مرے وطن ‘تری جنت…
دونوں دعوے درست ہو سکتے ہیں۔ یہ بھی کہ جو ہارتا ہے، وہ دھاندلی کا شور مچا دیتا ہے اور یہ بھی کہ جس کی مرکز میں حکومت ہوتی ہے، وہی کشمیر یا گلگت بلتستان کے الیکشن کا معرکہ مار لیتا ہے۔ پہلا دعویٰ ایسا نہیں جس پر لمبی چوڑی بحث فی الوقت کی جائے مگر دوسرے دعوے سے کئی شاخیں پھوٹتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ کشمیر کے لوگ ایسے مفاد پرست ہیں کہ جس کی حکومت بنتے دیکھتے ہیں، اس کی طرف ہو جاتے ہیں۔ اس دلیل کا اگلا قدم یہ ہے کہ سب کچھ سارے وسائل سارے فنڈز مرکز کے ہاتھ میں ہیں۔ اس لئے وہ بربنائے بصیرت ایسا کرتے ہیں۔ درست، مگر اس سے یہ الزام ابھرتا ہے کہ ہم نے کشمیر کا سب کچھ مرکز سے کنٹرول کر رکھا ہے اور کشمیریوں کو آزادانہ فیصلے کے حق سے محروم کر رکھا ہے۔ اس لئے کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر کہتے ہیں کہ ہم غلام بن کر نہیں رہیں گے۔ تو جو بات اتنی سادگی سے کہہ دی جاتی ہے کہ کشمیر کے لوگ بڑے سیانے ہیں، وہ مرکز کے ساتھ چلے جاتے ہیں، اس کا مطلب کیا ہے۔ یا تو یہ کہ وہ مفاد پرست ہیں، سیاسی شعور نہیں رکھتے یا یہ کہ ہم پاکستانیوں نے انہیں غلام بنا کر رکھا ہوا ہے۔
کچھ اور تجزیے بھی ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ کہ ہم نے کشمیر کا ایسا دستور بنا رکھا ہے کہ جمہوریت کے نام پر ایک تہائی سے زیادہ نشستیں کشمیر سے باہر والوں کو مہاجرین کے نام پر دے رکھی ہیں حالانکہ یہ وہ معدودے چند لوگ ہیں جن کا اب کشمیر سے اتنا تعلق ہے جتنا مجھ جیسے امرتسری کشمیری کا ہو گا، چلیے تھوڑا سا کم ہو گا۔ اب تو انہیں 70سال ہو گئے یہاں آباد ہوئے۔ کشمیر کی45نشستوں میں سے تحریک انصاف نے 25جیتیں۔ ہم نے کشمیریوں کو ایک ایسا دستور دے رکھا ہے جس کے مطابق ہمارا شاید کوئی جائنٹ سیکرٹری کنٹرول کرتا ہے۔ ایک خودساختہ کونسل بنا رکھی ہے جوہر طرح کے فیصلے کرتی ہے۔ جمہوریت گئی بھاڑ میں۔ کشمیر تو گویا حالت جنگ میں ہے۔ ہم انہیں وہ وسائل فراہم کرتے ہیں جو ہم چاہتے ہیں۔ اس طرح نہیں جس طرح سندھ، پنجاب، خیبر پختونخواہ، بلوچستان کو حاصل ہیں کہ وفاق کے خزانے سے ان کے حق طے ہیں۔ یہاں ایسا کچھ نہیں ہے۔ کچھ طے نہیں ہے۔ سب کچھ آپ کی نظر کرم ہے جو عطا ہو جائے۔
کبھی ہم نے سوچا کہ پاکستان کے آبی اور برقی وسائل کا سب سے بڑا پراجیکٹ کہا بنا تھا۔ منگلا ڈیم کی سرزمین آزاد کشمیر میں ہے۔ کشمیر میں زلزلہ آیا تو اس سے جو عالمی امداد ملی اس کے استعمال پر اب بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔ میں تو عرصے سے اپنے اجداد کی اس سرزمین کے اس ٹکڑے تک بھی نہیں جا سکا۔ لیکن جانتا ہوں، کشمیر ترقی سے محروم ہے۔ ہم نے اس دھرتی کی ترقی کے لئے کچھ بھی نہیں کیا۔ کچھ بھی تو نہیں کیا۔ کچھ کیا ہو تو بتا دیجیے۔ اس کی ذمہ دار بنیادی طور پر مرکزی حکومت ہے۔ سارے وسائل تو اس کے ہاتھ میں ہیں۔ ہم نے آزاد کشمیر کو زیادہ سے زیادہ آزادی کا بیس کیمپ بنا رکھا ہے۔
