8 مارچ کا ہنگامہ
میں مدت سے اس بات کا قائل رہا ہوں کہ کسی تہذیب کی تشکیل اس مساوات پر ہوتی ہے جو اس معاشرے میں مردوزن کے درمیان قائم ہو اور مساوات علم حساب والی مساوات (equality)ہے اور اس کا تعلق کسی اور برابری والی مساوات سے نہیں ہے۔ انسانیت نے اس حوالے سے بہت جدوجہد کی ہے۔ مگر آج جو ہمارے ہاں اس کی شکل نظر آئی ہے وہ بہت ہی نچلی سطح کی ہے۔ میں بار بار کہتا ہوں کہ ہمارے ہاں سول سوسائٹی کے نام سے ایک ایسا کلچر پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو قابل گردن زدنی ہے۔ یہ سول سوسائٹی دراصل، اس تصور کا تسلسل ہے جسے فرانس میں ایک زمانے میں سوسائٹی کے نام سے یاد کیا جاتا تھا اور جس کے مرکز میں کوئی مادام بھی ہوا کرتی۔ جس تک رسائی کامیابی کی ضمانت ہوا کرتا تھا۔ اسی بورژدا کلچر کو ہمارے بڑوں نے کوسنے دیے ہیں۔ آج کل ہم نے اسے اشرافیہ کا لباس پہنا دیا ہے اور اس کی آڑ میں ان قدروں کو فروغ دے رے ہیں جن میں چکا چوند تو ہے مگر جو سطحی بھی ہیں اور معاف کیجیے گھٹا بھی۔ اب بھلا یہ کوئی بحث ہے جو آج کل ہمارے میڈیا 8مارچ کے حوالے سے چل رہی ہے۔ عورت کے حقوق اور بات ہیں، مگر انہیں ایک مخصوص رنگ دینا دوسری بات ہے۔ اس کی آڑ میں ان قدروں کو تقدس دیا جائے گا تو پھر ردعمل تو ہو گا۔ حقوق نسواں کا معاملہ ہماری زندگیوں سے بہت پہلے شروع ہوا۔ اس وقت مسائل ہی اور تھے اور مطالبات بھی دوسرے تھے۔ یقین آئے گا یہ ووٹ کا حق مغرب کی عورت نے شاید 1924ء میں حاصل کیا۔ ساری جدید دنیا انہی دنوں آگے پیچھے اس حق سے مستفید ہوئی۔ اس بحث کے چند پہلو اس سے بہت ہٹ کر ہیں۔ ان کا تعلق نہ جبری شادی سے ہے، نہ مردوں کے برابر تنخواہوں سے نہ جبر و تشدد کی نفی سے، یہ دوسری چیز ہے۔ ہمارے بچپن میں حقوق نسواں کے بجائے آزادی نسواں کا لفظ بولا جاتا تھا۔ اس کے لئے وومن لب(لبرٹی) کہا جاتا۔ یہ ترقی پسندوں کا زمانہ تھا۔ انہوں نے ٹوکا۔ بھئی یہ تو مغرب کی بے مہار تہذیب کو فروغ دینا ہے، وہ غالباً چین سے ایک اور لفظ لائے وہ تھا نجات نسواں۔ بڑی بحث چلتی ہم بھی مزے لیتے یہ تو فیمن ازم(faminism)کے لفظ نے سب کچھ گڈ مڈ کر دیا۔ ایسے ایسے تصورات تھے کہ انسان سوچتا ہی رہ جاتا ہے۔ ایسی تحریکیں بھی تھیں جو کہتی تھیں عورت کو مرد کی ضرورت ہی نہیں ہونا چاہیے۔ ان میں اکثر سنگل عورتیں تھیں یا ہم جنسیت کی طرف مائل تھیں۔ ہمارے اقبال جب سیر فلک کو نکلے تو انہیں بھی ایک ایسی خوبصورت خاتون سے سابقہ پڑا جنہیں انہوں نے دوشیزہ مریخ کہا۔ اس نے نبوت کا دعویٰ کر رکھا تھا۔ اس لئے نبیۂ مریخ بھی کہلائی۔ کیا خوبصورت بحث ہے ؎
ازمقام مردوزن وارد سخن
فاش ترمی گو یداسرار بدن
تفصیل کیا بیان کروں، خلاصہ یہ تھا کہ توحید پر ہے کہ وہ دو بدنوں کے ربط سے آزاد ہو۔ جسم ہو یا بدن یا بدن دریدہ ہی کیوں نہ ہو، اس پر بات کرنا مرا مرغوب موضوع رہا ہے کیونکہ میں اس کے بطن سے اس تہذیب کی تلاش میں ہوں جو ظاہر نہیں ہو رہی کسی میں ہمت تو ہو کہ وہ آ کر اس پر علمی سطح پر بات کرے۔ اب کیا کوئی اداکارہ، ماڈل یا سول سوسائٹی کی شوخ و چنچل بچی آ کر بتائے گی کہ مرا جسم، مری مرضی کا مطلب کیا ہے۔ بھائی یہ زبان کا مسئلہ ہے اس پر یہ حتمی رائے دی جا چکی ہے کہ اس کا جو مطلب ہے وہ کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑتا۔ اگر آپ اس کا یہ مطلب لیتے ہیں کہ عورت کہہ رہی ہے کہ اسے اس کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت دی جائے۔ شادی بیاہ کے معاملے اس سے پوچھ کر طے کئے جائیں تو میری زندگی میری مرضی اس کی بہتر وضاحت کرتی ہے۔ شادی صرف جسم یا بدن کا نام نہیں ہے۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ آپ میری روح، میری مرضی کہیں مگر جسم اور بدن کے الفاظ کے معنی میں سمجھ لیں۔ بیسویں صدی میں جدید نفسیات کے بانی سگمنڈ فرائیڈ پر الزام لگتا ہے کہ اس کے ہاں جنس (sex) کے علاوہ اور کچھ ہے ہی نہیں۔ وہ ہر بات کے پس منظر میں جنس کو لے آتا ہے۔ اس نے بھی یہ بات سمجھا رکھی ہے کہ زندگی میں ایک اصولی تلذذpleasure princpale ہوتا ہے، مگر اس سے اوپر ایک اصولی حقیقت reality principle ہے۔ زندگی صرف تلذذ کا نام نہیں، وہ معیشت کے بھی تابع ہوتی ہے وگرنہ زندگی میں کئی طرح کی کج روی (perversion) پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ بیماریاں ہیں، ان کے کئی نام ہیں۔ فرائیڈ ان کا علاج کرتا تھا۔ آپ اس کی تشہیر کرنا چاہتے ہیں۔ زندگی perversion کا نام نہیں، یہ تو بیماری ہے۔
اوپر میں نے ذکر کیا کہ حقوق نسواں یا آزادی نسواں کی تحریک کی بھی کئی جہتیں ہیں۔ مگر نارمل زندگی کے کچھ اصول ہیں۔ اس کے لئے اپنی حد کے اندر رہنا پڑتا ہے۔ انسانی تہذیب اس طرح تشکیل پاتی ہے۔ میں ان حدود کی تلاش میں سرگرداں ہوں۔ آپ سب حدیں توڑنا چاہتے ہیں۔ مجھے حق ہے کہ میں انسانیت کی بہتری کی خاطر اس کی مزاحمت کروں۔ آزادی نسواں میں بھی میں فرانس کی ایک فلسفی خاتون سمدی دی جوار کا بہت ہی قائل ہوں۔ یہ عفیفہ ژاں پال سارتر کی شریک حیات تھی spouse کیونکہ شادی کے تصور کے تو یہ قائل نہ تھے۔ اس کی کتاب سکینڈ سیکس second sex فیمن ازم کی بائبل گنی جاتی ہے۔ اس میں چند باتیں ایسی تھیں کہ ان کی تصدیق کے لئے مجھے سنجیدہ اور معتبر خواتین کی مدد لینا پڑی۔
یہ آسان مسئلہ نہیں، مگر میری یہ پختہ رائے ہے کہ یہ ایک عالمی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ امریکیوں کا تو معاملہ یہ ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ پوری دنیا میں ٹریفک کے نشانات بھی اس طرح ہوں جیسے امریکہ میں ہوتے ہیں۔ ابھی رنگ آسمانی نیلا اور وہی انداز یہ میکڈونلڈ پیپسی برانڈز نہیں، بس ایک تہذیب کا نام ہے، اس پر بڑی دلچسپ کتاب بھی ہے آج اس پر جس طرح ہنگامہ کھڑا کیا گیا۔ وہ سطحی تو ہے ہی، اس کا مقصد بھی دوسرا ہے۔ یہ کوئی زبانی دعویٰ نہیں، تفصیل سے بات ہو سکتی ہے۔ ایک بار مشرف کے زمانے میں لاہور میں میرتھن ریس کا شور اٹھا تھا۔ کراچی میں روز ہوتی ہیں مگر اس کا ہوا یوں کھڑا کیا گیا کہ آخر حکومت کو ہتھیار ڈال کر میدان میں آنا پڑا۔ فساد خلق کا خطرہ تھا۔ لاحول ولاقوۃ۔ آج بھی شاید یہی خواہش ہے۔ اس وقت میں اتنا ہی عرض کر پایا ہوں۔ بہت سی باتیں قرض ہیں کوشش کروں دو چار دنوں میں اس کا تذکرہ کر دوں۔ لوہا گرم ہے۔ ماروی سرمد نے اور خلیل الرحمن نے فضا باندھ رکھی ہے۔