دانشمندانہ فیصلہ
پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ وقت کا تقاضہ اور لازمی ضرورت ہے اور حکومت نے حالات کو سامنے رکھ کر دانشمندانہ فیصلہ ہے۔ سیاسی پنڈتوں نے کافی عرصہ پہلے ہی یہ پیش گوئی کر دی تھی کہ موجودہ سیکیورٹی مسائل کے پیش نظر آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ ماضی میں مختلف سیاسی اور سیکیورٹی حالات کو مدنظر رکھ کر فوجی سربراہوں کی مدت ملازمت میں توسیع ہوتی رہی ہے۔ اس لیے اس فیصلہ پر تنقید کرنے کے بجائے ہمیں معروضی حالات کومدنظر رکھنا ہوگا اور سمجھنا ہوگا کہ پاکستان کو کیا مسائل درپیش ہیں اور حالات کی ضرورت کیا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے یہاں اہم قومی امور اور بالخصوص سیکیورٹی سے جڑے اہم معاملات پر مسائل کو سنجیدگی سے دیکھنے کے بجائے اس پر سیاسی طرز عمل پیش کرنے یا سیاست کرنے کا رجحان زیادہ پایا جاتا ہے۔ اس وقت پاکستان یقینی طور پر داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر سنگین صورتحال سے دوچار ہے۔ پاک بھارت تعلقات، مقبوضہ کشمیر کی صورتحال میں موجود جنگی جنون، افغانستان کا بحران، ایران، چین، روس سے تعلقات، سی پیک، امریکا سے معاملات سمیت دہشت گردی سے نمٹنے جیسے معاملات کی حساسیت بہت اہم ہے۔ اس وقت دنیا اور بالخصوص علاقائی صورت حال میں جو نئے امکانات ابھرر ہے ہیں اس میں پاکستان کا کلیدی کردار ہے اورجو فیصلے ہونے جارہے ہیں اس کا براہ راست تعلق پاکستان کی داخلی خود مختاری او رسلامتی سے جڑا ہوا ہے۔
جو کچھ حالیہ دنوں میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں کیا ہے اورایک ایسے جنگی ماحول کو دعوت دی ہے جو براہ راست پاکستان پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ بھارت کو یہ بھی کہنا پڑا کہ وہ ایٹمی استعمال میں پہل بھی کر سکتے ہیں اور جس انداز سے بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں اشتعال انگیزیاں بڑھ رہی ہیں وہ ایک نئی جنگ کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
اسی طرح افغانستان کے بحران کے حل میں افغان حکومت اور افغان طالبان اورامریکا کے درمیا ن جو مذاکرات کی فیصلہ کن میز ہم نے سجائی ہے اس پر عالمی دنیا کی نظریں ہیں اور بقول امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے افغان بحران کے حل کی کنجی پاکستان کے پاس ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ حالیہ دورہ امریکا میں پاکستان کی سیاسی اور عسکری دونوں قیادت کو بڑی پذیرائی ملی ہے۔ کیونکہ مسئلہ محض افغان بحران کے حل میں امن معاہدہ کا ہی نہیں ہے۔
اصل مسئلہ اس کے بعد کا جو منظر افغانستان کا ہوگا اس میں امن کو قائم رکھنا اوراس معاہدے پر شفافیت کے انداز میں عملدرآمد کرنا بھی اہم چیلنج ہے۔ یہ چیلنج پاکستان کے بغیر نہیں لڑا جا سکتا اور اس میں ہماری عسکری قیادت کا بھی اہم کردار ہے۔ اس تناظر میں آرمی چیف کی توسیع کو خطہ کی موجودہ صورت حال کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے کہ یہ فیصلہ بروقت بھی ہے۔ اس وقت عالمی دنیا کی نظریں بھی پاکستان پر لگی ہوئی ہیں اورایسے موقع پر پاکستان کی سیاسی اور عسکری دونوں قیادتوں پر بہت زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مل کر ایسے فیصلے کریں جو ریاستی اور قومی مفادات کی ترجمانی کر سکیں۔
