تاریخ کا ظالم پہیہ
کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ ریاست کے معاملات ایسے ہی چل رہے ہیں۔ ہم عجیب عالم تذبذب میں ہیں۔ ایک طرف تو خوشی ہے کہ دھرنا کرنے والوں سے معاہدہ ہو گیا۔ خون خرابے کا خطرہ ٹل گیا۔ دوسری طرف اس اضطراب میں ہیں کہ سب کچھ ہوا کیسے۔ کس نے یہ معاہدہ کرایا اور اسے خفیہ کیوں رکھا گیا۔ وزیر اعظم سے ملنے والے علماء اور مشائخ اور تھے اور معاہدہ کی نوید سنانے والے مفتی اعظم دوسرے تھے۔ ان کی ملاقات کی تصویریں کہیں اور نظر آئیں۔ ان کے ساتھ اور کون کون تھے اور کیوں تھے۔ بلا شبہ آرمی چیف نے یہ ذمہ داری براہ راست ادا کی، مگر لوگوں کو اس پر یہ تشویش ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ سویلین ادارے اور حکومت ناکام ہو چکی ہے۔
اور بہت سے سوال ہیں۔ ایک وزیر نے یہ کیوں کہا کہ اگر ہم ان دہشت گردوں سے اتحاد کریں گے تو عالمی طور پر تنہا رہ جائیں گے۔ تو کیا ہم نے جب انہیں کالعدم قرار دیا تھا، تو کیا یہ عالمی دبائو کا نتیجہ تھا۔ سوال ایک نہیں کئی ہیں، پولیس کے نو شہیدوں کے خون کا حساب کون دے گا؟ آخر پولیس کچھ کرتی کیوں نہیں۔ کیا ماڈل ٹائون کے واقعے کے بعد انہوں نے طے کر لیا ہے کہ وہ کوئی خطرہ مول نہیں لیں گے۔ فائر یاکا استعمال تو بالکل نہیں کریں گے۔ ڈاکٹر مبشر حسن کہا کرتے تھے پولیس ہی ریاست ہے۔ تو کیا ریاست مفلوج ہو گئی ہے۔ وہ اپنے بندے مروا کر اپنی کمزوری کا اظہار تو کر دیتی ہے مگر اسلحہ اٹھانے سے انکار ی ہے۔ ماڈل ٹائون سے پہلے ایسا نہ تھا۔
ہم اس کے جواب میں رینجرز کو طلب کرتے ہیں یعنی اس ادارے کی مدد چاہتے ہیں جو وزارت دفاع کے ماتحت ہے اور جو عملی طور پر فوج ہی کا ایک ذیلی ادارہ ہے۔ ہم گویا ان کو آگے کر دیتے ہیں کہ بھئی آئو کچھ کرو۔ ہم تو ایک پیج پر ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہم عوام پر گولیاں برسانے کے لئے نہیں ہیں۔ یہ جواب پہلے بھی آتا تھا، اب بھی آیا ہے۔ ماڈل ٹائون کے بعد جو دھرنا اسلام آباد میں ہوا، اس پر بھی ایسی ہی صورت حال تھی اور اس کالعدم تحریک لبیک کے شہرہ آفاق فیض آباد کے دھرنے پر بھی یہی صورت رہی ہے۔ تاہم یہی ہوا تھا کہ سول انتظامیہ ناکام ہو گئی تو ہمارے عسکری خفیہ ادارے نے صلح صفائی کرائی۔ اس دن سے یہ تحریک وجہ نزاع بنی ہوئی ہے۔ سوال اٹھنے لگے کہ یہ کیوں آتی ہے اور کیسے جاتی ہے۔
میں یہ نہیں کہتا کہ ان کی پشت پناہی کی جاتی ہے، تاہم یہ ضروری کیوں ہے، ایسے جتنےاداروں کو قابو میں رکھنے کے لئے جو کچھ کیا جاتا ہے، جیسے انگریزی میں انگینج کرنا کہتے ہیں، وہ کبھی سود مند نہیں ہوا۔ وہ غیروں کے ہاتھ میں کھیل گئے۔ سب سے بڑی مثال ایم کیو ایم ہے۔ اسے جس بھی اچھی نسبت سے کھڑا کیا گیا ہو، جلد ہی اس پر الزام لگا کر ڈیل کراس کر رہی ہے۔ ہمارے دشمن بھارت کی ایجنسیوں کی آلہ کار بھی ہے اور ہمارے اداروں کو بھی انگیخ رکھتی ہے۔
میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ اس تنظیم کو بنے 30سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا، اب اس کے خفیہ راز فاش کر دیے جانا چاہیے۔ پختونوں کی تنظیم سے بھی ہم نے یہی کیا۔ اگلے ہی دن جب وہ نعرے لگاتے نکلے تو ہم نے بتایا کہ راتوں رات 5ہزار اکائونٹ کھل گئے تھے، (اکائونٹ سے مراد بنک اکائونٹ نہیں، سوشل میڈیا پر کھلنے والے اکائونٹ ہیں)یہ سب کچھ وہی سے ہو رہا ہے۔ ہم نے انہیں پھر بھی انگیج رکھا۔ اسمبلیوں میں کبھی جگہ دی، کبھی ان سے مذاکرات کئے اور بھی بہت سے معاملات ہیں جب ہم نے نیک نیتی اور حب الوطنی کے جذبے سے چاہا ہو گا کہ انہیں مین سٹریم میں لایا جائے۔
