کیا میرے وطن کے کسی لیڈر کی بھی یہ سوچ ہے؟
پیٹرز برگ کے سمولینی میوزیم جاکر مجھے احساس ہوا تھا کہ انقلاب ایسے نہیں آتے۔ حقوق کیلئے شعورو آگہی کا ادراک بنیادی ضرورت ہے۔ اس ادراک کیلئے جاننے کی لگن اور تڑپ چاہیے۔ رُوسی عوام نے اسکا عملی مظاہرہ کیا تھا۔ رُوس پڑھنا سیکھ رہا تھا۔ سیاست سے اُسکی دلچسپی تاریخ اور فلسفہ میں اُسکا انہماک، سماجی و معاشی نظریات کو جاننے میں اُسکا شوق بے پایاں تھا۔
جان ریڈ کی ایک تحریر اس جذبے کی عکاس ہے۔
اُنیسویں صدی کی آخری دہائی "ریگا"کی بیک پر بارھویں فوج کا محاذ، کیچڑ بھری خندقوں میں، ننگے پاؤں، فاقہ زدہ اور بیمار فوجیوں جنکے چہرے پیلے، آنکھیں اندر دھنسی ہوئیں کپڑے پھٹے ہوئے تھے۔ جنہوں نے ہمیں دیکھتے ہی پہلا مطالبہ یہ کیا تھا۔ ہمارے پڑھنے کیلئے کیا لائے ہو؟
یہ جذبہ یونہی پیدا نہیں ہوا۔ انقلابی لیڈروں نے اپناسارا فوکس لوگوں کو علم اور شعوردینے پر صرف کر دیا تھا۔
برآمدے میں گھومتے پھرتے ہوئے میرے تصورمیں محنت کے پھولوں سے سجے وہ ہزاروں کھردرے ہاتھ ابھرے تھے جو "داس کپیٹل" کی کئی جلدوں کو پھاڑ کر انکے صفحے بانٹ لیتے اور اپنی جسمانی تھکن کو انہیں پڑھتے ہوئے اُتارتے۔
کر پسکایا کی ایک تحریر ان دنوں کے بارے میں ہے۔ جب تحریک عروج پر پہنچ گئی۔ اور لینن پیٹرز برگ میں موجود تھا۔
میں جس گھر میں رہتی تھی۔ اس گھر کی کھڑکی کھول کر جب بھی باہر دیکھتی مجھے زور شور سے باتوں کی آوازیں آتیں۔ ڈیوٹی پر متعین سپاہی کے پاس ہمیشہ سا معین ہوتے۔ نوکر خانسامے بالشویک منشویک زار، زارینہ، ڈوما سب کے بخیے اپنی اپنی فہم وفراست کے مطابق اُدھیڑ رہے ہوتے۔ اُن دنوں چاندنی راتوں کی شب بھر جاری رہنے والی سیاسی بحثوں کو کبھی نہیں بھول سکتی۔ یہ سب ہمارے لئے بہت اہم ہوتا تھا۔ یہ رُوسی عوام کی بیداری تھی۔ یہ انکی اپنے حقوق کیلئے جنگ تھی۔
توپھر میں بلند وبالا سفید ستونوں، دوہری دیواری کھڑکیوں اور اُونچی چھت والے ہال میں داخل ہوتی ہوں۔ اس سمولنی نے بھی رُوس کے اُفق پر چھائے ظلم وستم کے بادلوں کو اُڑانے میں تیز اور شوریدہ سرہواؤں جیسا کردار ادا کیا تھا۔
میں ہال میں سیاحوں کیلئے رکھی گئی کُرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گئی تھی۔ یقینا میں اپنی کھلی آنکھوں سے اُن مناظر کو دیکھنا چاہتی تھی جو کبھی البرٹ ولیم نے دیکھے تھے۔ جنکے بارے میں اُسنے اور جان ریڈ نے لکھا تھا۔
جب چیئرمین کا یہ اعلان کا مریڈ لینن خطاب کرینگے۔"ریڈ " کہتا ہے میں نے دم سادھ لیاتھا اور خود سے کہا تھا "تو کیا وہ ایسا ہی ہوگا؟ جیسا ہم نے سوچا ہے۔"