آزاد کشمیر کے بنیادی کردار پر ہم نے اس وقت کاری ضرب لگائی تھی جب ہم نے کشمیر میں مقامی پارٹیوں کے مقابلے میں پاکستانی سیاست کو رواج دیا تھا۔ اس کا آغاز بھٹو صاحب نے کیا جنہیں شہر میں سردار عبدالقیوم کی بالادستی پسند نہ تھی۔ خیر اس میں مقامی قیادت بھی شریک ہوئی۔ سردار ابراہیم یا کے ایچ خورشید جیسے بھی تھے، کشمیر کی مقامی امنگوں کو سمجھتے تھے۔ ہم نے آہستہ آہستہ انہیں اپنے اندرضم کر کے کشمیر کے تشخص کو مسخ کر دیا۔ اب ہم روتے ہیں کہ الیکشن مہم میں کشمیر کی بات کم ہوئی، پاکستان کی سیاست زیادہ چلی۔
خیر کشمیریوں کا تو پاکستان کی وفاقی حکومت میں کوئی حصہ نہیں ہے مگر جنہیں ہم نے شامل کر رکھا ہے اور جن کا حصہ ہے کیا وہ اپنے علاقے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ایک زمانہ میں فاٹا کے نمائندوں کے بارے میں طے تھا کہ وہ جو کوئی بھی ہوں گے، وفاقی حکومت کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالیں گے۔ یہی حال بلوچستان کا ہو گیا تھا اور اب یہی معاملہ گلگت بلتستان کا ہے۔ وہ تو خیر اپنا وزن ڈالیں گے، ان کشمیریوں پر البتہ وزن ڈالا جائے گا۔ یہ پاکستان کی سیاست کا بوجھ اٹھائیں گے۔ بس آزادی کے لئے ہم ان کی اتنی ہی خدمت کر سکتے ہیں۔
اس بار کے انتخابات اس لئے اہم تھے کہ بھارت کے غاصبانہ انضمام کے بعد پہلی بار آزاد کشمیریوں کو اپنی رائے دینے کا موقع مل رہا تھا۔ ہمارے ہاں یہ کہا جا رہا ہے کہ کشمیر کو بیچ دیا گیا، بقول شاہد خاقان عباسی یہ انٹرنیشنل سازش کا نتیجہ ہے۔ مریم نواز نے تو کشمیر فروش کے فلک شگاف نعرے بھی لگوائے۔ ہمارے ہاں اہل دانش نئی دلی کے دفعہ 370کے خاتمے کے بعد یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے بھی خاموش سمجھوتہ کر لیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس حکومت کے مخالف کہتے ہیں خاموش سمجھوتہ نہیں بلکہ ایک مکمل ڈیل کر رکھی ہے۔ جنگ مسئلے کا کوئی حل نہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ہم نے تین بار جنگ کرکے دیکھ لیا۔ مگر یہ تاثر دینا کہ جو بھی ہو جائے ہم جنگ سے دستبردار ہو چکے ہیں کوئی ا چھی بات نہیں۔ میں ممتاز برطانوی مورخ ٹائن بی کی اس بات کا اکثر حوالہ دیتا ہوں کہ اسلام نے مسلمانوں کے دلوں سے موت کاخوف نکال دیا ہے اور میرے خیال میں دنیا اسی سے خوف زدہ ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ اب ہم جنگ کے نہیں امن کے پرچارک بن گئے ہیں۔ افغانستان، مشرق وسطیٰ میں ہر جگہ اور کشمیر میں بھی، کہا جاتا ہے دنیا اسی طرح ہماری بات سمجھے گی۔
کچھ سمجھے آپ، اور بھی بہت کچھ کہا جاتاہے۔ ایسی بات کرتے اور سوچتے مرا دل منہ کو آتا ہے۔ آئیے ایک بار پھر اس ترانے سے دل بہلائیں:
مرے وطن، تری جنت میں آئیں گے ایک دن
ستم شعاروں سے تجھ کو چھڑائیں گے اک دن