یہاں میں جملہ معترضہ کے طور پر کہتا چاہوں گا کہ صرف ایک تنظیم ایسی ہے جو درست طور پر مین سٹریم میں آنے کو تیار تھی اور یہ حافظ سعید صاحب کی تنظیم تھی جس کے کئی نام تھے۔ ہم ہر بار انہیں نام بدلنے پر مجبور کرتے رہے، ہم نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ مین سٹریم میں آ جائیں اور الیکشن لڑیں۔ وہ تیار ہو گئے مگر مغرب میں بیٹھے ہمارے آقا اس پر تیار نہ ہوئے۔ نتیجہ یہ کہ اس کی ساری قیادت جیل میں ہے اور ان کا سارا فلاحی کام ٹھپ پڑا ہے۔ اس سے زیادہ حب الوطنی کا ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ انہوں نے سب مصیبتیں برادشت کیں اور ریاست کے خلاف اف تک نہ کی۔ یہ کام یا ڈاکٹر عبدالقدیر خاں نے کیا یا پھر حافظ سعید صاحب نے کیا۔ ہم بحیثیت قوم بس حیران ہوتے رہے۔
مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ اب کی بار معاہدہ نہیں ٹوٹے گا۔ اس لئے کہ اس میں کوئی دوسرا ادارہ یا حکومت شامل نہیں بلکہ براہ راست اعتماد کی فضا میں ہوا ہے۔ اس وقت حزب اختلاف کی جماعتیں بہت کچھ کہہ رہی ہیں۔ وجہ ظاہر ہیں کہ انہیں کہیں بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ ان کے بہت سے اعتراضات اور تحفظات ہو سکتے ہیں۔ ان کا یہاں گنوانا مناسب نہ ہو گا مگر اس بات پر سے تو سب مطمئن ہیں کہ ملک خون خرابے سے بچ گیا۔ یہ معاہدہ شفاف نہ سہی مگر چند دنوں میں ایسا بھی ہو جائے گا۔ سوال مگر یہ ہے کہ حکومت کہاں ہے۔ اصل میں حکومت کا نہ ہونا ہی ریاست کی رٹ کا نہ ہونا کہلواتا ہے۔ ان معنوں میں حکومت تو ناکام ہوئی ہی ہے، ریاست بھی ناکام ہو گئی ہے۔ قانون کی حکمرانی اور دستور کی بالادستی کا جنازہ تو کب کا پڑھوایا جا چکا ہے۔
یاد رکھئے ہم سب بڑے بحرانوں سے گزر رہے ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری، غربت تو اس کے ظاہری مظاہر(Symptom)ہیں، اندر سے کھوکھلا پن بہت ہولناک ہے۔ ہم نے جلد اپنی سٹریٹجک حکمت عملی کا تعین نہ کیا تو ہم بری طرح دلدل میں پھنستے جائیں گے۔ مجھے کسی نے بتایا ہے کہ ریاست نے طے کر لیا ہے کہ اب چین ہمارا سٹرٹیجک پارٹنر ہے، اس لئے کہ امریکہ اب بھارت کا سٹریٹجک پارٹنر ہے۔ گویا ہماری مجبوری ہے۔ جو بات کل تک ہماری قوت تھی، اسے ہم نے اپنی مجبوری بنا دیا ہے۔ چین یہ کہتاتھا ہمارے پاکستان سے وہی تعلقات ہیں جو امریکہ کے اسرائیل سے ہیں۔ ہم نے اس کی قدر نہ کی اور سی پیک کو تین سال تک لپیٹے رکھا اور آئی ایم ایف کے ہاتھوں ذلیل ہوتے رہے۔
لیکن ایک بات یاد رکھنے کی ہے جس امریکہ کے ہم برسوں سٹریٹجک دریوژہ گر رہے، کیا وہ اتنی آسانی سے ہمیں چین کے کھاتے میں جانے دے گا۔ دیکھ نہیں رہے، اس نے سی پیک کا ڈول ڈالنے والوں کے ساتھ کیا کیا۔ نہ صرف ان افراد کے خلاف جو ملک کو اس راہ پر لے کر گئے بلکہ ہمارے پیارے ملک کے خلاف بھی جو اس راہ پر چل نکلا تھا، اس نے ہمارا ہاتھ تو جھٹک دیا ہے مگر اب بھی یہ نہیں چاہتا کہ ہم کسی اور کا ہاتھ تھا۔ وہ ہمیں نیٹو اتحادی کہتا رہا۔ اب یہ مقام و مرتبہ بھی ہم سے چھین لیا گیا ہے اب ہماری قسمت میں صرف دھکے کھانا ہی ہے۔ یہ تبدیلی آسان نہیں ہے مگر ناگزیر ہے وگرنہ تاریخ کے ظالم پہیے تلے کچل دیے جائیں گے۔