Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Sajjad Mir
  3. Seena Phailane Ki Zaroorat Nahi

Seena Phailane Ki Zaroorat Nahi

سینہ پھیلانے کی ضرورت نہیں

احتیاط تھوڑی سی احتیاط۔ ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ خارجہ معاملات داخلی سیاست کی طرح نہیں ہوتے۔ ہمیں آپے سے باہر نہیں ہونا چاہیے۔ ڈینگیں نہیں مارنا چاہئیں کہ ہم نے طالبان اور امریکہ کو ایک میز پر بٹھا دیا ہے اور مشرق وسطیٰ میں بھی مصالحت کنندہ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے تعاون کے بغیر کم از کم افغانستان کی صورت حال نارمل نہیں ہو سکتی۔ مگر ہم نے یہ کیا شور مچا رکھا ہے کہ کوریا امریکہ خوشامدیں کرتا ہوا ہمارے پاس آیا ہے کہ خدا کے واسطے ہمارے طالبان سے تعلقات ٹھیک کرائو۔ ہم نے بھی کہا، کوئی بات نہیں، تم لوگ کل تک ہمارے بارے میں بری بری باتیں کرتے رہے ہو، ہم اسے معاف کرتے ہیں اور طالبان کو آپ کے قدموں میں لا کر ڈالتے ہیں۔ نہیں، بھائی نہیں، خطے کی بدلتی صورت حال میں ہمیں بہت سوچ سمجھ کر آگے بڑھنا ہو گا۔ ہم ایک طویل عرصے سے اس جنگ میں مبتلا چلے آئے ہیں۔ ایک لمبے عرصے تک ہمیں یقین تھا کہ ہم نے روسی سامراج کو ناکوں چنے چبوا دیے ہیں۔ اس کا گرم پانیوں تک پہنچنے کا خواب چکنا چور کر دیا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو بھی مجبور کر دیا ہے کہ وہ ہماری پشت پناہی کریں۔ اب کہتے پھر رہے ہیں، یہ ہماری جنگ تھی ہی نہیں اور یہ کہ پاکستان اب پرائی جنگ کبھی نہیں لڑے گا۔ نہ وہ بیانیہ سوفیصد درست تھا، نہ یہ بات صحیح ہے۔ اس بحث کو رہنے دیجیے، موجودہ صورت حال کا فی الحال جائزہ لیتے ہیں۔ ہمیں دو چار باتیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے، اور ابھی سے سوچ لینا چاہیے کہ افغان جنگ کے خاتمے کے بعد ہم کہاں کھڑے ہوں گے۔ یہاں فتح کس کی ہونے والی ہے۔ ہم کہیں تاریخ کے غلط رخ پر تو خود کو صف بستہ نہیں کر رہے۔ جنگ کا خاتمہ جس صورت میں ہے، ہمارے لئے مشکلات ختم ہونے والی نہیں۔ یہ جو بیانیہ ہے کہ ہمیں بس یہ ثابت کرنا ہے کہ ہم افغانستان کے معاملات میں دخل اندازی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ اس کے بعد خیر ہی خیر ہے۔ افغانستان سے امریکی افواج مکمل طور پر جاتی ہیں تو بھی ایک ایسا طوفان اٹھے گا کہ خدا کی پناہ۔ جنگ نے اس سرزمین کو لہولہان کر رکھا ہے۔ دشمنیوں کی ایسی آماجگاہ بنا دیا ہے کہ آسانی سے یہاں امن و سکون ہونے والا نہیں۔ ہمیں اپنے پتے بہت احتیاط سے کھیلنا ہیں۔ یہاں امریکہ اور روس دونوں کا بہت خون بہا ہے۔ دونوں کے مفادات کا ٹکرائو ہوا ہے۔ چین اس لڑائی سے الگ رہا ہے۔ مگر وہ اس سرزمین سے دست بردار ہونے کو کسی صورت تیار نہیں ہو گا۔ اس جنگ کے اثرات دور دور تک ہیں۔ مذاکرات قطر میں ہو رہے ہیں آج سے نہیں ایک لمبے عرصے سے۔ ایک زمانے میں اسلام آباد میں بھی ہوئے۔ مگر اب یہاں نہ ہو پائے۔ بیجنگ میں بھی بات چیت کا ڈول ڈالا گیا۔ روس میں بھی ابھی چند روز پہلے ہی بازار گرم ہوا تھا۔ ترکی الگ مذاکرات کا مرکز رہا ہے۔ سعودی عرب اس جنگ میں بری طرح ملوث چلا آتا ہے۔ ایران نے اپنے کارڈ بڑے سلیقے سے کھیلے ہیں۔ بھارت بھی اپنے دانت تیز کئے بیٹھا ہے۔ ایسے میں میرا مشورہ ہے کہ ہم بھڑکیں اور ڈینگیں مارنے کی عادت ختم کریں۔ خارجہ امور میں ایسا ہوتا نہیں ہے۔ یہ نمبر گیم بھی نہیں ہے۔ ہمیں غور کرنا چاہیے کہ یہ اچانک کیا ہو گیا تھا کہ ہمیں گالیاں دیتا ہوا ٹرمپ اگلے ہی روز پیامبر بھیجتا ہے کہ مرے پیارے پاکستان، کچھ مدد کرو۔ دوستی کا حق ادا کرو۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اپنے خزانوں کے دروازے کھول دیتے ہیں۔ حکومت کو حق ہے کہ وہ اسے اپنی سیاسی و سفارتی کامیابی قرار دے۔ مگر ذرا احتیاط سے۔ نہ صرف یہ کہ اس میں خطرات بہت ہیں، بلکہ اس لئے بھی کہ اس کا کسی لمحے بھی الٹ جواب آ سکتا ہے۔ ہمیں اس سلسلے میں خوامخواہ سینہ نہیں پھیلانا چاہیے۔ ہم اس کھیل میں نہ بادشاہ ہیں نہ ملکہ، اور فرزیںسے تو پوشیدہ ہیں شاطر کے ارادے۔ اگر امریکہ کی خواہش ہے کہ وہ اٹھارہ ماہ کے اندر اپنی افواج افغانستان سے لے جائے تو شاید یہ امریکہ کے لئے آسان نہ ہو اور اگر ایسا ہو جائے تو بھی افغانستان کی صورت حال ایک دم شاندار نہیں ہو جائے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے اس خطے کی ایک بہت بڑی جنگ میں اپنی صلاحیتوں کو منوایا ہے۔ مگر اس کے بعد ہم ایک دوسری جنگ میں اس طرح شریک ہوئے کہ کئے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ مجاہدین سے مل کر روس کے خلاف جنگ کا منظر نامہ یکسر مختلف تھا اور امریکہ کے مشتعل ہونے کے بعد طالبان کے خلاف ان کی جنگ بالکل ایک الگ پس منظر رکھتی تھی۔ ہمارے بیانیے کی اس سے بڑی شکست اور کیا ہو سکتی ہے کہ ہم نے دونوں کو گڈ مڈ کر کے ایک کر دیا ہے۔ ایسا ہے نہیں اور اب جو ہونے والا ہے، اس میں بھی ہم بہت کچھ ماضی کی طرح گڈ مڈ کر سکتے ہیں۔ ہمیں اس بات کا بھی اچھی طرح اندازہ ہونا چاہیے کہ ہم ایک دوسری جنگ کی لپیٹ میں بھی آ چکے ہیں۔ سی پیک کے بارے میں ہمارا موجودہ متذبذب بیانیہ اس جنگ کا ایک حصہ ہے۔ جس دن پاکستان کے ایک وزیر نے کہا تھا کہ سی پیک کو ایک سال کے لئے موخر کر دینا چاہیے، اس دن ہمیں اندازہ ہو جانا چاہیے تھا کہ وہ جنگ شروع ہو چکی ہے۔ یہی وہ دن تھے جب امریکہ کی طرف سے ہمیں دھمکیاں ملنے لگی تھیں۔ یہ تک کہا گیا کہ سی پیک ایک متنازعہ علاقے میں ہے۔ یہ خیال امریکہ کو پہلی بار آیا تھا۔ اس سے پہلے انہوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ کسی نے ایک بڑا دلچسپ تبصرہ کیا تھا۔ پاکستان کو 5بلین ڈالر درکار ہیں۔ چین سے بھی مل سکتے ہیں، آئی ایم ایف سے بھی۔ ہم نے طے کرنا ہے کہ ہمیں کہاں سے لینے ہیں۔ دونوں کے الگ الگ مطلب ہیں۔ یہ وہ دن ہیں جب ہمیں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے قرضے کی پیش کش ہوئی۔ شاہ محمود قریشی شاید اس اعتبار سے درست کہتے ہیں کہ ہمیں پیسے کا تو مسئلہ ہے ہی نہیں۔ گویا یہ تو کہیں سے مل سکتا ہے۔ طے یہ کرنا ہے کہاں سے لینا ہے۔ سیاسی طور پر دونوں کے الگ الگ معانی ہیں۔ ہم نے اب تک جو کام کئے ہیں وہ یہ بتاتے ہیں کہ ہم پھر مغرب کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ہم نے ایسا کیا تو ہم پھر امریکہ کی جنگ لڑ رہے ہوں گے۔ میری بات سمجھ گئے نا۔ دہرائے دیتا ہوں اگر ہم نے طے کر لیا ہے کہ ہمیں دوسروں کی جنگ نہیں لڑنا تو ہمیں اپنی معاشی پالیسی اور سٹریٹجک حکمت عملی کو بھی اس سانچے میں ڈھالنا ہو گا۔ ہم سی پیک کو موخر تو کر سکتے ہیں۔ ختم نہیں کر سکتے۔ چین کی بھی اس میں بہت سرمایہ کاری ہو چکی ہے۔ صرف معاشی سرمایہ کاری نہیں اور بہت طرح کی سرمایہ کاری بھی۔ ہمارا نیا سکیورٹی بندوبست اگرچہ ابھی تک امریکہ سے پوری طرح آزاد نہیں ہوا۔ مگر چین کی مدد سے ہم اس کا جو متبادل بنانا چاہتے ہیں۔ وہ بھی ابھی تک راہگزر میں ہے۔ اس کے کچھ چرچے مغربی پریس میں ہو بھی رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں اس میدان میں خود انحصاری ملے گی تو وہ صرف چین کی مدد سے۔ ہم نے ایک دوسرے کا بہت ساتھ دیا ہے۔ امریکہ یا مغرب سے ہم نے جو کچھ سیکھا ہے۔ وہ ریورس انجینئرنگ سے ہے۔ ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی سے نہیں۔ چین کا معاملہ دوسرا ہے۔ ہمارے ہاں ٹیکنالوجی کی بنیاد بھی چین ہی کے ذریعے پڑے گی۔ البتہ ہمیں دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کو یہ بتانا ہو گا کہ ہمارے ہاں امکانات کی ایک دنیا ہے۔ پھر کیسے نہ ہو گا کہ یہ سرمایہ کار پاکستان کی طرف متوجہ نہ ہوں۔ چین سے البتہ ہمیں اس طرح کی معاملہ فہمی نہیں کرنا پڑی۔ اس سے تعلقات کی نوعیت مختلف ہے۔ یہ نہیں کہ اس میں چین کا کوئی مفاد نہیں۔ ایسا نہیں ہے چینی قیادت کی دوررس نگاہوں نے جانچ لیا تھا کہ پاکستان مستقبل میں ان کے لئے کتنا اہم ہو گا۔ موجودہ صدر سے پہلے بھی ڈینگ ژا ڈینگ، مائوزے تنگ، چواین لائی پاکستان کی اس اہمیت سے واقف تھے۔ یوں کہہ لیجیے یہ تعلقات ٹھوس مفادات کی بنیادوں پر استوار ہوئے ہیں اور اب انہیں جڑ سے اکھاڑنا ممکن نہیں۔ یہ کوئی "تجاوزات" نہیں سوچی سمجھی منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ اگر ہم نے ان چند باتوں کا خیال نہ رکھا تو مستقبل میں بیٹھے پھر ہاتھ مل رہے ہوں گے کہ ہم سے ہاتھ ہو گیا۔ ہم پھر اعلان کر رہے ہوں گے کہ ہم دوسروں کی جنگ نہیں لڑیں گے۔ یقینا ہمارا مفاد اس بات میں ہے کہ افغانستان پر امن و پرسکون ہو۔ ہمارے بارے میں نہ یہ سمجھا جائے کہ ہم اس سرزمین پر نظر رکھتے ہیں نہ یہاں مختلف ملکوں اور قوموں کے مفادات سے ہمارا بے معنی تصادم ہو۔ یقینا بھارت یہاں ہمارے پچھواڑے میں آ کر ہمارے لئے پرابلم پیدا کرنا چاہتا ہے۔ ہمیں اس کے ارادے ناکام کرنا ہے، وگرنہ اس سرزمین سے ہمارے جو تاریخی، تہذیبی اور جغرافیائی رشتے ہیں، ان کا توڑبھارت کے پاس نہیں ہے۔ بس بھڑکیں اور ڈینگیں مارنا چھوڑ دیجیے۔ ملک کو مضبوط کیجیے، پھر شاید دنیا آپ کو کوئی اہمیت دے۔ ابھی تو ہم کاسہ گدائی لئے دربدر کی ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں اور سینہ پھلا کر یہ بتاتے پھرتے ہیں کہ دنیا کو ہماری ضرورت پڑ گئی ہے۔ پاکستان یقینا دنیا کے نقشے پر اہم ملک ہے۔ مگر ہماری اہمیت صرف اس بات میں ہے کہ ہم اپنی طاقت کا صحیح اندازہ لگائی اور اپنے پتے درست کھیلیں۔ بس احتیاط، تھوڑی سی احتیاط۔

Check Also

Peshawarana Taleem Aur Larkiyan

By Mubashir Aziz