اقبال کی دوشیزۂ مریخ
گزشتہ دنوں حقوق نسواں کے حوالے سے اقبال کی ایک نظم کا حوالہ دیا تھا جس میں آزادی نسواں کے تصور پر بات کی گئی ہے۔ جاوید نامہ میں اقبال جب فلک مریخ تک پہنچتے ہیں تو وہاں ایک میدان میں انہیں عورتوں اور مردوں کا ایک ہجوم نظر آتا ہے۔ درمیان میں ایک بلند قامت خاتون کھڑی ہیں جس کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ اس نے نبوت کا دعویٰ کر رکھا ہے۔ اقبال نے اس کی کیا نقشہ کشی کی ہے آج کی ساری تحریک نسواں سمجھ آ جائے گی۔ سو سال پہلے اقبال کتنی دور کی سوچتے تھے۔ اس کا چہرہ روشن، مگر بے نور تھا۔ اس کی گفتگو بے معنی تھی۔ اس پر معنی گراں تھے۔ اس کے الفاظ بے سوز اور اس کی آنکھیں بے نم تھیں اور وہ آرزو کے سرور سے ناآشنا تھی:
فارغ از جوش جوانی سینہ اش
کورو صورت ناپذیر آئینہ اش
اقبال کی شاعری کا ترجمہ کر کے میں اسے غارت نہیں کرنا چاہتا۔ اس لئے میں نے اس کے لئے ایک بہت ہی مستند شخص کی مدد لی ہے جس کا ترجمہ آج تک نہایت وقیع تراجم میں گنا گیا ہے۔ یہ کارنامہ یہاں عبدالرشید نے انجام دیا جو ایک مقامی روزنامے میں ایک طویل عرصے تک دینی کالم لکھتے رہے ہیں۔ ذرا توجہ فرمائیے، فرماتے ہیں اس کا سینہ جوش جوانی سے فارغ ہے اور یہ کہ:
بے خبر از عشق و از آئین عشق
اقبال ذرا حیراں ہوتے ہیں تو اقبال کو سمجھایا جاتا ہے کہ حیران نہ ہو یہ اس دنیا کی چیز نہیں ہے۔ یہ مریخ کی دوشیزہ نہیں ہے۔ اسے فرنگ سے لایا گیا ہے۔ یہ سادہ و آزاد اور مکرو فریب سے پاک تھی۔ ابلیس نے اسے اغوا کر کے نبوت کے کام میں پختہ کر کے یہاں لا ڈالا ہے اب یہ فرماتی ہے کہ میں آسمانوں سے نازل ہوتی ہوں اور میری دعوت، دعوت آخر الزماں ہے۔ پھر یہ مرد و زن کے مقام کی بات کرتی ہے اور
فاش ترمی گوید اسرار بدن
بدن کے اسرار کو بیان کرتی ہے۔ گویا آج کی زبان میں کہتی ہے۔ میرا جسم میری زباں۔ یہاں تک پہنچنے میں مگر اسے برسوں لگے ہیں۔ اقبال جب اس کا تصور کر رہا تھا تو اس وقت اس عورت کو ابھی مغرب میں بھی ووٹ کا حق حاصل نہ ہوا تھا، بدن کے راز وہ کیا جانتی۔ تاہم اقبال کے سامنے بہت سی گفتگوئیں تھیں۔ اس فلک مریخ میں اسے قرۃ العین طاہرہ سے بھی ملنا ہے۔ پھر اقبال نے اس دوشیزہ کی ایک تقریر نقل کی ہے:
اے زنان، اے مادراں، اے خواہراں
زیستن تاکے مثال دلبراں
کب تک معشوق بن کر جیو گی۔ یہ دلبری (یہ معشوقی تو نری مظلومی ہے، محکومی اور محرومی ہے۔ ہم مرد کے لئے بن سنور کے بیٹھتی ہیں اور مرد شکار بن کر الٹا ہمیں شکار کرتا ہے۔ وہ تمہارے گرد اس لئے گھومتا ہے تاکہ تمہیں غلام کر سکے۔
ایک پورا خطبہ ہے جو مرد کے خلاف چارج شیٹ ہے۔ اس سے دوستی کرنا زندگی کے لئے مصیبت ہے۔ اس کا وصل زہر ہے اور اس کا فراق مصری کی ڈلی۔ پھر یہ کمال کا شعر ہے کہ:
از امومت زرد روئے مادراں
اے خنک آزادی بے شوہراں
ماں بننے سے ماں کا چہرہ زرد ہو جاتا ہے۔ شوہروں کے بغیر آزاد زندگی بسر کرنا کیا خوب ہے۔ پھر اس نبیّۂ مریخ نے فرمایا کہ ایک ایسا وقت آنے والا ہے کہ سائنس کی ترقی سے جنین کو رحم کے اندر رکھا جا سکے گا:
آمد آں وقتے کہ اعجاز فن
می تواں دیدن جنیں اندر بدن
یہ اس زمانے کی بات ہے جب ابھی الٹرا سائونڈ کا دور دور تک تذکرہ نہ تھا۔ پھر تم اپنی مرضی سے لڑکے یا لڑکی کا انتخاب کر سکو گے۔ اگر بچہ تمہاری خواہش کے مطابق لڑکا یا لڑکی نہ ہو تو اسے ختم کر دینا، یہ دین کے عین مطابق ہے۔ اس کے بعد بھی کئی دور آئیں گے جب رحم کی رات کے بغیر سحر ہو سکے گی یعنی یہ تکلیف بھی سہنا نہ پڑے گی (ٹسٹ ٹیوب بے بی)۔ مرد مکمل طور پر شیطان ہے اسے قدیم دور کے جانوروں کی طرح ختم ہو جانا چاہیے۔
انجام اس کہانی کا یوں ہے کہ عورت کو یہ دوشیزہ مشورہ دیتی ہے اٹھ اور فطرت کے خلاف نبرد آزما ہو جا۔ تاکہ تیری اس جدوجہد سے کنیز غلامی سے آزاد ہو جائے اور:
رستن از ربط دوتن توحید زن
حافظ خود باش وبرمرداں متن
عورت کی توحید یہ ہے کہ وہ "دو بدنوں" سے آزاد ہو جائے اپنی حفاظت خود کرے اور مرد پر ناز کرنا چھوڑ دے۔
یہ ساری بحث پڑھ کر مجھے بہت کچھ یاد آ رہا تھا۔ یہ بحث مغرب ہی میں نہیں ہوتی تھی۔ ہمارے ہاں بھی ایسی مرد مار عورتیں گزری ہیں جنہوں نے یہ سوال اٹھائے ہیں۔ اس بحث کے آخر میں مولانا رومی آتے ہیں۔ اقبال کے مرشد۔ فی الحال اتنا ہی کافی ہے۔ اقبال کا مگر کہنا یہ ہے کہ یہ بحث ہمارے ہاں افرنگ سے لائی گئی اور یہ پٹی ابلیس کی پڑھائی ہوئی ہے۔ آج سے نہیں، ہم برسوں سے ان بحثوں سے گزر رہے ہیں میں نے تو پوری نظم نقل نہیں کی۔ کیا کیا نکتہ ہے جس پر انسانوں نے غور کیا ہے۔ یہ صرف 8مارچ کا دھوم دھڑکا نہیں ہے، نوع انسانی اس پر صدیوں سے غور کرتی آئی ہے۔ ہر دور میں اس کا انداز مختلف رہا ہے اور ہر ذہن نے اس کا جواب مختلف تلاش کیا ہے، مگر اس کی سمت یہی رہی ہے۔