ذمہ دار کون؟
شیخ سعدی نے کہا تھا کہ ایک سال دمشق میں ایسا قحط پڑا کہ لوگ عشق کرنا بھی بھول گئے۔ یقین جانئے، یہ برس ایسا گزرا ہے کہ وہ باتیں جو زندگی میں عزیز ترین ہوا کرتی تھیں، ان کا تذکرہ کرنے کا بھی یارانہ رہا۔ مثال کے طور پر ایک سرکاری ترجمان نے فلسفہ جھاڑا کہ قائداعظم پاکستان کو ایک مذہبی ریاست بنانا نہیں چاہتے تھے، انہوں نے تو بس مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن بنایا تھا۔ قطع نظر اس بات کے کہ میں ان کو بتاتا اس تصورپر اہل دانش نے اب تک کیسی کیسی باتیں کی ہیں، مجھے تو یہ خیال تک نہ آیا کہ انہیں بتا سکوں کہ ذرا یہ بات اپنے لیڈر عمران خان کو سمجھائو جو پاکستان میں ریاست مدینہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ کیا خیال ہے ریاست مدینہ کسی سیکولر ریاست کا نام تھا۔
یہ بات تو بس یونہی برسبیل تذکرہ آ گئی اور بہت سے سوال ہیں جو جواب کے منتظر ہیں اور اس بیچاری قوم کو اپنی زندگیوں کی پڑی ہوئی ہے۔ یقین کیجئے، ان کا منہ توڑ دیا جائے جو مہنگائی کا دفاع کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ چاہے وہ کہتے ہوں ایسی مہنگائی تو نہیں ہے۔ صرف دو ارب کا ٹیکس لگا ہے۔ چاہے یہ کہہ رہے ہوں چار روپے دوا کی گولی اب سات روپے کی ہو گئی ہے تو کیا قیامت آ گئی ہے۔ یا یہ سمجھا رہے ہوں کہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے، دنیا بھر میں مہنگائی ہو گئی ہے۔
یہ نہیں بتاتے کہ آیا دنیا میں مہنگائی میں اتنا ہی اضافہ ہوا جتنا پاکستان میں خاص طور پر بھارت اور بنگلہ دیش سے موازنہ کرنے والے یہ تو بتاتے چلیں کہ ان ملکوں میں افراط زر کی سطح اتنی ہی بڑھی ہے جتنی پاکستان میں یا ڈالر کی قیمت میں اتنا ہی اضافہ ہوا ہے جتنا میرے پیارے دیس میں۔ اور اب تو ہم اپنے سٹیٹ بینک کو خود مختار و آزاد کرنے جا رہے ہیں اور یہ ماننے کو تیار نہیں کہ اسے آئی ایم ایف کے چنگل میں دینے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔
اعداد و شمار کا مقابلہ ہورہا ہے۔ ہر کوئی اپنے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایسے میں سچ کی تلاش اور مشکل ہو گئی ہے مگر عوام کے لیے یہ جاننا مشکل نہیں، ان کے لیے اعداد و شمار کے جال میں الجھنے کی ضرورت نہیں۔ ان کو ضرورت نہیں کہ وہ یہ جانے کس کے اعداد و شمار درست ہیں، کس کے غلط۔ مہنگائی کا عذاب سے اگر وہ گزر رہے ہیں تو انہیں کوئی اعداد و شمار مطمئن نہیں کرسکتے یا درست طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ کوئی اعداد و شمار گمراہ نہیں کرسکتے۔ خواجہ آصف نے اسمبلی میں کہا کہ یہ منی بجٹ سقوط مشرقی پاکستان سے بڑا سانحہ ہے۔ ہم نے عالمی مالیاتی ادارے کے آگے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔
عجیب بات یہ ہے کہ اس کے جواز بھی پیش کرتے پھر رہے ہیں۔ قوم کو مسخرے پن سے قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ بھنگ پی کر چین کی نیند سو جائیں۔ اس تباہی میں ہر کوئی ذمہ دار ہے۔ ایک بار ژاں پال سارتر نے کہا تھا کہ دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے، اس کا ذمہ دار میں ہوں۔ اس میں کے لفظ پر ناک بھوں چڑائی گئی تھی، ہمارے جیسے چھوٹے لوگ مگر اس کی عظمت و حرمت کے قائل ہو گئے تھے، کیا آج یہ وقت نہیں کہ ہم اعتراف کریں کہ ہم میں سے ہر کوئی اس کا ذمہ دار ہے۔ ہر شخص نہ سہی، ہر ادارہ کہہ لیجئے۔ ہم میڈیا والے پاکستان کے دوسرے ادارے بھی۔ ان میں بعض کا نام لینے میں قلم کانپنے لگتا ہے۔
