آپ علاقائی یا خارجی محاذ پر اسی صورت میں بہتر اور موثر کارڈ کھیل سکتے ہیں جب آپ داخلی محاذ پر سیاسی اور معاشی استحکام رکھتے ہونگے۔ یعنی داخلی سیاسی اور معاشی استحکام ہی ایک مضبوط علاقائی یا خارجی پالیسی کو مضبوط طاقت فراہم کرتا ہے۔ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ علاقائی یا خارجی محاذ پر ایسے فریق یا ممالک بھی موجود ہیں جن میں بالخصوص ہمیں بھارت سرفہرست نظر آتا ہے جو ہمیں کمزور کرنے کے کھیل کو اپنی اہم ریاستی ترجیح بھی سمجھتا ہے اور اس پر کسی نہ کسی شکل میں عمل درآمد کرکے ہمیں کمز ور کرنے کے کھیل میں شریک بھی ہے۔
معاشرہ میں ایک بڑا اتفاق رائے یا معاشرے کا ریاست سے مضبوط تعلق کی بنیاد آئین پاکستان 1973کا پہلا بنیادی حقوق کا باب ہے جو عملی طور پر ریاست اور شہریوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ جن میں تعلیم، صحت، روزگار، تحفظ، انصاف، شیلٹر، آزادی اظہار، نقل وحمل، تنظیم سازی، آزادنہ رائے یا ووٹ، جنس، مذہب، فرقہ کی بنیاد پر عدم تقسیم جیسے دیگر امور شامل ہیں۔ جب یہ منطق دی جاتی ہے کہ ہم کو ریاست اور معاشرہ کے باہمی تعلق کو مربوط یا مضبوط بنانا ہے تو اس کی بنیادی کنجی ان ہی حقوق کی فراہمی سے جڑی ہوئی ہے۔ اس بنیاد پر جو معاشرے میں محرومی کی سیاست ہے وہی ایک بنیادی چیلنج ہے جو ریاست یا حکمران طبقہ کو درپیش ہے۔
اس کی ایک او ربڑی بنیاد معاشرہ میں موجود طبقاتی تقسیم کی گہری لکیریں ہیں۔ کیونکہ جب لوگوں کی فلاح و بہبود یا ان کے معاملات کو جانچنے یا پرکھنے کا زاویہ طبقاتی بنیادوں پر ہی ہوگا تو محرومی کی سیاست اور زیادہ بگاڑ پیدا کرتی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ریاست کے اس نظام میں سب سے زیادہ سیاسی، قانونی اور معاشی استحصال کا سبب معاشرے کے محروم طبقات ہی بنتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر واقعی ہمیں اپنے ریاستی، حکومتی او رمعاشرتی نظام کو ایک درست سمت دینی ہے تو یہ کیسے ممکن ہوسکتی ہے۔ یقینی طور پر اس کے لیے روائتی یا اسٹیٹس کو کی بنیاد پر کوئی بڑی تبدیلی کے امکانات بہت ہی محدود ہیں۔
سیاسی و جمہوری نظام میں بنیادی کنجی اصلاحات کا عمل ہوتا ہے۔ جمہوریت میں بڑی تبدیلیاں انقلاب کے بجائے اصلاحات کی بنیاد پر سامنے آتی ہیں۔ لیکن اب اگر ہمیں اصلاحات کی طرف ہر صورت بڑی پیش رفت کرنی ہے تو پورے ریاستی نظام کی ایک سرجری درکار ہے۔ یہ سرجری فوری طور پر یا ایک ہی بڑے جھٹکے سے ممکن نہیں بلکہ اس بڑی سرجری کے لیے بتدریج ہمیں آگے بڑھنا ہوگا۔ اس کے لیے قومی سطح پر ایک بڑے مکالمہ کی بھی ضرورت ہے۔
طاقت کے مراکز میں یہ بڑا مکالمہ ہی ایک بڑے مضبوط اورمربوط روڈ میپ کو سامنے لاسکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے طاقت کے مراکز کو اپنا موجودہ رویہ یا طرزعمل سمیت حکمت عملیوں کو پس پشت ڈالنا ہوگا۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب طاقت کے مراکز کا ایک فریق خود کو بالادست کرکے بالادستی حاصل کرنا چاہے گا تو یہ علاج ممکن نہیں ہوگا۔ یہ نکتہ سمجھنا ہوگا کہ آج جو پالیسی یا حکمت عملی کے تحت نظام کو چلایا جارہا ہے وہ ناکامی سے دوچار ہے۔ ہمیں معاشرے کو بھی اوراس میں موجود لوگوں کو بھی مضبوط اور مستحکم کرنا ہے۔ یعنی ہماری بڑی بنیاد انسانی ترقی اوران سے جڑے بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے سے جڑی ہونی چاہیے۔
محض بڑی بڑی بلڈنگز، یا بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں کے ساتھ ساتھ انسانوں پر بڑی سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔ بنیادی نوعیت کا سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے تمام طاقت کے مراکز واقعی ایک ایسی تبدیلی کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں جس کا براہ راست تعلق عام لوگوں کی ترقی یا خوشحالی سے جڑا ہوا ہے۔ کیونکہ اہم نکتہ طاقت کے مراکزیا بڑے فیصلہ ساز افراد یا اداروں کا ہے۔
عمومی طور پر یا تو یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اب ایسے حالات بن گئے ہیں کہ تبدیلی ناگزیر ہوگئی ہے اوراگر یہ نہ کی گئی تو خود ان کے اپنے مفادات کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے، جب کہ دوسری حکمت یہ ہوتی ہے کہ ریاستی یا معاشرہ کی سطح پر ایک ایسا دباو بڑھے جو طاقت کے مراکز کو مجبور کرے کہ وہ ایسے فیصلوں کی طرف بڑھیں جو عام آدمی کو طاقت فراہم کرسکے۔ عمومی طور پر یہ کام سیاسی جماعتیں ہی کرتی ہیں اوران کے پیچھے دیگر تبدیلی کے افراد یا ادارے چل پڑتے ہیں۔ لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں سیاسی جماعتوں کی ترجیحات میں عوامی معاملات کم اور اپنے اقتدار کی رسہ کشی اورطاقت کے حصول کی لڑائی زیادہ غالب نظر آتی ہے۔
طاقت کا حصول یا اقتدار اہم ہوتا ہے اور سیاسی نظام میں سیاسی جماعتیں اسی کو بنیاد بنا کر اپنی جدوجہد کرتی ہیں۔ لیکن اگر اس طاقت کی لڑائی سے عوام باہر ہوجائیں اور ان کو محض سیاسی استحصال کے طور پر استعمال کیا جائے تو پھر لوگوں کا عمومی طورپر سیاست، جمہوریت اور سیاسی نظام سمیت ریاستی نظام پر سے بھی اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ اس لیے ہمارے طاقت کے مراکز کو اگر اپنے مفادات کو بھی تحفظ دینا ہے تو ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ موجودہ اسٹیٹس کو یا روائتی سیاست یا نظام سے باہر نکلیں۔