ڈاکٹر مغیث الدین شیخ
ڈاکٹر مغیث الدین شیخ بھی ہمیں چھوڑ کر چل دیئے۔ ان دنوں اتنے لوگوں کے جانے کا دکھ سہا ہے کہ ہمارے دوست ڈاکٹر عبدالقادر نے دل گرفتہ ہو کر یہ شعر ارسال کیا ہے:
کسے نماند کہ دیگر بہ تیغ ناز کشی
مگر کہ زندہ کنی خلق راو بازکشی
لگتا ہے سبھی رخت سفر باندھے بیٹھے ہیں۔ ایک دن دوست محمد فیضی دوسرے روز طارق عزیز پر لکھا کہ مفتی نعیم اور طالب جوہری کی رحلت کی خبر آ گئی میں ہر دو پر لکھنا چاہتا تھا مگر ایسا اداس تھا کہ چپ کر کے رہ گیا۔ اب ڈاکٹر مغیث کی خبر آئی تو دل سناٹے میں آ گیا۔ دو چار دن پہلے انہوں نے اپنے ہسپتال جانے کی خبر فیس بک پر دی تھی۔ آج اسی یونیورسٹی کے گرائونڈ میں ان کی نماز جنازہ تھی۔ جہاں انہوں نے پوری زندگی تج دی۔ وہ تو بڑے کمال پسند perfectionist تھے۔ مگر مرنے میں انہوں نے بڑی جلدی کی۔ کوئی خیال نہیں رکھا۔
میں کراچی سے لاہور واپس آیا تو جن دو چار لوگوں نے دل سے پذیرائی کی ان میں سے ایک ڈاکٹر مغیث تھے۔ ہنس ہنس کر احباب سے کہتے سجاد میر لاہور آ گیا ہے اب ہمارا کیا بنے گا اس سے ان کی مراد صرف اظہار محبت تھا۔ مجھے دوبارہ لاہور کے علمی حلقوں میں ذاتی طور پر متعارف کرانے میں انہوں نے بڑی محبت کا ثبوت دیا۔ پنجاب یونیورسٹی میں پرانے لوگوں کے ساتھ دن منانے کا سلسلہ تھا۔ اسے دوبارہ زندہ کیا۔ مجھ سے آغاز کیا۔ ایک بڑی محبت بھری محفل سجائی۔ دیکھتے ہی دیکھتے یونیورسٹی کی تقریبات میں مرا آنا جانا بہت ہو گیا۔ میری شمولیت خاص بڑھ گئی۔ بہت نظریاتی آدمی تھے۔ آخر تک یہی چاہتے رہے کہ میں یونیورسٹی میں ایک آدھ پیریڈ ضرور لوں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے سپیریئر میں گئے تو میں بھی پیچھے پیچھے۔ وہ یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب آئے تو بھی یاد رکھا اور فون پر کہا کہ میں چاہتا ہوں طلبہ کی تربیت ہو۔ آپ وقت نکالیں۔ یو ایم ٹی سے تو خیر پرانا تعلق ہے۔ وہ اس شہر میں کم از کم چار یونیورسٹیوں میں ابلاغ عامہ کی اعلیٰ و جدید تعلیم کے بانیوں میں تھے۔ پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ صحافت اگرچہ بہت پرانا ہے۔ مگر اسے نئی اور جدید شکل دینے میں ڈاکٹر مغیث کا بڑا کردار ہے۔ اپنے مزاج کی شدت کی وجہ سے اور جیسے کہ میں نے کہا اپنی کمال پسندی کی وجہ سے انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر ہر جگہ انہیں تکریم سے دیکھا جاتا۔ صرف وہ یونیورسٹیاں ہی نہیں جن میں وہ تعلیم دیتے تھے شہر کی اور درسگاہیں بھی جہاں ان کے تربیت یافتہ موجود تھے۔ ان کےمرہون احسان ہیں۔ یوں سمجھیے کہ وہ کم از کم پنجاب کی حد تک استاد الاساتذہ کی حیثیت رکھتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب طالب علمی کے زمانے میں پنجاب یونیورسٹی کے طالب علم تھے۔ اس زمانے میں مجھ سے دو سال جونیئر ہوں گے ڈاکٹر کامران مجاہد بھی اسی زمانے کے طالب علم تھے اس لئے جب بھی کسی تقریب میں مجھے دیکھتے اس کا ذکر ضرور کرتے۔ دونوں ہی کرتے۔ ہم عصر ہی نہ تھے۔ ہم خیال بھی تھے ہم چشم کہہ لیجیے۔ کسی وجہ سے ہمارے ان دو دیرینہ دوستوں کی آپس میں بن نہ پاتی تھی۔ ایسے میں ہماری خدمات حاضر ہوتیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے مزاج کی سختی اور اصول پسندی کی وجہ سے بڑی بڑی لڑائیاں مول لیں۔ مگر ان کے مخالف بھی زندگی کے آخری مرحلے میں سب کچھ بھول جانا چاہتے ہیں وہ بڑے رکھ رکھائو والے۔ بڑے وضعدار شخص تھے۔ ضرورت پڑتی تو وہ سختی کرنے سے بھی نہ گھبراتے تھے۔ ہر کوئی ان کی علمی اور تدریسی صلاحیتوں کا قائل تھا یہی وجہ ہے کہ ایک کے بعد دوسری یونیورسی ان کی خدمات حاصل کرنے میں خوشی محسوس کرتی۔ وہ جہاں جاتے۔ نئی روایات پیدا کرتے جاتے۔ سیمینار یا مذاکرات کراتے تو ہم جیسوں کا وہاں جانا ضروری ہو جاتا۔ عرض کیا کہ وہ نظریاتی آدمی تھے، مگر اپنی تمام شدت پسندی کے باوجود نظریاتی میدان میں بڑے تحمل اور علمی بردباری سے کام کرتے۔ کسی کو شکایت کا موقع نہ دیتے۔ دل میں ایک سچا اور پکا مسلمان تھا۔ مگر یہ مسلمان صوفیانہ انداز میں نہایت خاموشی سے اپنا کام کرتا۔ یونیورسٹی کے زمانے میں سبھی انہیں قاری مغیث کہتے تھے کہ وہ قرآن کے قاری بھی تھے۔ وہ ڈاکٹر مغیث کہلانا زیادہ پسند کرنے لگے تھے۔ اس پردے کے اندر مگر قرآن بولتا تھا۔ ان کی ساری زندگی گواہ ہے کہ پاکستان اور اسلام سے انہیں محبت تھی۔ انہوں نے مجھے یہ کہہ کر ایک کلاس سونپی کہ آپ یہاں چار سال ان بچوں کو مطالعہ پاکستان اور نظریہ پاکستان کی تعلیم دو گے تو یہ لوگ سچے مسلمان بن کر نکلیں گے۔ افسوس میں ان کی خواہش صرف ایک سال پوری کر سکا۔
ان کی ایک یونیورسٹی میں آنے جانے کی کہانی بھی کوئی خوشگوار نہیں ہے۔ پرانے زمانے کے وضعدار نظام تعلیم میں جو استاد ایک ادارے سے وابستہ ہو جاتا۔ پھر وہ ادارہ اسے عمر بھر نہ چھوڑتا۔ اسے اپنے لئے اعزاز سمجھتا کہ فلاں ہماری فیکلٹی کا ممبر ہے۔ یہ پرانا زمانہ بھی کوئی ایسا پرانا نہ تھا۔ ابھی کل کی بات ہے۔ مگر اس کمرشل ازم کے دور میں کون ان باتوں کا خیال رکھتا ہے۔ جو لوگ کسی ادارے کی آن ہوتے ہیں۔ انہیں کون چھوڑتا ہے وہ یونیورسٹیوں کے در در کی ٹھوکریں نہیں کھاتے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنا آخری وقت بھی درس و تدریس میں گزارا۔ میرا خیال ہے وہ اس نئے ادارے میں مطمئن ہوں گے۔ وگرنہ ان کی پارہ صفت روح کو کب نچلابیٹھنے دیتی ہے۔ ان کے مخالف بھی ان کی موت پر آنسو بہا رہے ہیں اور یہ دکھاوے کے آنسو نہیں ہیں۔ ان کے ہزاروں شاگرد رو رہے ہیں۔ مجھے لگتاہے وہ ابھی اپنی قبر سے اٹھ کر انہیں ڈانٹ بھی سکتے ہیں کہ تمہیں سوگوار ہونے کا سلیقہ بھی نہیں آتا۔
مجھے بے شمار باتیں یاد آ رہی ہیں مگر میں ایک جذباتی سا کالم لکھ رہا ہوں۔ ان سے مرے تعلق کا یہی تقاضا ہے ایک بار کراچی آئے۔ ایرانی سفارت خانے نے امام خمینی پر ایک سمینار کرا رکھا تھا۔ یہ مہمان کے طور پر لاہور سے آئے تھے۔ میں تو خیر مقامی مقررین میں تھا۔ اگلے روز میں نے انہیں اپنے مارننگ شو میں بلایا۔ وہاں سے فارغ ہو کر ہم ایک قریبی ہوٹل میں ناشتہ کرنے چلے گئے۔ اس کا ذکر وہ اکثر بار بار ایسے کرتے تھے جیسے گویا یونیورسٹی کے دنوں کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش ہونا اور ایسی ہی چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراض ہو جانا ان کی عادت سی تھی۔ سب دوست اس سے واقف تھے۔ وہ زود رنج بھی تھے اور دوستوں کے دوست بھی۔ سمجھ گئے نا۔ میں کیا کہہ رہا ہوں۔ وہ بالکل ایک سچے انسان کی طرح زندگی کرتے تھے اور ایک دن اسی طرح موت کی چادر اوڑھ کر چل دیے۔ شاید انب بھی آنکھیں کھول کر وہ دوستوں کی اس سرگرمی پر کچھ کہہ دیں۔
سلمان غنی ان کا طالب علم بھی رہا ہے اور ایک طرح سے دوست بھی وہ فون پر کہیں ہسپتال سے رابطہ کر رہا ہے کہ میت وقت پر مل سکے کبھی وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز کو بتا رہا ہے کہ نماز جنازہ آپ نے پڑھانا ہے۔ کسی کو مشورہ دے رہا ہے آپ کا آنا آج کے وبائی ماحول میں مناسب تو نہیں۔ مگر آپ گاڑی میں بیٹھے رہیں۔ جنازے کے وقت آ کر شامل ہو جائیں۔ سلمان کی ان سے کوئی رشتہ داری تو نہیں۔ مگر وہ سب سے بڑھ کر اس کام میں لگا ہوا ہے۔ جانے کتنے لوگ اس طرح مصروف ہوں گے۔ ڈاکٹر مغیث الدین نے انہیں یہی سکھایا تھا۔ ہر وقت مصروف رہنا۔ ہر کام سلیقے سے کرنا۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھنا۔