کارپوریٹ سیکٹر کا سانڈ
کئی دن سے ایسی باتیں میں سن رہا تھا، مگر اب اس پر حسین ہارون کی تفصیلی گفتگو سنی ہے تو بات کرنے میں جو ہچکچاہٹ تھی وہ دور ہو گئی ہے۔ سوچتا تھا یہ بات زباں پر نہ لائوں، وگرنہ لوگ اسے سازشی تھیوری قرار دے کر طعن و تشنیع شروع کر دیں گے۔
یہ حسین ہارون اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر رہے ہیں۔ سندھ اسمبلی کے سپیکر بھی رہ چکے ہیں۔ میرے لئے ان کا تعارف یہ ہے کہ یہ ڈان گروپ کے حمید ہارون کے بھائی ہیں اور تحریک پاکستان کے ممتاز قائد عبداللہ ہارون کے پوتے۔ اس لئے پورا نام حسین عبداللہ ہارون ہے جسے ہم میڈیا والوں نے عبداللہ حسین ہارون بنا دیا تھا۔ ذرا اور زور دینے کے لئے یہ کہے دیتا ہوں کہ باہر سے پڑھے ہوئے ہیں۔ انہیں کسی طور مغرب کا دشمن قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایک تایا یوسف ہارون تو مشہور امریکی ایئر لائنز پان ایم کے نائب صدر رہے ہیں۔ میں نے چونکہ ڈان گروپ میں کام کیا ہے۔ ان کے اردو روزنامہ حریت کا ایڈیٹر رہا ہوں۔ اس لئے تاریخ کے ان اہم کرداروں کو ذاتی طور پر جانتا ہوں یہی وجہ ہے کہ حسین ہارون کی گفتگو سن کر سناٹے میں آ گیا ہوں۔
انہوں نے بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے کہ یہ جو کرونا وائرس ہے یہ قدرتی نہیں، بلکہ لیبارٹری میں تیار کیا گیا ہے۔ اسے سب سے پہلے ایک امریکی کمپنی کیرون نے 2006ء میں پیٹینٹ کرایا تھا۔ انہوں نے پیٹینٹ نمبر بھی بیان کر دیا ہے۔ پھر بہت تفصیل کے ساتھ بتایا ہے کہ 2014ء میں اسے یورپ میں رجسٹرڈ کیا گیا۔ یہاں بھی پیٹینٹ نمبر درج ہے۔ ان کا کہنا ہے ایسا اس لئے کیا گیا کہ کسی ایک ملک پر الزام نہ آئے۔ پھر 2019ء میں یورپ ہی میں اس کی ویکسین پیٹینٹ کی گئی۔ مگر اس کی پروڈکشن اسرائیل میں ہوئی جو یہ کہتا ہے کہ ہم یہ ویکسین اسے دیں گے جو ہمیں تسلیم کرتا ہے۔ دوسروں کو اس کے قریب بھی پھٹکنے نہ دیں گے۔ اس پورے کھیل میں مختلف ناداروں نے جو کردار ادا کیا، ان کا بھی تذکرہ ہے۔ انگلینڈ کا کیا رول ہے۔ اس کے کس ادارے نے کیا کردار ادا کیا۔ بل گیٹس کی فائونڈیشن جو بظاہر دنیا بھر کی مدد کرتی پھرتی ہے، اس نے کیا کہا۔ واشنگٹن کی جان ہاپکن یونیورسٹی کا کردار کیا ہے۔ یہ وہی یونیورسٹی ہے جس نے سب سے پہلے صدر ٹرمپ کو مشورہ دیا تھا کہ وہ ملیریا اور گنٹھیا کی دو دوائیں اس بیماری کے خلاف انفعالی مدافعت پیدا کرنے کے لئے استعمال کریں۔ اس میں صدارتی امیدوار بلوم برگ کے ادارے کا بھی ذکر ہے۔
میں نے عرض کیا کہ حسین ہارون نہ مغرب دشمن ہیں نہ وہ امریکہ مخالف ہو سکتے ہیں مگر وہ اس بات پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ اس موضوع پر کوئی کیوں نہیں بول رہا۔ پھر وہ ساری کہانی دہراتے ہیں کہ کس طرح یہ وائرس ائر کینیڈا کے ذریعے چین لے جایا گیا۔ کینیڈا کی شمولیت بھی اس لئے کہ امریکہ کو درمیان سے نکالا جائے۔ امریکہ کچھ عرصے سے چین سے خوف زدہ ہے کہ وہ ترقی میں امریکہ کو پیچھے چھوڑتا جا رہا ہے۔ اس کا نام Covid 19 کیوں رکھا گیا۔ امریکہ کے سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول CDC سے کیا مدد ملی۔ یہ جو ورلڈ فورم کا ادارہ ڈیووس Devos ہے اس کا کیا کردار ہے۔ ایک الف لیلہ ہے اسے ٹکڑوں ٹکڑوں میں مختلف لوگ بیان کرتے آئے ہیں۔ یہ بات تو اب سبھی جانتے ہیں کہ چین کہتا ہے پانچ امریکی کھلاڑی چین میں کھیلوں کا ایک ٹورنامنٹ کھیلنے آئے تھے۔ یہ دراصل کھلاڑیوں کے پردے میں سائنسدان یا جاسوس تھے۔ ثبوت اس کا یہ دیا جاتا ہے کہ انہوں نے کھیلوں میں ایک تمغہ تک نہیں جیتا۔ ایسا ہوتا نہیں ہے۔ امریکہ اپنے کھلاڑیوں کو کبھی اس طرح ذلیل نہیں کرواتا۔
میں نے اس کہانی کو بہت سے سائنس کے طالب علموں سے بھی سنا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھارت کے کسی ٹی وی چینل پر ایک کلپ بھی دیکھا ہے جس میں کوئی ڈاکٹر صاحب پنجابی میں یہی باتیں کر رہے ہیں۔ وہ تو یہ بھی کہہ رہے ہیں یہ کوئی ایسا خطرناک وائرس بھی نہیں ہے۔ اسے بنایا ہی اس لئےگیا تھا کہ اس سے خلق خدا کو ڈرایا جائے۔ وگرنہ ہلاکت خیزی کے لحاظ سے تو دنیا میں اور بہت سی بلائیں ہیں۔ ہر سال فلو کی وجہ سے امریکہ میں کتنے لوگ بیمار پڑتے ہیں، ان میں کتنے ہسپتال جاتے ہیں اور ان میں کتنے مرتے ہیں، اس کے اعداد و شمار بھی دیے۔ خیر میں ان ڈاکٹر صاحب کی بات نہ بھی مانوں تو بھی انہوں نے ایک دلچسپ بات کی کہ فلو کے 200 وائرس ہیں، اب 201 ہو گئے ہیں تو کیا قیامت آ گئی۔ ہم بھی خوف پھیلانے میں مصروف ہو گئے ہیں۔ یہ ڈاکٹر صاحب اپنی حب الوطنی کے جذبے سے کہتے ہیں کہ ہمیں آیوویدرک سے رجوع کرنا چاہیے خواہ مخواہ خوف پھیلانے میں شریک نہیں ہونا چاہیے۔ ایسی بہت سی باتیں میں سن رہا ہوں اور سوچ رہا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ یہ مہذب انسانیت اپنی برتری اور اپنے مفاد کے لئے کیا کچھ کرتی ہے یہ انسانوں کا کھلا قتل عام نہیں تو اور کیا ہے۔ حسین ہارون کا وہ حصہ میں نے نقل نہیں کیا جس میں انہوں نے قرآن سے بہت کچھ سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ سورہ روم کی آیات کا حوالہ دیا ہے اور آخر میں حضرت علیؓ کا ایک قول نقل کیا ہے کیونکہ مجھے یہ قول یاد نہیں ہے، اس لئے لکھتے ہوئے ذرا تذبذب میں تھا۔ وہ قول یہ ہے کہ بیماریوں کے دس حصے ہیں جن میں 9دور رہنے میں ہیں اور ایک حصہ علاج ہے۔ یہ دور رہنے والی بات غالباً انہوں نے سماجی دوری کے حوالے سے کہی ہے اور علاج کے بارے میں تو ابھی ہم خاموش ہیں۔ شاید اس میں اندازے کی بھی کچھ غلطیاں ہو گئی ہیں۔ جس کا قدرے خمیازہ امریکہ بھی بھگت رہا ہے۔
وہ جو میں کسی بھارتی ڈاکٹر کا ذکر کر رہا تھا۔ اس کے مخصوص پنجابی انداز کی وجہ سے مجھے اس میں خاصا مزہ آ رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ فارماسوٹیکل انڈسٹری اب دنیا کی نمبر 2 نہیں نمبر 1 انڈسٹری بن گئی ہے ابھی تو کٹس بنیں گی، پھر ویکسین جو سب کو لگے گی اور آخر میں دوائیں آئیں گی۔ خوب کاروبار چمکے گا۔ انسانیت کا اصل دشمنی یہ کارپوریٹ سیکٹر ہے جس کا نہ کوئی دیس ہے نہ کوئی گھر اور پنجابی ہی میں ایک فقرہ یہ کہا کہ سانڈ پگلاہوتا جا رہا ہے، ابھی اسے سینگوں ہی سے پکڑنا پڑے گا۔ (پگلا، میں نے اسے ایسے ہی سنا ہے)بس اب اسے سینگوں سے پکڑنا پڑے گا، کارپوریٹ سیکٹر کا سانڈ بہت بپھر گیا ہے