وہ ہماری تصوراتی سوچوں کے بالکل برعکس تھا۔ چھوٹا، گٹھیلا سا، اسکی داڑھی اور مونچھوں کے بال اکڑے ہوئے، بہت کھردرے، آنکھیں چھوٹی چھوٹی، بیٹھی ہوئی ناک، چوڑا دہانہ اوربھاری ٹھوڑی۔ گندے مندے سے کپڑے.پتلون تو بہت لمبی تھی۔ قطعی طور پر ایک غیر موثر شخصیت۔
میں ایک جھٹکے سے اٹھ کر اُس پورٹریٹ کے سامنے جاکھڑی ہوئی تھی جو دیوار پر آویزاں تھا۔ لینن خطاب کرتااور لوگوں کا جمّ غفیر اسکے گرد جمع تھا۔
میں نے اُسے بغور دیکھا۔ وہ ایسا ہی تھا جیسا ریڈاور البرٹ ولیم نے محسوس کیا۔ وہ لیڈر تھا، ایک دانشور، رنگ ونسل سے بالا، نہ بکنے، نہ جھکنے والا۔
البرٹ بالشویکوں کی جراُت، دلیری اور تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کی کاوشوں پر متاثر تھا پر اُنکے لیڈر کو دیکھ کر مایوس ہوا تھا۔
میں نے اپنے آپ سے پوچھا تھا۔ کیا مجھے بھی کوئی ایسا احساس ہوا ہے؟
"ارے کہاں۔ ہم تو خوبصورتیوں اور دراز قامتوں کے ڈسے ہوئے ہیں۔"
کرپسکایا کہتی ہے۔ لینن اور ٹراٹسکی کی آنکھیں سوجی ہوئی اور چہرے سُتے ہوئے ہوتے۔ کپڑے میلے۔ کبھی کبھی ایسے لگتا جیسے نیند میں چلتے ہوں۔ مجھے یہ خوف ستانے لگتا کہ اگر انکی یہی حالت رہی تو انقلاب خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
انقلاب کی تاریخ مرحلہ وار دیواروں پر آویزاں تھی۔
انقلاب کی شام ٹراٹسکی اورلینن چند لمحوں کیلئے اندر آئے۔ وہ تھکے ہوئے تھے۔ فرش پر پرانا پھٹا ہوا کمبل کسی نے بچھایاتھا۔ کوئی بھاگ کر دوتکیے لایااور وہ دونوں ساتھ ساتھ لیٹے۔ انہیں نیند نہیں آرہی تھی۔ وہ اپنے جسموں کو تنے ہوئے تاروں کی طرح محسوس کرتے تھے۔
اور جب لینن نے کہا تھا۔ یہ کیسا حیرت انگیز نظارہ ہے۔ محنت کش نے سپاہی کے پہلو بہ پہلو رائفل ہاتھ میں پکڑی ہوئی ہے۔
پھر میں ایک اور کمرے میں داخل ہوئی۔ اس کمرے کی تاریخ اُسکی پیشانی پر رقم ہے۔ یہ کمرہ جہاں وہ تاریخی شخصیت میز پر بیٹھی لوگوں سے گھری ہوئی ہے۔ لینن انقلاب سے متعلق چیزوں کے بارے میں زیادہ ٹچی نہیں تھا وہ ا سکی گہرائی اور روح کا متمنی تھا۔
ڈھیروں ڈھیر کمرے اپنے اندر انقلاب کی کہانیاں سناتے ہیں۔ جو طویل بھی ہیں اور مشکل بھی۔
پر اُس چمکتی دوپہر میں ماتمی گیت میرے لبوں پر آگیاتھا۔ کوئی سچا بے لوث مقصد کے لئے زندگی داؤ پر لگانے والا لیڈر میری کتنی بڑی تمنا تھی۔
لوگوں کی آزادی اور وقار کے لیے
ایک لفظ کہے بغیر تم نے زنجیریں پہنیں
کیونکہ
تم اپنے لوگوں کا دکھ برداشت نہیں کرسکتے تھے
کیونکہ تم سمجھتے تھے کہ انصاف زیادہ طاقتور ہے تلوار سے
کیا میرے وطن کے کسی لیڈر کی بھی یہ سوچ ہے میں نے خود سے پوچھا تھا