ایف اے ٹی ایف…بڑی طاقتوں کا سیاسی ہتھیار
پاکستان کے لیے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس)ایف اے ٹی ایف(کی گرے لسٹ سے نکلنا آسان کام نہیں ہوگا۔ کیونکہ یہ بات ثابت ہے کہ ایف اے ٹی ایف کوئی مالیاتی یا ٹیکنیکی فورم نہیں بلکہ ایک سیاسی فورم کی نوعیت رکھتا ہے۔
اس فورم کے فیصلوں میں شفافیت کو عملاً ایک بڑے سیاسی فورم کے طور پر ہی دیکھا جانا چاہیے۔ یہ بات بھی یقینی تھی کہ اس برس جون2021 میں ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں بھی پاکستان کو گرے لسٹ سے نہیں نکالا جائے گا۔ البتہ ہماری پزیرائی بھی ہوگی اور کارکردگی کے تناظر میں شاباش بھی ملے گی، مگر پرانی تنخواہ پر ہی کام کرنا پڑے گا۔ ایف ا ے ٹی ایف کا پاکستان کو اکتوبر تک گرے لسٹ میں رکھنے کا حالیہ فیصلہ مجھ سمیت بہت سے لوگوں کے لیے غیر متوقع نہیں تھا۔
عالمی طاقتیں جن میں امریکا سرفہرست ہے، اس طرح کے مالیاتی فورمز کی تشکیل کرکے اسے اپنے سیاسی مخالفین یا جن پر دباؤ ڈالنا مقصود ہو کے خلاف استعمال کرتا ہے۔ پاکستان میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ ایف اے ٹی ایف ہمارا استحصال کر رہا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو کہنا پڑا کہ ہمیں ایف اے ٹی ایف کے تناظر میں متبادل آپشن یا راستہ بھی اختیار کرنا چاہیے۔
27میں سے26نکات پر عملدرآمد کے بعد پاکستان کو گرے لسٹ سے نہ نکالنا ظاہر کرتا ہے کہ اگر پاکستان 27کے مقابلے میں ایک قدم آگے بڑھ کر 28نکات پر بھی عملدرآمد کرلے تب بھی ہم گرے لسٹ میں ہی رہیں گے۔ کیونکہ یہ فیصلہ ایف اے ٹی ایف کا نہیں بلکہ ان بڑی قوتوں کا ہے جو پاکستان کے خلاف ایف اے ٹی ایف کو "بطور ہتھیار" استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
ایف اے ٹی ایف کے اعلامیہ میں پاکستان کو 27میں سے 26نکات پر عملدرآمد کے بعد بڑا انعام گرے لسٹ سے باہر نکالنے کے بجائے اسے مزید چھ نکاتی ایجنڈا تھمادیا گیا ہے۔ ان نکات میں دہشت گرد تنظیموں کے اہم کمانڈروں سمیت یو این نامزد 1373دہشت گردوں کو سزائیں دینے، مالی معاونت کرنے والوں کی چھان بین، منی لانڈرنگ روکنے کا مطالبہ، سزا کے نظام میں بہتری لانا، تفتیش کے نظام کو موثر بنانا، دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والے افراد یا اداروں کی کڑی نگرانی شامل ہیں۔
ان کے بقول پاکستان کے مالیاتی نظام میں کئی خامیاں ہیں اور ان کو دور کیے بغیر گرے لسٹ سے نکالنا ممکن نہیں۔ اب پاکستان کا مقدمہ چار ماہ بعد دوبارہ اکتوبر میں قابل غور ہوگا اور دیکھا جائے گا کہ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنا ہے یا نہیں۔ اس فورم نے منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لیے تحقیقات اور سزاؤ ں میں تیزی لانے اور اینٹی منی لانڈرنگ قوانین میں ترامیم کے ذریعے عالمی تعاون بڑھانے پر زور دیا جن میں اہم طور پر رئیل اسٹیٹ، پراپرٹی، جیولرزاور اکاؤنٹس کی نگرانی شامل ہے۔
پاکستان کے پاس فی الحال گرے لسٹ میں ہی رہنے کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ پاکستان کے بقول جون سے قبل ہماری اہم ترجیح میں دہشت گردوں کی مالی معاونت پر مرکوز تھی اور اب ہماری توجہ کا مرکز منی لانڈرنگ پر ہوگی۔ یہ بات بھی یقینی ہے کہ اگر یہ ہی کارکردگی پاکستان کے مقابلے میں کسی اور ملک کی ہوتی تو اسے ضرور ریلیف ملتا۔ لیکن پاکستان کا مقدمہ کچھ داخلی، علاقائی اور عالمی سیاست سے جڑے اہم فیصلوں کی وجہ سے مختلف ہے۔
