ایک پارلیمنٹیرین کا حقیقت پسندانہ تجزیہ
پچھلے دنوں مسلم لیگ ن کے اہم رکن اور سابق وزیر خارجہ خواجہ آصف نے پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے پانچ اہم باتیں کی ہیں۔ اول ہم مسائل پر درست حکمت عملی اختیار کرنے کے بجائے ٹریڈمیل پر چڑھ کر مسائل کو حل کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔
دوئم، تین چار سو وہ طاقت ور افراد ہیں جو فیصلہ سازی کا اختیار رکھتے ہیں جو فیصلوں میں اپنا اثرو نفوذ رکھتے ہیں اس لیے اگر ملک کا بحران جاری ہے تو اس میں ذمے دار ہم سب ہی فریق ہیں۔
سوئم، سیاستدان ہمیشہ غیر جمہوری طاقت کے لیے سہولت کاری کا کردار ادا کرتے ہیں اور خود سے سیاست اور جمہوریت سمیت قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کے لیے اتفاق رائے کی سیاست کے خلاف ہیں۔
چہارم، اگر ملک آئین اور قانون کے مطابق نہیں چل رہا تو ہم سب ہی کسی نہ کسی شکل میں آئین شکنی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ پنجم، ملک کے حالات کے لیے ایک دوسرے کو طعنے مارنے کے بجائے داخلی اور خارجی مسائل پر ایک بڑا اتفاق رائے قائم کرنا ہو گا۔
خواجہ آصف کی تقریر پر رکن قومی اسمبلی نور عالم نے ان کو طعنہ دیا کہ لگتا ہے کہ آپ کا سافٹ ویئر درست ہوگیا ہے تو خواجہ آصف نے بھی فوری جواب دیا، جی میرا ہوگیا اور باقی سب جو رہ گئے ہیں، ان کا بھی ہونے والا ہے۔ مسئلہ کسی کے سافٹ ویئرکی تبدیلی کا نہیں بلکہ ملک کو جو مسائل درپیش ہیں ان کا سب فریقین کی سطح پر بہتر ادراک کا ہونا ہے۔ کیونکہ ایک بات تو طے ہے کہ کوئی بھی فریق تن تنہا ملک کے مسائل کو حل نہیں کرسکتا، یہ اجتماعی عمل ہوگا اور اس میں سب فریقین کو اپنے اپنے سیاسی، قانونی اورآئینی دائر ہ کار میں رہ کر کام کرنا ہوگا۔
لیکن سوال یہ ہی ہے کہ جو نکات خواجہ آصف نے اٹھائے ہیں تو اس تناظرمیں بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔ کیونکہ ابھی تک تو ہمارا مجموعی رویہ ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کرکے آگے بڑھنا ہے اور ایسے میں مفاہمت کی سیاست اور قومی مسائل پر ایک بڑا اتفاق رائے کیسے پیدا ہوگا۔
خواجہ آصف نے ملک میں منصفانہ اور شفاف انتخابات کی مدد سے عوام کو حکومت بنانے کے حق دینے کی بات کی ہے۔ یقینی طور پر یہ درست بات ہے مگر ہماری سیاسی جماعتیں کیا واقعی اس ملک میں شفاف انتخابی یا سیاسی نظام کی حامی ہیں کیونکہ جب خود خواجہ آصف یہ اعتراف کرتے ہیں کہ اہل سیاست میں سے ہی بڑا طبقہ سہولت کاری کا کردار ادا کرتا ہے تو کیسے اس کھیل کے آگے بندھ باندھا جائے گا۔
خود خواجہ آصف کی جماعت مسلم لیگ ن تو ماضی میں اسٹیبلیشمنٹ کی لاڈلی جماعت رہی ہے اور آج بھی اسی طور پر سیاست کر رہی ہے۔ خواجہ آصف کی یہ بات درست ہے کہ اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں مگر سب ہی جمہوریت، ووٹ کو عزت دو، پارلیمنٹ کی مضبوطی اور آئین کی اور سول حکمرانی کی بالادستی بات تو کرتے ہیں مگر عملی طور پر ان سب کی سیاست تضادات سے جڑی ہوئی ہے۔
اصل میں پاکستان کی ماضی کی سیاست دیکھیں تو ہمیں سول ملٹری تعلقات میں موجود بداعتمادی اور ٹکراو کی سیاست نے بہت نقصان پہنچایا ہے اور اس میں دونوں اطراف سے غلطیاں ہوئی ہیں۔ ان ہی تضادات کی وجہ سے یہ ملک منصفانہ اور شفاف انتخابات سے بھی محروم رہا ہے اور آج بھی یہاں منصفانہ اور شفاف انتخاب کی دہائی دی جاتی ہے۔ ایک بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں ایک مجموعی کلچر یہ ہے کہ اگر آپ انتخابات جیت جاتے ہیں تو وہ منصفانہ اور شفاف ہوتے ہیں اور ہارنے کی صورت میں وہ دھاندلی پر مبنی ہوتے ہیں۔
