چار برس
چار سال بیت گئے۔ پلک جھپکتے ہی گزر گئے۔ یہ چار برس میں نے اسی ادارے سے وابستگی میں گزارے ہیں، یہیں پر کالم لکھا ہے، نوائے وقت کے بعد یہ میرا سب سے طویل دورانیہ ہے، جو میں نے ایک کالم نویس کے طور پر کسی اخبا میں گزارا۔ جنگ میں کوئی ایک سال، خبریں میں اس سے بھی کم اور نئی بات میں ذرا زیادہ عرصہ، جنون کی حکایت خونچکاں لکھتا رہا۔ روزنامہ حریت کا ایڈیٹر تھا مگر وہاں میں نے کالم نویسی نہیں کی تھی۔
یہ جو چار سال کا عرصہ ہے، یہ میری زندگی ہی کا بہت اہم موڑ نہیں، بلکہ پاکستان کی تاریخ کا ایک فیصلہ کن مرحلہ ہے۔ جب اس اخبار کا آغاز ہوا، ملک ایک کشمکش سے دوچار ہو چکا تھا۔ ذرا ہی پہلے پانامہ کے نام پر ملک میں ایک نئی صورت حال ابھر چکی تھی۔ میری رائے میں جب اس حوالے سے عدالتی کارروائی کا آغاز ہوا، ہماری تاریخ نے رخ بدلنا شروع کر دیا تھا، اتنی بڑی کشمکش کا زمانہ تھا کہ ملک کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ قوم آہستہ آہستہ دو حصوں میں بٹ گئی۔ یہ عمل بہت تیز رفتار تھا۔ ہم ڈھلان پر پھسلتے ہی گئے۔ شروع میں اندازہ نہ ہو سکا کہ ملک کس رخ پر جا رہا ہے مگر جلد ہی معلوم ہوا کہ ایک غیر معمولی لمحہ ہماری زندگیوں کا منتظر ہے۔ ان حالات میں 92نیوز کا آغاز ہوا، میں ان لکھنے والوں میں نہیں ہوں اور یہ بات پوری دنیا جانتی ہے جن کی نظروں میں ذاتی مفادات یا تعصبات اہم ہوتے ہیں، تاہم جب ملک دو حصوں میں بٹ جائے، تو آپ کو کہیں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ستر اکہتر کے کسی لمحے جیلانی کامران نے حلقہ ارباب ذوق لاہور میں ایک مضمون پڑھا تھا، جس میں کہا تھا کہ سامنے فرات کی نہر ہے۔ لشکری آپس میں گڈ مڈ ہو رہے ہیں۔ پر وہ لمحہ ہے جب تقسیم واضح ہو جانی چاہیے کہ کون یزیدی ہے اور کون حسینی۔ مجھے یاد ہے کہ اس پر خوب ہنگامہ ہوا تھا، خوب کربلا مچی تھی۔ ایسی تقسیم فیصلہ کن ہوتی ہے اور آدمی کسی نہ کسی سمت کھڑا ہوتا۔ مگر صحافت کے میدان میں معاملہ ذرا مختلف ہوتا ہے۔ تاہم جب کربلا مچی ہوئی ہو کوئی الگ تھلگ نہیں رہ سکتا۔
ایک لکھنے والے کے لئے اس سے بڑی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ ان ہیجانی حالات میں اپنے آپ کو سنبھالے اور وہ بات کہے جو وہ دل سے درست سمجھتا ہو۔ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں اور آج بھی دہراتاہوں کہ اس سارے ہیجانی اور بحرانی عرصے میں مجھے دل کی بات قلم تک لانے میں کوئی مشکل پیش نہ آئی، ہو سکتا ہے ادارے کی پالیسی مختلف رہی ہو مگر اسے میں ادارے کی کشادہ دلی ہی کہوں گا کہ مجھے اپنی بات کہنے میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئی۔ میں اگرچہ اپنی تربیت کے لحاظ سے بہت محتاط ہوں مگر بقول ہمارے ایک بزرگ کے مزدورقلم بھی ہوں تاہم اس پورے عرصے میں بلا خوف و خطر اپنی آواز کو لوگوں تک پہنچاتا رہا۔ نئے اخبارات کو بہت سے مسائل کا سامنا ہوتا ہے تاہم مجھے جو ایڈیٹوریل آزادی یہاں میسر تھی اور ہے اس کا کھلے دل سے اعتراف نہ کرنا زیادتی ہو گا، یہی کسی اخبار کی شان ہوا کرتا ہے اور یہی اس کا اعتبار۔ شاید یہی وجہ ہے کہ نوائے وقت کے بعد میں نے اتنا عرصہ یہاں گزارا ہے۔ نوائے وقت کا تو میں کراچی میں ایڈیٹر تھا۔ اس لئے بندھا ہوتا تھا۔ مگر یہاں معاملہ دوسرا ہے۔ میرے جیسے آدمی کا ایک جگہ ٹکنا، کوئی معمولی بات نہیں۔ طبیعت میں ایک تکون اور اضطراب بھی تو ہے۔
