طارق عزیز کے نام کا میوزیم بنایا جائے
پاکستان سے دیوانگی کی حد تک پیار کرنے والا پاکستان کا بیٹا، پاکستان زندہ باد کے نعرے کو حرز جان بنانے والا کس موسم میں، کن دنوں میں ہم سے جُدا ہوا۔ لاہور شہر کیا پورا پنجاب املتاس کے کچے پیلے رنگے لانبے گچھوں سے بوجھل اُداسیوں اورمایوسیوں کی سوگواریوں میں لپٹا پڑا ہے۔ اس کی ذات کا کوئی ایک پہلو تھوڑی تھا۔ وہ تو ہمہ جہت تھا۔ پی ٹی وی کے پہلے اناؤنسر کا اعزاز اس نے اپنے نام ہی نہیں کیا بلکہ آنے والے دنوں میں سکرین کا یہ ہیرو اپنی منفرد پہچان بنانے میں کامیاب اپنے پروگرام کے ذریعے ہر خاص و عام پاکستانی کے دل میں گھر کرچکا تھا۔ اس کی آواز کی گھن گرج شعروں کے نگینوں سے سجا اس کا موہ لیتا انداز گفتگو، اس کی پھرتیاں چستیاں لوگوں سے بھرے ہال میں بس اس کا وجود سارے ماحول پر چھایا نظر آتا تھا۔
"نیلام گھر" محض ایک پروگرام نہیں تھا یہ ایک تربیت گاہ تھی یہاں تاریخ، جغرافیہ، سائنس، سیاست سب پڑھائے جاتے تھے۔ یہ جنرل نالج کی کلاس تھی جو ہنستے ہنساتے علم کے دروازے کھولتی تھی۔ اُن زمانوں میں بھلا کونسی ایسی ادبی، سماجی یا سیاسی شخصیت تھی جو اس کے پروگرام میں نہیں گئی۔ بڑی میٹھی سی یادوں کی لام ڈور ہے جو یکے بعد دیگرے دامن دل سے لپٹی جارہی ہے۔ پہلی خوبصورت یاد نے دستک دے دی ہے۔ بیٹی بیاہنے کی عمر میں تھی۔ ایک دن ممیرے بھائی فون پر اپنے جاننے والے کا رشتہ بتا تے ہوئے کہتا تھا۔ لڑکی انہوں نے دیکھی ہے بس اب وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ حیرت تھی میرے لہجے میں جب پوچھا کہ لڑکی انہوں نے کب اور کہاں دیکھی ہے؟ ارے بھئی کہیں آپ طارق عزیز کے نیلام گھر میں بیٹی کے ساتھ گئی ہونگی۔ بس انہوں نے دیکھا اور پسند کرلیا تھا۔ رنگت میں نے بتا دی کہ چنبیلی جیسی ہے۔ اب آپ خود سوچئے کہ ماں کےلئے سجدئہ شکر والی بات ہی تھی نا کہ ماں بیٹی ٹرالیاں سجا سجا کر پیش کرنے سے بچ گئیں۔
دوسری یاد اس کی ہم پاکستانیوں کا سربلند کرنے والی تھی۔ اب قصہ سنئیے ذرا۔ پہلے چٹھی ملی تھی پھر تھوڑی دیر بعد ہی ہوا میں تیرتی اُس دل کش و دلربا حسینہ کی آواز کانوں سے ٹکرائی تھی۔ یہ ڈاکٹر شائستہ نزہت تھی جو فون پر مجھ سے مخاطب تھی۔"وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی بھارت کے شہر پٹیالہ میں ہونےوالی ورلڈ پنجابی کانفرنس کے مہمان خصوصی ہوں گے۔ آپکا نام اُن کے ساتھ جانے والے وفد میں شامل کیا گیا ہے۔ کاغذات فوراََ بھجوایئے"۔ کاغذات کی خانہ پُری مکمل ہونے پر جانے کا اذن ملا۔ اپنے اپنے اٹیچی کیسوں کو دھکیلتے ہندوستانی علاقے میں داخل ہوگئے۔ تو دیکھا طارق عزیز اور مایہ ناز کارٹونسٹ جاوید اقبال بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ طارق عزیز بھلا انہوں نے ہمیں کیا پہچاننا تھا۔ آگے بڑھ کر وفورِ شوق سے سلام داغا۔ جاوید اقبال سے بھی ہیلو ہائے ہوئی۔ مزے کی بات جگہ بھی اسی گاڑی میں ملی جن میں دونوں دوست تھے۔ اب ہماری بونگیاں دیکھیں۔
جالندھر میں سے گزرتے ہوئے طارق عزیز سے کہتی ہوں۔ آپ کی جنم بھومی بھی تو جالندھر ہے کیا محسوس کررہے ہیں؟ ایک متین سی مسکراہٹ طارق عزیز کے لبوں اور آنکھوں میں بکھر جاتی ہے اور وہ جوابی حملہ کرتے ہیں۔"اپنے احساسات بارے بتائیے۔"، "سچی بتاؤں۔"جذب بھرا لہجہ تھا میرا۔ اس وقت جی چاہ رہا ہے کہ درواز ہ کھول کر چھلانگ ماروں اور بھاگتی بھاگتی اُس گاؤں چلی جاؤں جسکے ہجر میں میں نے اپنی ماں اور ماسیوں کو آہیں بھرتے دیکھا تھا۔ جو اُنکا دیس تھا۔ جنکی گفتگو کی ہرتان "دیس"کے ذکر پر ٹوٹتی تھی۔ طارق کھلکھلا کر ہنس پڑے۔"جی تو میرا بھی یہی چاہتا ہے۔"ساتھ میں دو عدد شعر بھی سُننے کو ملے۔