یعنی اپنی شکست کو قبول کرنے کا بھی یہاں سیاسی حوصلہ موجود نہیں۔ آج بھی انتخابی اصلاحات کے حوالے سے حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان اصلاحات میں موجود اعتماد سازی کے مقابلے میں بداعتمادی موجود ہے۔ اگر اس دفعہ بھی انتخابی اصلاحات کے تناظر میں کوئی بڑی مثبت پیش رفت نہ ہوسکی تو یہ خدشہ بدستور موجود رہے گا کہ اگلے انتخابی نتائج کو بھی ہارنے والے قبول نہیں کریں گے۔
سول ملٹری تعلقات میں ہمیں ٹکراؤ پیدا کرنے کے بجائے ان دونوں فریقین میں بات چیت کے آغاز کو آگے بڑھانا ہوگا اور نئے حالات کو مدنظر رکھ کر ایک بڑا باہمی اتفاق رائے اور نیا دائرہ کار طے کرنا ہوگا۔ کیونکہ پاکستان جن بڑے سیکیورٹی سمیت داخلی، علاقائی یا عالمی چیلنجز سے گزر رہا ہے اس میں ہمیں زیادہ سے زیادہ دونوں فریقوں میں اعتماد سازی، باہمی فیصلے، مشاورت اور مسائل پر باہمی سمجھ بوجھ درکار ہے تاکہ ہم بڑے چیلنجز کا بہتر طور پر مقابلہ کرسکیں۔
جو مسائل آج بھی ہم حکومت، اسٹیبلیشمنٹ اور حزب اختلاف کے درمیان دیکھ رہے ہیں، اس کا براہ راست فائدہ ان قوتوں کو ہورہا ہے جو واقعی ہمیں غیر مستحکم دیکھنا چاہتی ہیں۔ اس لیے مسئلہ کسی ایک فریق کا دوسرے فریق پر فتح حاصل کرنا نہیں بلکہ باہمی تناؤ کو ختم کرکے ایک بڑے اتفاق رائے کی طرف بڑھنا ہوگا۔ خود خواجہ آصف کو بھی سمجھنا ہوگا کہ جو حالیہ مسلم لیگ ن میں بیانیہ کے نام پر ٹکراؤ ہے وہ واضح طور پر دیکھا جارہا ہے اور یہ ٹکراؤ خود ان کی اپنی جماعت کے حق میں بھی نہیں مگر یہ کیسے ٹکراؤ کم ہوگا یا کیسے الزامات کی سیاست سے باہر نکلا جائے گا، خود بڑا سوالیہ نشان ہے۔
ہمیں واقعی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنا چاہیے کیونکہ موجودہ صورتحال میں ہمارے پاس غلطیوں کی گنجائش بھی بہت کم ہے۔ ایک طرف ملک میں آئین، قانون اور سول بالادستی کی جنگ ہے تو اس جنگ کو عوامی مفادات اور شفاف حکمرانی کے نظام سے جوڑنے کے لیے بھی ایک منصفانہ اورشفاف حکمرانی کے نظام، ڈھانچہ اور طریقہ کار پر نیا اتفاق رائے بھی درکار ہے۔ کیونکہ عوامی مفادات سے جڑی سیاست اور حکمرانی کا نظام اپنی افادیت کھوچکا ہے اور لوگ ایک نئے حکمرانی کے متبادل نظام کے منتظر ہیں اوراس کے لیے بالخصوص ملک میں سیاسی، انتظامی اورمالی بنیادو ں پرخود مختار مقامی نظام حکومت کی ضرورت ہے جو براہ راست لوگوں کے مفادات کو مقامی سطح پر تحفظ دے سکتا ہے۔
سیاست دانوں کو قوم میں ایک سوچ اور فکر مضبوط بنانی یا قائم کرنی ہوگی کہ ان کی سیاست، جمہوریت اور جدوجہد کا بنیادی ماخذ عملاً عام آدمی کی سیاست کو مضبوط بنانا ہے۔ کیونکہ اس وقت بڑا چیلنج یہ ہے کہ جس طرح سے عام آدمی کی زندگی مشکل بن رہی ہے اسے کیسے ہم حکومتی یا ریاستی سطح پر سیاسی، قانونی اور مالی تحفظ دے سکتے ہیں۔ کیونکہ جب کوئی بھی سیاسی نظام عوامی ساکھ قائم نہیں کرتا اور لوگوں کا ریاستی یا حکومتی نظام پر اعتماد بحال نہیں ہوتا تو بڑی تبدیلی کا عمل ممکن نہیں ہوسکے گا۔ لیکن کیا اہل سیاست سمیت طاقت کے مراکز عوامی مفادات کو بنیاد بنا کر کچھ بڑے کڑوے فیصلے کرنے کے لیے تیار ہیں، اگر نہیں تو کچھ تبدیل نہیں ہوسکے گا۔