فوج، عدلیہ، پارلیمنٹ، حکومت، اپوزیشن، درسگاہیں کون کون اس کا ذمہ دار نہیں۔ ایک ایک خدا کے حضور جوابدہ ہونا پڑے گا جس قوم نے ایک بڑی جدوجہد کے بعد آزادی حاصل کی تھی اسے ہم غیروں کے ہاتھوں گروی رکھ رہے ہیں۔ اپنی آزادی کی حفاظت بھی نہیں کر پا رہے۔ آخر اس کا جواب تو دینا ہوگا۔ سب کو دینا ہوگا۔ سب اداروں کو میں زور دے کر کہہ رہا ہوں۔ جی ہاں، ہم میڈیا والوں کو بھی اور باقی سب کو بھی۔ ایسی ایسی داستانیں ہیں جو ان کہی ہی رہ جاتی ہیں۔
اس لیے نہیں کہ ان کے بیان کے لئے جرأت چاہیے بلکہ اس لیے بھی کہ انہیں اظہارپانے کا کوئی راستہ نہیں ملتا۔ خطرات اتنے زیادہ ہیں کہ آدمی سوچتا ہے کہ کسی ادارے کو بھی نقصان پہنچا تو یہ ملک کا نقصان ہوگا مگر یہ نقصان اب بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ خدا میرے ملک کی حفاظت کرے۔ اور ملک سے زیادہ اس ملک میں رہنے والوں کی حفاظت فرما، اے میرے مولا۔ ملک رہنے والوں سے عبارت ہیں:
وطن چمکتے ہوئے کنکروں کا نام نہیں
یہ میرے جسم میری روح سے عبارت ہے
ہم نے جسم کو زخمی کیا، روح کو زخمی کیا، یہ کوئی زخمی روحوں اور زخمی جسموں کا وطن ہے۔ ہرگز نہیں، یہ توانا، زندہ جاوید لوگوں کا ملک تھا جن کی روحیں بھی آزاد تھے اور جسم بھی۔
صرف ایک مثال یاد ہے۔ 2008ء کے قریب جب ایک عالمی مالی بحران آیا یا اس سے پہلے 1997ء کے قریب ایک ایسا مصنوعی بحران پیدا کیا گیا تو عام طور پر کہا جاتا تھا کہ پاکستان پر اس کا زیادہ اثر نہیں پڑا۔ اس لیے کہ پاکستانیوں کو دو وقت کی روٹی چین سے ملتی تھی۔ ہم گندم چاول اتنی پیدا کرلیتے تھے کہ کوئی بھوکا نہیں مرتا تھا۔ کپاس وغیرہ کی فصلوں سے ہم نہ صرف اپنا تن ڈھانپتے تھے، بلکہ اتنا زرمبادلہ کما لیتے تھے کہ ملک کی باقی ضروریات پوری ہو جاتی تھیں۔
ہماری ٹیکسٹائل کی صنعت ہمیں ساٹھ فیصد سے زیادہ زرمبادلہ کما کر دیتی تھی۔ چاول، چمڑے اور اپنی دوسری زرعی مصنوعات سے ہم قوموں کی برادری میں فخر سے سر بلند ہونے کے قابل تھے۔ عالمی بحران ہم پر اثر نہ کرتا تھا۔ ہم نے اب ملک کو اس حالت پہنچا دیا ہے کہ لوگوں کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہیں۔ یہ ہے تمہاری ریاست مدینہ۔ سیاست کے کھیل سے اللہ کی پناہ۔ ہر کوئی سیاست کر رہا ہے۔ برادری، ہر شخص، ہر کوئی دوسرے کو مجرم گردانتا ہے اور خود کو بری الذمہ۔ اے خدا مجھ پر اپنی رحمت فرما۔ ہر کسی کو اپنی ذمہ داری پہچاننے کی توفیق دے۔
اس وقت دماغ میں دلائل اور اعداد و شمار کو ابنار امڈ آیا ہے مگر دلیل دینے کو دل ہی نہیں کرتا۔ کون سنے گا اس نقارخانے میں طوطی کی آواز۔ شاید خود بھی سن نہ پائوں۔ کسے سنائوں اپنی بات کی کیا دوں دلیل۔ ایسا شور پڑا ہے کہ کچھ سمجھ نہیں آتا۔ سکون سے سوچنے اور غور کرنے کا کسی کے پاس وقت نہیں۔ آپا دھاپی پڑی ہے۔ قیامت کی نشانی ہے نا۔ کتابوں میں یہی لکھا ہے۔ سچے سچے لوگ جھوٹ بھول رہے ہیں۔ ایسے میں کون کسی کی سنے گا۔ قیامت کی گھڑی آن پہنچی ہے۔ روز حساب ہے روز حساب۔ اللہ سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