بہت کھیل ہو رہے ہیں
ہم کیا کر رہے ہیں۔ تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں۔ بربادیاں نہ سہی، امتحان کی ایک اور گھڑی سر پر ہے۔ جھٹ پٹ میں پریس کانفرنس کرنے والے شیخ رشید کے منہ سے بھی ایک اہم بات نکلی ہے۔ کیسا الیکشن کون سی سیاست، علاقے کی صورت حال اور عالمی حالات میں سب کچھ بدل سکتا ہے۔ چھ ماہ میں جانے کیا سے کیا ہو جائے۔ دراصل اس ساری صورت حال کا تعلق افغانستان کے حالات سے ہے جن کی طرف شیخ رشید اشارہ کر رہے ہیں۔ مگر اس سے جڑی وہ حقیقت ہے جس کا ہم اعتراف نہیں کر پا رہے ہیں۔ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کا بہت بڑا تعلق خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرات اور اس پر امریکہ کی دفاعی حکمت عملی ہے۔ آسان لفظوں میں سی پیک تھا اور ہے اور دوسری طرف آئی ایم ایف۔ نواز شریف کا جانا اور عمران خان کا آنا ایک طرح سے سی پیک سے آئی ایم ایف کی طرف کا سفر تھا۔ جب کوئی بات دو ٹوک لفظوں میں کہی جائے تو وہ بہت کھردری، سخت اور اکھڑ دکھائی دیتی ہے۔ اس میں آپ ذرا شائستگی ڈال کر اسے سفارتی زبان میں ادا کر دیں تو بات اچھی طرح سمجھ میں آ جائے گی۔
میں نے اکھڑ اور کھر درااس لئے کہا ہے کہ یہ سیاہ اور سفید کا معاملہ دکھائی دیتاہے۔ ایسا نہیں ہو گا۔ کئی بار حوالہ دے چکا ہوں کہ جب 1996ء کے آخر میں پراجیکٹ فار نیو امریکن سنچری پر 18چیدہ چیدہ امریکیوں نے دستخط کئے اور نوقدامت پسندوں کا باضابطہ آغاز ہوا تو اس کا ایک مقصد عراق کی صورت حال تھی تو دوسری طرف چین کے تیز رفتار سفر کو کم از کم 25سال تک روکنا تھا۔ ہم سی پیک کی صورت میں جہاں ترقی کے اپنے سفر کو تیز کر رہے ہیں، وہاں چین کی تیز رفتاری کو بھی مہمیزدے رہے تھے۔ جو کچھ ہوا اس سفر کو روکنے کے لئے تھا۔ یہ نہیں کہ نواز شریف چین کا حامی اور امریکہ کا دشمن تھا اور نہ یہ کہنا درست ہو گا کہ عمران چین کا مخالف اور امریکہ کا دوست ہے۔ یہ سب واقعات کی تیز رفتاری کی زد میں تھے۔ 2014ء کے دھرنے کا سب سے بڑا اثر یہ ہوا کہ چینی صدر کا تاریخی دورہ پاکستان موخر ہو گیا۔ سی پیک التوا میں پڑ گیا۔ اب حکومت کی تبدیلی کے بعد میں سی پیک پر اعتراضات اٹھنے لگے اور اسے موخر کر دیا گیا۔ ہم کہ تاریخ کے درست رخ پرتھے، غلط رخ پر کر دیے گئے۔ بتایا ہمیں یہی گیا کہ اسی میں پاکستان کی بقا ہے۔
میں پس منظر جاننے کے لئے تاریخ میں الجھ گیا ہوں۔ اس وقت سب اشارے ایسے مل رہے ہیں کہ امریکہ ہمارے ہاتھ مروڑ رہا ہے۔ نئے امریکی صدر نے ہمارے وزیر اعظم کو خیر سگالی کا فون نہ کیا تو ہمارے ہاتھ پائوں اس طرح پھولنے لگے جس طرح ان دنوں ٹرمپ کے پاکستان مخالف بیانات سے پھولے تھے۔ اس نے آ کر پاکستان کے نئے وزیر اعظم سے خوشگوار تعلقات بنا کر ظاہر کیا کہ امریکہ کو پھر پاکستان کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ اس وقت پھر ہاتھ مروڑے جا رہے ہیں۔ ملک میں دہشت گردی بڑھ گئی ہے۔ بھارت کا ہاتھ دکھائی دیتا ہے۔ راستہ وہی افغانستان سے آتا ہے۔ بھارت نے الزام لگایا کہ ہم دہشت گرد کشمیر میں داخل کر رہے ہیں۔ افغانستان ہم پر الزام لگا رہا ہے، امریکہ اکڑے بیٹھا ہے، خطے میں امریکہ کے دوست ہم سے دست تعاون بڑھا رہے ہیں۔ ایسے میں ہم شان سے کھڑے ہیں، ہم ا ڈے نہیں دیں گے۔ بھائی کس نے مانگے ہیں۔ امریکہ فون نہیں کر رہا۔ ہم نے جواب دیا کہ یہاں کون انتظار کر رہاہے۔ سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا گیا، افغانستان کے مسئلے پر اور پاکستان کو نہیں بلایا گیا ہم نے اپنی اسی ناکامی کی خود تشہیر کی۔ بالآخر امریکی دفاع کے سربراہ نے ہماری سلامتی کے سربراہ سے بات کی۔ رائٹ چینل۔ ہم نے سی پیک کا سربراہ بھی بدل ڈالا ہے۔ کیا ہم رخ بدل رہے تھے۔ دوبارہ تاریخ کے درست رخ پر جانا چاہتے تھے۔ اس وقت فیٹف سے لے کر آئی ایم ایف اور مشرق وسطیٰ کی طاقتوں سے لے کر بھارت تک سب سیم پیج پر ہیں۔ ہمارے ہاں کیا یہی تھنکنگ ہے کہ امریکہ کو گھاس نہیں ڈالنا اور اس طرح قومی ہیرو بننا ہے۔ ہم امریکہ کی سرد مہری کا ڈھنڈورا خود پیٹ رہے ہیں۔ ہمارے سامنے چائس یہ نہیں کہ امریکہ اور چین میں سے کسی ایک کو منتخب کریں۔ بلکہ وہ راستہ تلاش کر یں جو ہمیں خطے کی سیاست میں درست سمت پر بھی رکھے اور ہماری ترقی کے سفر کو بھی سبوتاژ نہ ہونے دے۔ ہمارے ہاں مذاق اڑایا جاتا ہے مگر نواز شریف نے سوچ سمجھ کر وزیر خارجہ نہیں لگایا تھا اور وزارت خزانہ بھی اپنے خاص بندے کو سونپی تھی۔
عالمی اسٹیبلشمنٹ کے کسی مہرے کو نہیں دی تھی۔ یہ دونوں بہت دبائو کے معاملات تھے۔ سلامتی کے امور پر بھی خود دبائو برداشت کیا اور بالآخر رخصت ہو گیا۔ دفاع، خزانہ اور خارجہ یہ تین شعبے پھر دبائو میں ہیں۔ دنیا کو انہی تین شعبوں سے واسطہ ہے۔ افغانستان نہیں، اصل مسئلہ چین کا ہے۔ بلوچستان میں فتنہ فساد اسی کا شاخسانہ ہے۔ ہمیں کسی سے لڑائی نہیں لینا۔ چین سے بھی نہیں۔ سلامتی کونسل کے اجلاس میں ہم یہ بھی نہ کر سکے کہ چین کی مدد لیتے۔ وجہ کچھ بھی ہو۔ معید یوسف سے لے کر شاہ محمود قریشی تک ہم صرف واویلا کر رہے ہیں۔ ہمیں بہت باریک بینی سے حکمت عملی طے کرنے کی ضرورت ہے۔ چند برس پہلے ہم ایران سے گیس لے کر پاکستان سے انڈیا لے جانے کے خلاف تھے، اب ہم اپنے لئے گیس نہیں لے سکتے۔ افغانستان کے راستے وسط ایشیا سے گیس اور بجلی کے منصوبوں کو متبادل کے طور پر پیش کیا گیا۔ کہاں ہیں وہ منصوبے۔ ہم نے قطر سے گیس لی شور اٹھ کھڑا ہوا۔ روس کی مدد سے گیس پائپ لائن بچھانے کی کوشش کی۔ سوال اٹھا دیے گئے۔ گیس کی خریداری میں تنازعہ کھڑا کر دیا گیا۔ بجلی کے منصوبوں پر سوال اٹھا دیے گئے۔ کیا یہ ملک کا توانائی کے بغیر گلہ گھونٹنا چاہتے ہیں۔ سوال یہ نہیں کہ موجودہ حکومت کیا کر رہی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم سے کیا کرایا جا رہا ہے۔ ہو سکتا ہے موجودہ حکومت نہ جھکے تو کوئی اور بندوبست سوچا جائے۔ اسے مذاق نہ سمجھئے۔ یہ ہوتا آیا ہے۔ ایک قوم کی حیثیت سے ہمیں اپنی ترجیحات طے کرنا ہوں گی اور اپنے مفادات کے دفاع کے لئے حکمت عملی بھی، وگرنہ ہم یہ کہتے رہیں گے کہ ہم دوسروں کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہیں ہونے دیں گے اور دوسروں کی سرزمین میں بھی اپنے دشمن نہیں پلنے دیں گے مگر اس کا کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ ہم درست جا رہے تھے۔ دوبارہ جال میں پھنس گئے ہیں۔ افغانستان میں انتشار پھیلایا جائے گا۔ وہاں کے لوگ بھی "ظالم" سہی، مگر مرنے کا شوق کہیں باہر کا ایجنڈہ ہے۔ شام و عراق میں جو کچھ ہوا، اس کے ڈانڈے اب یہاں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اب سامراج انتشار پھیلاتا ہے اور اس انتشار کی آڑ میں حکمرانی کرتا ہے۔
تو قصہ مختصر یہ کہ اگر کوئی تبدیلی متوقع بھی ہے تو ذرا غور کر لیجیے کہ اس نئی تبدیلی کا ایجنڈا کیا ہے۔ یاد رکھنا کوئی یہ ایجنڈہ خریدنے نہ پائے۔ کوئی پارٹی نہ کوئی۔ یہ سرزمین عوام کی امانت ہے اور خدا کی ملکیت۔ ہمیں اس بات کو ذہن نشین رکھنا چاہیے۔ بہت کھیل ہو رہے ہیں۔