اس وقت سی پیک، افغان بحران کا حل، امریکی ایجنڈا، ہوائی اڈوں کی فراہمی کا مطالبہ، پاک بھارت تعلقات جیسے امورکی وجہ عالمی قوتیں ہمارے خلاف ایف اے ٹی ایف کو بطور ہتھیا ر استعمال کرنا چاہتی ہیں یا ہم پر دباؤ ڈال کر کچھ فیصلوں کی تائید وحمایت چاہتی ہیں۔ ان قوتوں کو لگتا ہے کہ یہ ہی وہ ہتھیار ہے جس کی مدد سے وہ اپنے مفادات کی تکمیل کرسکتے ہیں۔
بھارت کی خواہش پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالنا ہے۔ بھارت کی ساری سفارت کاری یا ڈپلومیسی کی بنیاد ہی پاکستان کی مخالفت اور ایف اے ٹی ایف کو بنیاد بنا کر ہماری مشکلات میں اضافہ کرنا ہے۔ پاکستان کا گرے لسٹ میں بدستور رہنا بھی بھارت کے لیے قابل قبول نہیں اور وہ دنیا میں اس بیانیہ کو بڑھارہا ہے کہ پاکستان کے تمام تر اقدامات مصنوعی ہیں اور وہ سب کو دھوکا دے رہا ہے۔
ایف اے ٹی ایف کے دہرے معیار کی حالت یہ ہے کہ منی لانڈرنگ جیسے سنگین معاملات بھارت میں بھی ہیں مگر بھارت کو ایف اے ٹی ایف سے کوئی بڑا خطرہ نہیں اور نہ ہی ایف اے ٹی ایف بھارت میں منی لانڈرنگ کو چیلنج کرتا ہے۔ امریکا اور اتحادی بھارت کو خوش کرنے کے لیے ایف اے ٹی ایف کی تلوار ہم پر لٹکائے رکھنا چاہتے ہیں۔
اب اگر پاکستان نے اگلے چار ماہ میں کچھ کرکے دکھانا ہے توبڑامسئلہ منی لانڈرنگ اوراس سے جڑی تحقیقات اور سزاؤں کا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ نظام میں کوئی بڑی تبدیلی کیے بغیر ہم کچھ بڑا کرسکیں گے۔ کیونکہ ہمارا نظام انصاف اور انوسٹیگشن سسٹم منی لانڈرنگ کے حوالے سے بڑی تبدیلی چاہتا ہے اور موثر قانون سازی سمیت عملدرآمد کے نظام میں چیزوں کو آوٹ آف بکس جاکر کچھ غیر معمولی اقدامات کرنے ہوں گے۔ کیونکہ ابھی تک منی لانڈرنگ میں ملوث افراد قانونی سقم، کمزور عدالتی نظام اور تفتیش کے پرانے یا فرسودہ نظام کی وجہ سے قانونی گرفت سے بچ جاتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جو لوگ ہماری عدالتوں سے سزا یافتہ ہیں یا مفرور ہیں اور جن کے خلاف منی لانڈرگ کے الزامات ہیں ان کو پناہ دینے میں برطانیہ پیش پیش ہے۔ لیکن اس معاملے پر ایف اے ٹی ایف کا اپنا دہرا معیار بھی ہے۔
اسی طرح سے وہ ممالک جو اب تک ایف اے ٹی ایف کے تناظر میں کوئی بڑی کارکردگی نہیں دکھا سکے جن میں چین، نیوزی لینڈ، جارجیا، جمیکا، سری لنکا، امریکا سمیت کئی ممالک ہیں جن کی کارکردگی میں 20سے 53فیصد نکات پر عملدرآمد نہ کرنے کا ہے جب کہ اس کے برعکس پاکستان جس نے 96.1فیصد عمل کیا اسے گرے لسٹ میں رکھنا زیادتی ہے۔ جو تحفظات پاکستان کو مختلف ممالک کے قانون کے ساتھ ہیں یا جو وہ اپنے ملک میں ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے ممالک کی سرپرستی کے سوالات ہیں۔ اس پر عالمی قوتیں سمیت ایف اے ٹی ایف نے خاموشی اختیار کررکھی ہے۔
پاکستان کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ ایک طرف وہ ایف اے ٹی ایف کو بنیاد بنا کرمنی لانڈرنگ کے تناظر میں سخت فیصلے کرے۔ اسی طرح پاکستان کو ان عالمی قوتوں یا مالیاتی نگرانی کے اداروں کے اپنے دہرے معیارات کو سامنے لانا ہوگا جو ہمارے بارے میں قانون سے زیادہ سیاسی تعصب پر مبنی ہیں۔