تین ماہ یانوے دن
وزیر اعظم نے اپنے ساتھیوں کو بتایا ہے کہ آئندہ تین ماہ ان کی حکومت کے لئے مشکل ہیں۔ ظاہر ہے انہوں نے یہ بات ستاروں کی چال دیکھ کر یا کوئی زائچہ بنا کر نہیں کہی ہو گی۔ بہت سی باتیں ایسی ہو رہی ہیں جو بتاتی ہیں کہ آنے والے دن کسی حکومت کے لئے ہی نہیں، اس ملک پر بھی کٹھن ہیں۔ اسے آپ تین ماہ کہہ لیجیے یا 90دن والا پرانا راگ الاپ لیجیے مطلب یہی ہے کہ مستقبل قریب میں کچھ بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ پانی اب سر سے گزر چکا ہے۔
آخر یہ معمولی بات نہیں کہ ہم نے آئی ایم ایف سے درخواست کی ہے کہ ہمیں قرضہ دینے کی منظوری دینے کی تاریخ ذرا مؤخر کر دے۔ مطلب یہ کہ ہم آپ کی شرائط پوری نہیں کر سکے۔ ہم نے جو منی بجٹ پارلیمنٹ سے پاس کروانا تھا اور سٹیٹ بنک کی خود مختاری کے نام پر غلامی کا جو طوق اپنے گلے میں ڈالنا تھا، اس پر ہم اپنی پارلیمنٹ کو قائل نہیں کر پائے۔ ہم نے چاہا تھا کہ یہ سب کچھ صدارتی حکمنامے کے ذریعے پاس کر لیں مگر شاید آپ کو منظور نہ تھا۔ پھر ڈر تھا کہ اسے کہیں ہماری عدالتیں رد نہ کر دیں۔ لگتا ہے ہماری حلیف جماعتیں یہ برائی اپنے سر مول لینے میں تذبذب کا شکار ہیں۔
ہم انہیں جس جبر کے تحت اپنے ساتھ رکھے ہوئے تھے، لگتا ہے اس جبر نے بھی دبائو ڈالنے سے انکار کر دیا ہے۔ میں آئینی یا قانونی بات نہیں کر رہا بلکہ عرض کر رہا ہوں کہ نظام فطرت کا تقاضا ہے۔ یہ نہیں کہ کسی نے ہاتھ اٹھا لیا ہے، بلکہ یہ کہ ایسا ہونا فطری اور منطقی ہے۔ یہ تو اب ہونا ہی تھا اور ہو رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ حکومت مزید کچھ وقت گزار لے، مگر حکومت نام کی چیز ختم ہو چکی ہے اور اب یہ ملک زیادہ دیر تک بغیر کسی نظام حکومت کے چل نہیں سکتا۔ درست کہ یہ خیال کیا جاتا تھا کہ انہیں پانچ سال گزار لینے دیے جائیں مگر اس عرصے میں ملک کا کیا بنے گا، یہ سب سے تشویشناک بات ہے۔
مرے لئے مگر پریشانی کی بات یہ ہے اگر کوئی تبدیلی آ بھی جاتی ہے تو کیا اس ملک کا مقدر سنور جائے گا۔ حالات اتنے بگڑ چکے ہیں کہ کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ سوائے اس تسلی کے کہ مزید حماقتیں نہیں ہوں گی۔ اس وقت بھی مرے سامنے امکانات کا ایک جہان کھلا ہوا ہے۔ یہ حکومت کیسے جوابی وار کر سکتی ہے۔ اپوزیشن کے پاس کیا کیا آپشن ہیں، تاہم لگتا یوں ہے کہ حالات اب نہ حکومت کے ہاتھ میں ہیں نہ کسی اور کے۔ جس شبھ گھڑی کا ہمیں انتظار تھا اور جس کی خاطر ہم نے اتنے پاپڑ بیلے ہیں، اب اسے موخر کرنے کی التجا کر رہے ہیں۔
آئی ایم ایف کا اجلاس ملتوی کرنے کی درخواست کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ہم نے دوسرے سارے آپشن ختم کر لئے ہیں۔ دوست ملکوں کا یہ حال ہے کہ سعودی عرب جیسا ہمارا دیرینہ رفیق جوہر اقتصادی مشکل میں ہمارے کام آیا، اب لاکھوں شرائط کے ساتھ ہمیں قرض دے رہا ہے۔ یہ کام بھی ہم بہ امر مجبور کر چکے ہیں۔ ایک چین تھا جس نے سی پیک کی شکل میں ہمارے لئے ایک فطری راستہ کھولا تھا۔ ہم نے وہ راہ بھی کھوٹی کر لی ہے۔ اب ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں جو سلامتی کی طرف جاتا ہے۔ دنیا یہ سمجھنے لگی ہے کہ پاکستان وہ ملک ہے جو ایک دھمکی سے مر جاتا ہے۔