جنرل باجوہ کو یہ داد دینی ہوگی کہ انھوں نے اپنی پوری توجہ علاقائی سیاست پر مرکوز رکھی ہوئی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ علاقائی تعاون کے بغیر پاکستان کی داخلی سلامتی بھی ممکن نہیں ہو گی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ بھارت، ایران، افغانستان پر ان کی پوری توجہ ہے اوروہ یہاں سے چاہتے ہیں کہ ہم اپنے تعلقات کو بہتر بنا کر خطہ کی صورتحال میں کلیدی کردار ادا کریں۔ پاکستان کی علاقائی صورتحال کی اہمیت بہت زیاد ہ ہے اوراب ہم اس خطہ کی سیاست کے نہ صرف اہم فریق ہیں بلکہ اپنا موثر اثر بھی رکھتے ہیں۔ اس لحاظ سے پاکستان کی ذمے داری ہے کہ وہ نئی صورتحال میں خود کو خطہ کی سیاست میں قیادت کے طور پر پیش کرے اور خطہ کے باقی ممالک کی نظریں بھی پاکستان پر ہیں اور وہ سمجھتی ہیں کہ پاکستان کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
اچھی بات یہ ہے کہ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت دونوں ایک پیچ پر ہیں اورباہمی مشاورت کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ کیونکہ ماضی میں یہ مسئلہ داخلی اور خارجی سیاست میں بگاڑ اور بداعتمادی کا رہا ہے۔ اس میں یقینی طور پر غلطیاں دونوں اطراف سے ہوئی ہیں، لیکن اس بحران نے ہمیں قومی سیاست اور عالمی مناظر میں مضبوط کرنے کے بجائے کمزور کیا ہے۔
آج کی دنیا میں فوجی اور سیاسی قیادت کا باہمی تعلق کے عمل کو مضبوط کیے بغیر قومی سیکیورٹی پالیسی کا تعین بھی ممکن نہیں ہے۔ موجودہ صورتحال میں دونوں فریقین یعنی سیاسی اور عسکری قیادت ظاہر کرتی ہے کہ ان کو حالات کا ادراک بھی ہے اور ایک دوسرے کی ضرورتوں کا احساس بھی ہے۔ یہ جو حالیہ کچھ عرصے میں ہماری قومی اہمیت عالمی سطح پر اجاگر ہوئی ہے اس کی وجہ بھی سیاسی اور فوجی قیادت کی موثر اورمشترکہ حکمت عملی ہے۔
کچھ عرصہ سے یہ تاثر ابھر رہا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت سے ناخوش ہے لیکن یہ داد دینی ہوگی کہ ہم نے اپنی اہمیت امریکی پالیسی سازی میں بڑھائی ہے اورامریکا ہمیں نظرانداز کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اسی طرح امریکی صدر کی جانب سے مسلسل مقبوضہ کشمیر پر ثالثی کا کردار کا اجاگر ہونا یقینی طور پر پاکستان کی سفارتی کامیابی ہے۔ ملک کے معاشی بحران میں دوست ممالک سے جو مدد ملی اس میں بھی فوجی سربراہ کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اگرچہ بہت سے لوگ مایوسی پھیلانے میں مصروف ہیں لیکن سچ بات یہ ہے کہ داخلی مسائل جس انداز میں اجاگر ہوئے اور اس کے حل میں کچھ نہ کرنے کی روش نے بھی جو سیاسی خلا پیدا کیا اس کا بھی تجزیہ کیا جانا چاہیے۔
پاکستان کے تواتر کے ساتھ خود کو امن پسندی کے طو رپر دنیا میں پیش کیا ہے۔ کیونکہ ہمارا بنیادی نکتہ جنگ نہیں بلکہ بہترتعلقات کی خواہش ہے۔ لیکن بھارت کی حالیہ پالیسیوں نے ہمیں واقعی جنگ کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے۔ ایسی صورتحال میں فوج اور اس کے سربراہ جنرل باجوہ کا کردار بہت بڑھ جاتا ہے۔
کیونکہ پچھلے کچھ عرصے سے ہماری فوجی قیادت جس انداز میں خطہ کے مختلف مسائل سے نمٹنے کی کوششوں کا حصہ ہے ایسے میں ان مسائل کو حل کی جانب لے جانا اور اسے منطقی نتیجہ دے کر اپنے مفادات کو تحفظ دینا بھی اہمیت رکھتا ہے۔ ایسے میں سیاسی اور عسکری قیادت کا باہمی مشترکہ حکمت عملی بنانا اور مل کر مسائل سے نمٹنے کی حکمت عملی قومی مفاد کے زمرے میں آتی ہے اوراس کی اپنی اہمیت بھی ہے۔
اس لیے ہمیں فوجی سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر سیاست کرنے اورمعاملات کو الجھانے کے بجائے حالات کی تصویر کو سمجھ کرمعاملات کو آگے بڑھانا ہوگا۔ پاکستان کی موجودہ صورتحال ماضی کی سیاست خطہ کے مسائل سے بہت مختلف ہے۔ ایسے میں ہمیں قومی اور عالمی سطح پر یہ ہی پیغام دینا چاہیے کہ فوجی سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ نہ صرف داخلی مسئلہ ہے بلکہ جو فیصلہ بھی سیاسی اور عسکری قیادت نے مل کر کیا ہے وہ قومی مفاد میں کیا گیا ہے۔ یہ تاثر دینا کہ اس فیصلہ سے ادارہ جاتی عمل کمزور ہوگا درست حکمت عملی نہیں ہوگی بلکہ موجودہ سیاسی و عسکری قیادت کی ڈاکٹرئن کی مشترکہ حکمت عملی ہمیں نئی کامیابیوں کی طرف لے جاسکتی ہے۔