کارڈ یا سسٹم
وزیراعظم عمران خاں نے فرمایا ہے کہ یہ جو صحت کارڈ ہے، اسے محض کارڈ نہ سمجھیں، بلکہ یہ ایک سسٹم ہے۔ اس پر مرا ماتھا ایک بار پھر ٹھنکا۔ چند روز پہلے انہوں نے کہاتھا کہ اب ہمیں ہسپتال نہیں بنانا پڑیں گے اب لوگ آ کر ہسپتال بنائیں گے۔ مطلب اس کا یہ نکلتا ہے کہ حکومت صحت کے شعبے کو سرکاری ذمہ داری سے نکال کر نجی شعبے کے سپرد کرنا چاہتی ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ سرکاری بجٹ کے پیسے نئے نئے ہسپتال بنانے یا پرانے ہسپتالوں کو چلانے کے بجائے، اسے نجی سرمایہ کاروں کی ذمہ داری بنا دیا جائے۔ وہی حرکت جو ہم نے تعلیم کے شعبے میں کی تھی۔ حکومت اس وقت تعلیم کی ذمہ داری سے تقریباً دستبردار ہو چکی ہے اور نجی شعبے نے ایک طوفان برپا کر رکھا ہے۔ غریب آدمی کو پہلے دو وقت کی روٹی کے لالے تھے، اب یہ فکر بھی ہے کہ اپنے بچوں کی تعلیم کے اخراجات کیسے پورے کریں۔
ہمارے زمانے میں ہم نے پہلی جماعت سے یونیورسٹی تک 16سال میں جو فیسیں ادا کی تھی وہ آج ابتدائی درجے کے بچے کے والدین ایک ماہ میں ادا کرتے ہیں۔ یہ نہیں کہ ہماری درسگاہیں پھٹیچر تھیں، بلکہ یہ کہ ان کا اپنا ایک مقام تھا۔ آج نہ صرف تعلیم مہنگی ہو چکی ہے بلکہ سرکاری شعبے میں بھی سرکار نے اپنی امداد کم کر دی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مجلس میں کسی نے نجی شعبے میں تعلیم کے اخراجات کی ادائیگی کی کوئی تجویز پیش کی کہ مختلف فائونڈیشن وغیرہ بنا کر طلبہ کی مدد کی جائے تو ایک ممتاز ماہرین تعلیم اور فلسفی نے متنبہ کیا کہ ایسا سوچے بھی نا۔ تعلیم حکومت ہی کی ذمہ داری رہنا چاہیے۔
اس طرح صحت بھی حکومت کی ذمہ داری ہونا چاہیے۔ حکومت کو اس سے بھاگنا نہیں چاہیے۔ یہ جو صحت انشورنس کا تصور آیا۔ اس میں کئی خطرات پوشیدہ ہے۔ مجھے نہیں معلوم اس کی فنڈنگ کہاں سے ہوتی ہے۔ تحریک انصاف کی فارن فنڈنگ ہو نہ ہو، مگر تعلیم اور صحت اور فلاح و بہبود کے بہت سے منصوبے ایسے ہیں جس کی انٹرنیشنل فنڈنگ ہوتی ہے۔ مجھے گمان ہے کہ کسی نے مشورہ دیا ہے کہ ان فنڈز کو عوام کو کارڈ کی شکل میں دے دیا جائے اور سرکار کے سر سے صحت کے شعبے میں خرچ کا ذمہ اٹھا لیا جائے۔ سرکاری ہسپتالوں میں سہولتیں ہیں یا نہیں، یہ بحث ہی ختم ہو جائے۔
نتیجہ یہ ہے کہ اس حکومت نے آتے ہی سرکاری ہسپتالوں میں ٹسٹ اور دوسری سہولتیں مہنگی کر دیں۔ جہاں مفت دوائیں مل جاتی تھیں، وہاں یہ ندارد ہو گئیں۔ اب پرائیویٹ شعبہ دھڑا دھڑا دھر آئے گا کہ یہاں پیسے موجود ہیں۔ اس وقت تو بظاہر 10لاکھ روپے بہت لگتے ہیں، مگر جب یہ دس لاکھ نجی شعبے کے ہاتھ لگ گئے تو سارے کس بل نکل جائیں گے۔ کسی کو اندازہ ہے اچھے نجی شعبوں میں علاج کا خرچ کیا ہے، ڈاکٹر کی فیس کیا ہے۔ آپ تعلیم کی طرح صحت کو بھی ایک کاروبار بنانا چاہتے ہیں۔ اچھے دنوں میں تعلیم ایک فلاحی کام ہوا کرتا تھا۔ فلاحی ادارے اسے چلاتے تھے۔ ہم نے شور مچایا، اساتذہ کا استحصال ہوتا ہے۔ انہیں سرکاری تحویل میں لے لیا، پھر کیا ہوا۔ یہ ہوا کہ تعلیم ایک کاروبار بن گئی۔ راہ خدا پر کام کرنے والے ادارے گنتی کے رہ گئے۔ نتیجتاً یہ ایک دوسرا سسٹم ہے۔ کہنے کو کہا جا رہا ہے کہ آپ ہر جگہ سے، اچھے اچھے نجی ہسپتالوں سے اپنا علاج کرا سکیں گے۔