اب رات ہو گئی تھی۔ رات میں پٹیالہ کا حُسن تو کیا نظر آتا۔ البتہ بس میں بیٹھے لوگوں کے تبصروں نے خوب ہنسایا۔ رات کو بڑا ہنگامہ رہا۔ سرکاری وفد کے دو بسوں کے مسافروں کو چندی گڑھ جانا تھا۔ راستے میں منو بھائی کی پھلجڑیاں تھیں۔ طارق عزیز اور اُنکے ساتھی جاوید کی گھمبیر سی خاموشی تھی۔ لگتا تھا تھکاوٹ اور نیند غالب آئی ہوئی ہے۔
پوربی پنجاب اپنے کلچر میں کس قدر امیر ہے۔ اسکا اندازہ اُس شام ہوا جب لڑکیوں نے گِدّا ڈالا۔ سُچا، سچا اور کھرا روایتی گِدّا، پاؤں کی مخصوص بیٹ اور سٹائل آواز کا کھرج، تالی کا ردّھم اور مکمل روایتی کا سٹیوم۔ ہمارے گاؤں میں اب یہ سب نظر نہیں آتا۔ بھنگڑے، راجستھانی رقص اور کتھک ناچ سبھوں نے دل خوش کیا۔ سب سے بڑھ کر ہنس راج ہنس کے خوبصورت گانوں اور نصرت فتح علی خان کے حضور انکار نذرانہ عقیدت۔ سبھی کچھ اچھا تھا۔ بس اگر کچھ کھٹکا تھا تو وہ باتیں تھیں جو سرِ عام ہوئیں۔ پنجاب کی ڈپٹی وزیر اعلیٰ میڈم بٹھل سے لےکر بعض ذمہ دارلوگوں کی باتیں کہ جنہیں لکیر کے کھینچنے کا دُکھ تھا۔ کچھ ایسی تجاویز، کچھ ایسی باتیں کہ یہ پھر دو سے ایک ہوجائیں۔ ہمارے جیسے لوگوں کیلئے جنکی شعور کی آنکھ آزاد فضاؤں میں کُھلی تھی بڑی تکلیف دہ تھیں۔
اگلی شام طارق عزیز کا خطاب تھا۔ پاکستان کے نمائندے نے اپنی پاکستانیت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے جذبات کو بہت خوبصورتی اور حُسن دیا۔ وہ بول رہے تھے۔ میں پوربی پنجاب کے کلچر سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ مگرکلچر کا تعلق زمین اور رہتل کی ایک جیسی بے شمار چیزوں کی مماثلت کے ساتھ ہی نہیں جڑا ہوتا۔ مذہب جیسا اہم فیکٹر بھی اس پر اثر انداز ہوتا ہے۔ دونوں حصوں کے کلچر کا موازنہ کرتے ہوئے یہ بات ہمارے مدّنظر ہونی چاہیے۔ تاہم ہمیں اپنے ثقافتی ورثے کو محفوظ کرنے کی اشد ضرورت ہے جو اب معدوم ہوتا جارہا ہے۔ یورپ کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا جنگیں مسائل کا حل نہیں۔ چھوٹے چھوٹے ملک ایک دوسرے سے جڑے ہوئے کس سرعت سے ترقی کی منزلیں طے کر گئے ہیں۔ اور ہم ہیں کہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو مان لینے میں ہی ہماری عافیت اور نجات ہے۔ آئیے ایک دوسرے کو احترام دیں اور ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر آگے بڑھیں۔ جذبائیت کے بہاؤ میں مجمع کو بہا لے جانے کا فن انہیں فطرت نے وویعت کیا تھا جس کے وہ شہنشاہ تھے مگر اس شام ان کی اس خوبی کے ساتھ سیاسی شعور، دلائل اور دنیا کے حوالوں سے باتوں نے وہ سماں باندھا کہ جس کےلئے کہا جاتا ہے فلاں نے میلہ لوٹ لیا۔ سچ تو یہ تھا کہ اس شام کا میلہ انہوں نے لوٹا تھا۔ اجنبی دھرتی پر۔
ہال میں انہیں سُنتے ہوئے ہماری آنکھیں بھیگ رہی تھیں انہوں نے ہمارے وسوسوں، اندیشوں پر مرہم کے پھاہے رکھ دئیے تھے۔ ہم کھل اٹھے تھے۔ ہم نے بے اختیار کہا تھا۔"طارق عزیز ہمیں آپ پر فخر ہے۔"
پاکستان کے بیٹے نے پاکستان کو وہ سب کچھ لوٹا دیا ہے جو اُسے ملا تھا۔ اب یہ پاکستان کا فرض ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو ہمیشہ کےلئے امر کردے۔ اس کے نام کا میوزیم بنانے کی ضرورت ہے۔