چار فیصد ،شوکت ترین کا کمال
حکومت کے ترجمان یہ بتاتے ہوئے پھولے نہیں سما رہے کہ اس سال ہماری شرح نمو 4فیصد تک جا پہنچے گی حالانکہ یہ شرح نمو کوئی قابل قدر نہیں گنی جا سکتی۔ ماضی میں 3فیصد شرح نمو پر پھبتی کسی جاتی تھی کہ یہ ہندو گروتھ ریٹ ہے اس لئے کہ بھارت کافی دنوں تک اس حد تک رکا رہا تھا۔ کئی سال تک اس کی شرح نمو یہاں تک پہنچ جاتی تھی۔ پھر بھی جب اچانک پاکستان میں یہ اعلان ہوا کہ ہماری شرح نمو چار فیصد ہوئی جاتی ہے تو ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ تھا۔ یقین نہ آتا تھا کہ ہم نے یہ حدحاصل کر لی ہے۔ اس لئے کہ ابھی چند دن پہلے ہم یہ کہہ رہے تھے کہ ہماری شرح نمو اس سال ایک فیصد یا دو فیصد ہو گی۔ تمام حکومتی اور بین الاقوامی ادارے اس پر متفق تھے۔ اس سے پہلے تو ہم متفقہ طور پر منفی شرح نمو حاصل کر پائے تھے۔ گویا پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ترقی معکوس فرما رہے تھے۔ آبادی بڑھ رہی تھی اور آمدنی کم ہو رہی تھی۔ ہم تشویش میں مبتلا تھے۔ حکومت کے دعوئو ں میں کوئی دعویٰ ایسا نہ تھا جو تیز رفتار ترقی کی نوید دیتا ہو۔ البتہ جب ہمارے نئے وزیر خزانہ شوکت ترین آئے تو انہوں نے آتے ہی پہلے تو یہ اعلان کیا کہ پاکستان کی معیشت تباہ ہو چکی ہے۔ اس میں ان پالیسیوں کا تذکرہ بھی کیا جو اس کی ذمہ داری ہے مثلاً شرح سود میں بے پناہ اضافہ اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت میں ہوش ربا کمی۔ یہ اعلان انہوں نے منصب سنبھالنے سے پہلے ہی کر دیا تھا۔ البتہ منصب سنبھالنے کے اور تقاضے ہوتے ہیں۔ وزیر بنتے ہی انہوں نے اعلان کیا کہ معیشت پھر ہی سنبھل سکتی ہے جب شرح نمو چھ سات فیصد ہو اور مہنگائی پر قابو پایا جا سکے۔ یعنی باقی باتیں لایعنی ہیں یا اگر یہ حاصل نہیں ہوتا تو اور کوئی بات بھی اہم نہیں ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسحق ڈار کے تخمینوں کے مطابق اس سال شرح نمو اتنا ہی ہوناتھی یعنی گزشتہ سال 6.2فیصد اور اس سال 7فیصد اور ہم تھے کہ ترقی معکوس کی طرف جا رہے تھے۔ کورونا کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس سے پہلے بھی۔ شوکت ترین کے اس اعلان پر کہا گیا کہ بات تو سچ ہے مگر یہ حاصل کیسے ہو گی۔ ایک زمانے میں ہم دنیا کے سامنے غلط اعداد و شمار پیش کرنے میں مشہور تھے۔ اس بار جب شوکت ترین نے اعلان کیا تو اہل فکر و نظر نے سوچا کہ بات تو سچ ہے مگر یہ ہدف حاصل کیسے ہو گا۔
مگر یہ تو شوکت ترین نے جادو کر دکھایا۔ پہلے تو صرف یہ اعلان آیا کہ گندم اس بار ہدف سے کہیں زیادہ پیدا ہوئی ہے۔ اس کی وجہ حکومت کی حکمت عملی ہے۔ اسے چھوڑیے حکومت تو بیچاری چند دن پہلے تک اس بات پر پریشان تھی کہ اس بار بھی گندم کی فصل اچھی نہ ہو گی اور نتیجے کے طور پر باہر سے منگوانے پر سوچ رہی تھی حتیٰ کہ کپاس اور چینی کے بارے میں بھی یہ رائے تھی۔ اب اچانک خبر آئی ہے کہ ساری فصلیں بفضل خدا ہر لحاظ سے بہت اچھی ہوئی ہیں۔ اس میں اعلیٰ درجے کے بیج کا کمال بتایا گیا۔ پنجاب کے زرعی سائنس دانوں کی تعریف کی گئی۔ اس بات کا تو مجھے علم ہے کہ گزشتہ کئی برس سے ہمارے ہاں بیج کی اعلیٰ قسم پر کام ہو رہا ہے اور یہ بات بھی غلط نہیں کہ ماضی میں ہمارے زرعی سائنسدان کمال دکھاتے رہے ہیں۔ یہ کوئی ایک آدھ سال میں نہیں ہوتا۔ وقت لگتا ہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ ہماری حکومت کو اندازہ نہ تھا۔ اچانک پتا چلا کہ گندم ہی نہیں گنا اور کپاس کی فصل میں سب ریکارڈ توڑ دے گی بس اس "اچانک پن"سے حیرانی ہوئی۔ وگرنہ ہمارے ہاں وسعت کی گنجائش تھی۔ بجلی نہ ہونے اور دیگر کئی وجوہ سے صنعتیں بند پڑی تھیں۔ اس بار عالمی سطح پر بھی ہمارے لئے مواقع تھے۔ اس لئے بتایا گیا کہ ہم نے وہاں بھی کمال کیا۔ مثال کے طور پر ہماری موٹرکاریں خوب بک رہی ہیں، سیمنٹ کی ملیں بھی دھرا دھر سیمنٹ اگل رہی ہیں۔
حیرانی صرف اس بات کی ہے کہ یہ سب شوکت ترین کے آتے ہی چند ہفتوں میں ہو گیا۔ بندہ جادوگر لگتا ہے۔ قطع نظر اس بات کے کہ ان اعداد و شمار کی حقیقت کتنی ہے یا اس دعوے کا مطلب کیا ہے، ہم تسلیم کئے لیتے ہیں کہ ہم ترقی کی طرف گامزن ہیں، یہ الگ بات کہ یہ اس نقصان کی تلافی نہیں جو ہم گزشتہ دو تین سال میں کر چکے ہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ترقی کے اثرات عام آدمی تک کب پہنچنے لگیں گے۔ میں تفصیل سے اس معاشی زائچے پر گفتگو نہیں کرنا چاہتا۔ یہ درست ہے کہ اس سال گندم کی پیداوار اچھی ہوئی مگر یہ حکومت نے اچانک جو ترقی کا مژدہ سنایا ہے، وہ اگرچہ اس وقت اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے مگر پھر بھی ہضم نہیں ہو رہا۔ ہو سکتا ہے یہ اعداد و شمار ہمارے لوگوں میں حوصلہ پیدا کریں اور سرمایہ کاروں کو بھی آگے بڑھنے کی ترغیب دیں۔ یہ سب تو چند دن میں معلوم ہو جائے گا۔ تاہم یہ اگر کسی حکمت عملی کا حصہ ہے تو اس سے ہمارے ترجمانوں کو تو فائدہ ہو سکتا ہے اور کسی کو نہیں اور اگر اسی طرح اعداد و شمار کے چکمے دے کر معیشت کو چلاتا ہے تو یہ ذرا بے فیض قسم کی ایکسر سائز ہے۔ اس کا بظاہر کوئی بڑا معاشی فائدہ دکھائی نہیں دیتا۔ یہ درست ہے اس سال ترسیلا ت زر کئی وجوہ سے بڑھی ہیں اور بھی مثبت باتیں ہوئی ہیں مگر ہم بہت پیچھے رہ چکے ہیں۔ یہ سفر کیسے طے ہو گا کوئی نہیں جانتا ہم نے تو ترقی کے تمام منصوبے بند کر کھے تھے۔
مثال کے طور پر راولپنڈی رنگ روڈ کاسکینڈل سامنے آیا ہے۔ اور بہت سے منصوبے ہیں جو ٹھپ پڑے ہیں میں اعداد و شمار کی طرف نہیں جاتا اگر شوکت ترین سچ مچ شرح نمو میں اضافے کے خواہش مند ہیں تو بسم اللہ کیجیے۔ میں نہیں کہتا کہ اسحق ڈار کا ماڈل اپنائیے مگر کوشش کیجیے کہ رکے ہوئے منصوبے آگے بڑھ سکیں پاکستان کی معیشت میں یقینا اتنی گنجائش ہے کہ وہ سات فیصد سے کہیں زیادہ ترقی کر سکتی ہے تاہم قوم کو اعداد و شمار کے گورکھ دھندوں میں نہ الجھائیے کچھ کر کے دکھائیے۔