یہ ہسپتال تو دوچار دن ہی میں آپ کے کارڈ کے دس لاکھ برابر کر دیں گے۔ مرا تجربہ ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں جو سہولتیں دستیاب ہیں، وہ نجی ہسپتالوں میں بھی نہیں۔ بس انتظامی معاملات دگرگوں ہیں۔ اس حکومت نے خیبر پختونخوا نے اس کے لئے نیا ماڈل متعارف کرنے کا منصوبہ بنایا، مگر لگتا ہے کامیاب نہ ہو سکا۔ ہسپتال ویسے کے ویسے خراب ہوں گے کہ یہ خیال آیا۔ خالص امریکی خیال میں۔ چلیے یوں کہہ لیجیے کہ نئے عہد سرمایہ داری کا تحفہ ہے۔ جسے ہم اس طرح لا رہے ہیں۔ ہسپتال ہی نہیں فارماسوٹیکل انڈسٹری کی بھی ایک دنیا ہے۔
یہ کہنا کوئی گستاخی نہ ہو گا کہ یہ ایک بہت بڑا مافیا ہے۔ حکومتوں کو بنانے، بگاڑنے میں ان کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔ کورونا کے نام پر ان کمپنیوں نے کیاکچھ نہیں کمایا۔ کیا دوڑ لگی ہوئی ہے۔ پورا زور لگا دیا کہ چین کی ویکسین سے دنیا کو دور رکھا جائے۔ سعودی عرب تک نے اسے ماننے سے انکار کر دیا۔ اگرچہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے اس کی اہمیت اور قوت کو تسلیم کیا۔ یہ مفادات کی جنگ ہے، انسانیت کی خدمت نہیں۔ برطانوی ویکسین تک کے بارے میں افواہیں اڑائی گئیں۔ صحت کے شعبے میں جنگ زرگری شروع ہو جائے تو یہ اچھی بات نہیں ہے۔
ہم اس دور میں داخل ہونے والے ہیں۔ دیکھنا ہماری حکومتیں اس سے کس طرح دستبردار ہوتی ہیں۔ ایک بات اور کہتا چلا جائوں کہ سندھ کی حکومت اگر اسے نہیں تسلیم کر رہی تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ اس تصور کے مضمرات کا سمجھتی ہے۔ اس کا مسئلہ ہے کہ وہ ہر معاملے کو اپنی تحویل میں رکھنا چاہتی ہے۔ مثال کے طور پر وفاقی حکومت نے، مرا مطلب ہے پرانے زمانوں کی وفاقی حکومت نے دل کے امراض کا خصوصی ادارہ اور صحت کی پوسٹ گریجوایٹ تعلیم کے لئے پہلی درسگاہ جناح پوسٹ گریجوایٹ انسٹی ٹیوٹ بنا کر کراچی میں کھولی۔ ان اداروں کے اتنے اثرات تھے کہ پنجاب میں ایک احساس محرومی سا پیدا ہوا چنانچہ پنجاب کا انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی اس کا نتیجہ تھا۔ یہ وفاق نے نہیں، صوبے نے بنایا تھا۔
لاہور اور ملتان اور پنڈی وغیرہ کے ہسپتال صوبائی یا عسکری اداروں کے بنائے ہوئے تھے۔ خاص طور پر امراض قلب کا یہ اس وقت واحد ادارہ تھا، اس لئے سارے ملک سے لوگ وہاں آتے تھے اور اب بھی آ رہے ہوں گے۔ بیس تیس برس سے یہ جنگ جاری تھی کہ اسے سندھ کی حکومت کی تحویل میں دے دیا جائے۔ بنا بنایا ادارہ تھا۔ بہرحال اب یہ سندھ حکومت چلا رہی ہے۔ گزشتہ دنوں معلوم ہوا کہ یہاں نوید قمر کے بھائی سربراہ ہیں۔ انہوں نے خوب خوب فنڈ حاصل کئے ہیں اور اس ادارے کو ملک بھر میں وسعت دی ہے۔ اچھی بات ہے۔ مجھے معیار کا اندازہ نہیں، مگر اب یہ سہولتیں صوبہ اپنے تسلط میں رہ کر خوش ہے۔
خوش رہو۔ سندھ حکومت نے وہ ادارے بھی جسے شہری حکومتوں نے بنایا، اپنے قبضے میں کر لیا ہے مثلاً عباسی شہید ہسپتال۔ کیا مسئلہ اپنے پسند کی تقرریوں کا ہے یا اس میں معیار بھی بلند ہو گا۔ یہ سوچنے کی بات ہے۔ اس کے بعد حکومت سندھ کے پاس اتنا پیسہ کہاں کہ وہ صحت کارڈ میں دے سکے۔ وہ کہتی ہے کہ وفاقی حکومت سیاسی فائدہ اٹھائے گی جس طرح بے نظیر کارڈ کے نام پر سندھ کی حکومت اٹھاتی ہے حالانکہ یہ وفاق کا منصوبہ ہے اور اس کا پیسہ بھی نجانے کہاں سے آتا ہے۔
اس پورے پس منظر میں غور کرنا ہو گا کہ اس نئے نظام میں صحت کا معیار کیا ہو گا۔ وہ غریب آدمی کی پہنچ میں ہو گی یا وہ پہلے سے بھی جائے گا۔ ابھی تک تو مجھے اس بارے میں شکوک ہیں۔ ہو سکتا ہے اس حکومت کو سیاسی طور پر اس کا فائدہ پہنچے، مگر صحت تعلیم کی طرح سرکار کی ذمہ داری نہ رہی تو یہ اس غریب ملک کے لئے ایک بڑا المیہ ہو گا۔