ہمارا یہ تاثر پرویز مشرف کا قائم کیا ہوا ہے جس نے ایک فون کال پر وہ کچھ مان لیا تھا جسے مانگنے والے بھی ممکن نہیں سمجھتے تھے۔ ان کا خیال ہے پاکستان اس پر بات چیت کرے گا۔ ہم نے ان کی توقعات سے کہیں زیادہ ان کی فرمانبرداری کی۔ ضیاء الحق نے کم از کم ایسا نہیں ہونے دیا تھا۔ اسے جب افغان جنگ شروع ہونے کے بعد چند ٹکوں کی پیش کش کی گئی تو ضیاء الحق نے کہا یہ اپنی مونگ پھلی اپنے پاس رکھو۔ اس وقت کے امریکی صدر کا چونکہ مونگ پھلی کا کاروبار تھا، اس لئے اس فقرے نے ہمارے مزاج کا تعین کر دیا تھا۔
ہم نے اس زمانے میں اپنا ایٹمی پروگرام مکمل کیا۔ ایک فرانسیسی قونصل جنرل جب کہوٹہ کی طرف جانے لگا تو اس کی پٹائی کر دی گئی۔ جب ایک امریکی سفیر نے بغیر اطلاع کے پشاور جانے کا ارادہ کیا تو اسے پیغام دیا گیا کہ واپس نہ آئیے، ادھر سے افغانستان نکل جائیے گا۔ کم از کم ہمارا ایک لہجہ تھا۔ ہم نے افغان جنگ کا یہ مرحلہ بہت سلیقے سے طے کیا مگر جب ہم سچ مچ امریکیوں سے مل کر افغانیوں کے خلاف لڑنے کے لئے اترے تو سب کچھ ہار بیٹھے۔
آج یہ اسی کا اثر ہے۔ آئی ایم ایف نے جو شرائط ہم سے منوائی ہیں، وہ تاریخ کی بدترین شرائط اس لئے ہیں کہ دنیا جان گئی تھی کہ ہم ایک دھمکی ہی سے مر جاتے ہیں اور ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ ہم نے اپنی خود مختاری کا سودا کر کے اچھا نہیں کیا۔ ہم نے دنیا کو اپنی حماقتوں سے قائل کر لیا کہ ہمارے ہاتھ پلے کچھ نہیں ہے اور یہ کہ ہم نے اپنے لئے تمام متبادل راستے بند کر لئے ہیں۔ اب بس آپ کے دوارے آ بیٹھے ہیں، ساری توقعات آپ سے لگا رکھی ہیں۔ انہوں نے وہ کیا جو انہیں کرنا چاہیے تھا۔
جب یہ حکومت آئی تھی اور ہم نے سی پیک سے منہ موڑا تھا تو تجزیہ نگاروں نے بہت سی باتیں کی تھیں اور یہ کہا تھا کہ عالمی ایجنڈا کیا ہے جن میں آخری دو باتیں یہ تھیں کہ ہم کشمیر سے ایک طرح سے دستبردار ہو جائیں گے۔ یہ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ ایسا ہو گیا ہے۔ عملی طور پر بھارت نے کھلم کھلا اپنا حصہ بنا کر ہمیں بے بس کر دیا ہے۔ الزام اس حکومت پر لگا کہ اس نے کشمیر کا سودا کر دیا ہے۔ یہ حکومت کہتی رہی کہ ہم نے تو ایسی زور دار تقریریں کشمیر پر کی ہیں کہ کسی نے نہ کی ہوں گی مگر پاکستانیوں کے دلوں میں یہ شک بیٹھ گیا کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے۔
اب جب آئی ایم ایف کی شرائط سامنے آ رہی ہیں کہ اپنا دفاعی حساب کتاب بھی پورے کا پورا سٹیٹ بنک میں رکھو اور سٹیٹ بنک کو پارلیمنٹ یا وزیر اعظم یا پاکستان کی عدالتوں کے سامنے جوابدہ ہونے سے مستثنیٰ کر دیں تو شک تو ابھرتا ہے کہ ہو نہ ہو ان کی نظریں ہمارے ایٹمی پروگرام پر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لیڈر آف اپوزیشن نے اسمبلی میں اس طرف اشارہ بھی کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستانیوں کے دلوں میں یہ خیال جم سا گیا ہے کہ ہماری سلامتی کا سودا کیا جا رہا ہے۔
یہ کہنا کہ ہماری سلامتی کی بنیاد معیشت پر ہے، کہیں اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط مان کر اپنی معیشت بچا لو۔ معیشت بچ گئی تو پھر ہمیں اپنی سلامتی کے بارے میں تشویش میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں۔ مری بات سمجھ آئی۔ حالات بہت نازک ہیں، اس لئے شاید تبدیلی کی ضرورت ہے۔ جب یہ باتیں شروع ہوئی تھیں تو ہم نے حفیظ شیخ کی قربانی دی تھی، اب ایسی کسی چھوٹی قربانی سے کام نہیں چلے گا۔