اے خدائے دیر گیر
آج ارادہ کشمیر پر لکھنے کا تھا۔ یوم استحصال کشمیر جو ہم نے منایا ہے۔ کچھ ہوا ہوتا تو لکھتا۔ ایک منٹ کی خاموشی، صدر عارف علوی کی قیادت میں ایک ریلی جس میں ایک وزیر دندناتے نظر آ رہے تھے۔ آخر وزیر اعظم نے قیادت کیوں نہ کی۔ اس لئے صدر مملکت کی قیادت میں تو ایک علامتی احتجاج ہو سکتا تھا مگر وزیر اعظم کی قیادت میں نکلنے والی ریلی علامتی نہیں سیاسی ہوتی ہے اور سیاسی ریلی کو بڑا اور عظیم الشان ہونا چاہیے تھا۔ ایسا ہم صرف اپنے اقتدار کے لئے کر سکتے ہیں۔ کشمیر کے لئے نہیں۔ دل دکھا ہوا ہے۔ ایسے میں کشمیر پر کیا لکھوں۔ سرکاری طور پر ہم 5فروری اور 5اگست کو شور مچا لیا کریں گے اللہ اللہ خیرسلا۔
اب بات شروع ہو گئی ہے تو ایک آدھ کارکردگی اور گنوا لوں۔ صبح سویرے ایسے ہی پی ٹی وی کھل گیا۔ معلوم ہوا کہ آج مارننگ شو کشمیر پر ہوں گے۔ ایک پل کے لئے رک گیا۔ یوں لگا گردش کون و مکاں رک گئی ہے۔ معلوم ہوا کشمیر کے بارے میں بتایا جائے گا۔ ایک اور پروگرام میں کشمیری ٹوپیوں اور شالوں کی نمائش ہو گی۔ لو ہم نے کشمیر کے استحصال کا حق ادا کر دیا۔ رات میں نے ایک کشمیری لیڈر کو اپنے ٹی وی شو میں لیا۔ اس نے بڑی پتے کی بات کی۔ اس کا کہنا تھا کہ کشمیریت کا قتل عام ہو رہاہے۔ مطلب اس کا یہ تھا کہ ریاست سے اس کا خصوصی استحقاق چھین کر اب غیر کشمیریوں کو کشمیر کی۔ دھرتی پر آباد کیا جا رہا ہے، بالکل اس طرح جس طرح فلسطین کی سرزمین غیر فلسطینی یہودیوں نے خریدی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق 18لاکھ ڈومیسائل غیر کشمیریوں کو دیے جا رہے ہیں۔ اور کوئی نہیں ہے جو دنیا میں اسے روک سکے یاد ر وکنے کا ارادہ رکھتا ہو۔ چلیے یہاں کشمیریت سے ایک ٹھوس حقیقت مراد ہے مگر ہمارے ہاں اس کا مطلب یہ ہے کہ اب وہ کھا نے، وہ لبا دے، وہ ٹوپیاں، وہ کلاہ نظر نہیں آتے۔ افسوس ہم کشمیر کے کلچر کو بھی بیان نہ کر سکے۔ یہ تو بہت ظاہری علامت ہی کشمیری کلچر کی۔ کہتے ہیں کشمیر نے ذہنی طور پر Intelectuallyپورے برصغیر پر حکومت کی ہے۔ ہم نے اسے ایک مظلوم اور بے بس قوم بنا دیا ہے۔ سعادت حسن منٹو میری طرح امرتسر کا کشمیری تھا۔ جب اس کی زندگی میں کشمیر میں جنگ چھڑی تو اس نے کہا کہ تمہیں قسم ہے۔ شلجم اور بھات کی کہ کیا تم ایک۔ دوسرے کے گریبانوں میں ہاتھ ڈال سکتے ہو۔ یہ شلجم اور بھات کہاں چلے گئے۔ یہ تم جسے شب دیگ کہتے ہو، رتجکوں کا ایک کلچر تھا، کہاں گیا۔ ہاں یہ بھات کیا ہوتا ہے۔ بچپن سے مرے گھر میں چاول کے لئے "بھتہ" کا لفظ استعمال ہوتا تھا کوئی چاول نہیں کہتا تھا اب بھتہ یا بھات اجنبی ہو گئے۔
میں بھی کیا پی ٹی وی والی باتیں کرنے لگا۔ ایک بار مظفر گڑھ کے مصطفی کھر نے نوازشریف کوگونگلو یعنی شلجم کہہ دیا تھا۔ خالد حسن نے کہ کشمیری تھا، اس پر کیا خوبصورتکالم لکھا تھا جانگلیوں کی ایسی تیسی!
آہ یہ قوم نجیب و چرب دست و تردماغ
ہے کہاں روز مکافات اے خدائے دیر گیر
کہاں نکل گیا، میں آج کے یوم استحصال کشمیر کی بات کر رہا تھا، کتنا مشکل نام ہے۔ویسے کشمیر کا مقدمہ بھی آسان نہیں۔ ہم نے خارجہ امور شاہ محمود قریشی کو سونپ رکھے ہیں گستاخی نہ ہو تو عرض کروں اپنی تمام سنیارٹی کے باوجود وہ امور خارجہ کے آدمی نہیں ہیں۔ پر کیا کریں سینئر آدمی کو وزیر اعظم کے بعد ہی عہدہ دینا ہوتا ہے۔ یہ ہمارے ہاں کی ریت ہے۔ ایک اور شخص ہم امریکہ سے لائے ہیں۔ سنا ہے وہ وہاں ایک تھنک ٹینک کے رکن تھے۔ اس تھنک ٹینک نے ہمارے وزیر اعظم کو بلایا تھا۔ یہ دعوت عموماً تھنک ٹینک کا صدر کرتا ہے مگر اس بار اس رکن نے یہ خدمت انجام دی تھی۔ یہ ہماری قومی سلامتی کا مشیر ہے اورعجیب کام دکھا رہا ہے۔ سلامتی کونسل میں بھارت کا نمائندہ کیا کر رہاہے، کیا ہم نے اپنے لوگوں کو خبر دی۔ جو امور کشمیر کاوزیر ہے، وہ ہماری سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔ اب ہم نے کشمیر میں جو وزیر اعظم مقرر کیا ہے اسے نیازی سمجھا تھا مگر یہ تو اس کا گویا تخلص نکلا۔ مگر تخلص بھی کام کر گیا۔ کشمیر کی اپنی قیادت کو ہم نے فراموش کر دیا ہے۔ اب وہاں امین گنڈا پور، بلاول بھٹو اور مریم نواز کا شورہے۔ کہاں گئے سردار قیوم، سردار ابراہیم، کے ایچ خورشید، کشمیر کو ہم نے کشمیریوں کا نہیں اب اپنا مسئلہ بنا لیا ہے اور ہمارے پاس اس مسئلے کو حل کرنے کا وقت ہے نہ ضرورت نہ ہمت۔ معاف کیجیے ایسے یہ لکھتا جا رہا ہوں کشمیری اب بھی آپ کی طرف نگاہیں لگائے بیٹھے ہیں مگر آخر کب تک۔
نہیں لکھ سکا نہ میں کشمیر پر کالم۔ کیا لکھوں، کوئی بتائے نا!