میں عرض کر رہا تھا کہ یہ ایک تاریخ ساز زمانہ ہے۔ پاکستان بہت خطرات سے گزرا ہے۔ اس ملک کا ہر ادارہ اپنی بساط کے مطابق ملک بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہم نے سب کچھ نیک نیتی سے کیا ہو گا۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ ان چار برسوں میں ہمارے بہت سے خواب چکنا چور ہوئے ہیں یہی دیکھئے ملکی معیشت کا گراف اوپر جا رہا تھا۔ انہی دنوں ساڑھے پانچ سے چھ فیصد پہنچا تھا۔ اس برس اسے سات فیصد ہونا تھا۔ ملک میں ترقی کی نئی نئی راہیں کھل رہی تھیں۔ عالمی اندازوں کے مطابق ہم جلد ہی دنیا کے بیس ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہونے والے تھے۔ پھر یک بیک کیا ہوا کہ سال رواں میں ہم ترقی معکوس کا سفر طے کرنے کے بعد یہ سوچ رہے ہیں کہ اس برس ہماری ترقی 1.3فیصد یا 1.5فیصد بھی ہو جائے تو بڑی غنیمت ہے۔ بھارت 3فیصد ترقی کیا کرتا تھا تو دنیا اسے ہندو گروتھ ریٹ کہتی تھی۔ شہبازشریف تو چین سے شہباز سپیڈ یا پنجاب سپیڈ کا سرٹیفکیٹ لے چکے ہیں۔ بتائیں اس رفتار کو ہم کیا کہیں گے دو سال پہلے کہا جاتا تھا کہ ہم 2023ء میں اب 7فیصد تک پہنچیں گے۔ میں نے عرض کیا تھا ایسا اب 2025ء میں بھی ممکن ہو تو بڑی بات ہے۔ اب مگر یہ امید بھی دم توڑ گئی ہے۔ ہم ترقی کی رفتار میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ایسے میں استقامت کے ساتھ کالم لکھنا آسان نہیں ہے۔ اس کی داد میں خود کو نہیں دے رہا بلکہ اس اخبار کو دیتا ہوں۔ برادرم ارشاد احمد عارف کے ساتھ ایک طویل ساتھ ہے۔ نوائے وقت میں بھی تھا اور اب بھی جاری ہے۔ لاہور سے لے کر کراچی تک سبھی پرانے رفقائے کار ہیں۔ میں ایک ایڈیٹر کے طور پر اندازہ کر سکتا ہوں کہ آج کے حالات میں اخبار کا توازن قائم رکھنا کتنا مشکل ہے، اس ادارے کی فیاض دلی، کچھ خوبیاں ایسی ہیں جو میں ازراہ احتیاط بیان نہیں کرتا۔ میں نے کبھی ادارے کے اندر ان کا تذکرہ نہیں سنا، اگرچہ ان سے باخبر ہوں۔ خدا اس سلسلے کو جاری رکھے۔ شاید کسی کو اندازہ نہیں کہ یہ کتنا بڑا صدقہ جاری ہے۔
بہرحال میں لوٹ کر ملکی حالات کی طرف آتا ہوں۔ اس لئے کہ یہ اخبار ان سارے حالات سے گزرا ہے۔ یہ اتار چڑھائو، یہ مدوجز، یہ جوار بھاٹا جس سے ہم دوچار ہیں اور جیسے انگریزی لکھنے والے رولر کوسٹر کی سواری کہیں گے کوئی آسان بات نہیں۔ حب الوطنی کا تقاضا ہے ملک کو بچایا جائے۔ جب بھی اس ملک کی تاریخ لکھی جائے گی تو یکم جنوری 2010ء کے بعد کے زمانے کو الگ رکھ کر دیکھا جائے گا اور اس کا تجزیہ کیا جائے گا کوئی دانا و بینا شخص ہو گا تو وہ اندازہ کر لے گا کہ ہم پر کیا بیتی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ میرے کالم پڑھو۔ مگر یہ ضرور کہتا ہوں کہ اخبار کا سنجیدگی سے مطالعہ کرو، حقیقت حال کھل کر سامنے آ جائے گی اور اگر آپ بین السطور پڑھنے کی صلاحیتوں سے بہرہ ورہیں تو ہر گتھی بھی سلجھ جائے گی کہ میرے وطن کا یہ حال کس نے کیا اور کیسے کیا۔ دل نہیں چاہتا کہ یہ کہوں کہ یہ مرے زوال کی داستاں ہے، مگر یہ ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ دوبارہ ابھرنے کا اندازہ کرنا ہے تواس ڈوب جانے کے منظر پر ضرور غور کیجیے۔ یہ چار پانچ سال کا عرصہ تاریخ ساز تھا۔ وہ قیامتیں جو گزر گئیں تھیں امانتیں کئی سال کی۔ لیکن یہ بھی تو ایک اہم بات ہے کہ ہم اس عہد کے گواہ ہیں۔ میں گواہ ہوں میرا کالم گواہ ہے۔ میرا اخبار گواہ ہے۔ خدا اس سفر کو جاری رکھے۔ ابھی تو بڑے فیصلہ کن لمحے ہمارے منتظر ہیں۔ تاریخ بھی ان لمحوں کی منتظر ہے۔