منظروں کو دھڑکن دینے والا نثر نگار
وہ ایک جناتی قدوقامت کے تخلیق کار ہیں۔ اردو ادب کا یہ عہد انہی کے نام سے منسوب ہے۔ جی ہاں یہ مستنصر حسین تارڑ کا عہد ہے! نثر نگار بھی بے شمار ہیں۔ ناول، افسانے، سفر نامے بہت کچھ لکھا جا رہا ہے مگر ان کی نثر میں جو جادو ہے، جو تصویر کشی ہے، جو گرفت ہے، وہ کم کم ہی کسی اور کو میسر ہے۔ وہ منظروں کو لکھتے نہیں بلکہ اس منظر کا حصہ بن کر اس میں دھڑکنے لگتے ہیں اور اسی طرح دھڑکتے ہوئے منظروں کو پڑھنے والا قاری اس کی دھڑکن اپنے احساس کے بدن میں محسوس کرتا ہے۔
وہ جو لکھتے ہیں، صفحات پر مجسم ہو جاتا ہے۔ وہ خواہ کے ٹو کہانی میں دنیا کی دوسری بڑی چوٹی کیٹو کا عظیم الشان وجود ہو یا پھر غار حرا کی تاریکی میں پتھروں کے شگاف سے جھانکتی چاندنی کے مدھم جزیرے ہوں، ماسکو کا ریڈ سکوائر ہو یا پھر کسی ویران راستے پر اگی جھاڑی کے ڈنٹھل پر کھلا کوئی تنہا زرد پھول۔ وہ سب کچھ مجسم کر دیتے ہیں۔ فیری میڈو اور جھیل کرومبر کے کنارے اترتی سویر ہو یا پھر غار حرا کی مقدس کنکریاں۔ سب کچھ ان کی تحریر میں مجسم ہو کر ایک شخصیت میں ڈھل جاتا ہے!
Personification یا مجسم نگاری کا جادو ان کی نثر میں سرچڑھ کر بولتا ہے۔ دریا، سمندر، جنگل، صحرا، غار، چاندلی، پرندے، درخت، جھاڑیاں، برف زار، سبزہ زار، الغرض کہ کائنات میں فطرت کے سارے مظاہر۔ تارڑ صاحب کی تحریروں میں ایک مکمل شخصیت میں ڈھل جاتے اور قاری سے ہم کلام ہوتے ہیں۔ بطور قاری میں نے جب بھی انہیں پڑھا، یہی محسوس کیا وہ کسی جھیل کا ذکر یوں کرتے ہیں جیسے میں خوداس جھیل کے پانیوں میں اترتا محسوس کرتی ہوں۔ بہائو پڑھتے ہوئے کون ہے جو دریا کے پانیوں میں نہ بہتا چلا جائے۔ وہ جنگلوں کا ذکر کریں تو میں پڑھتے ہوئے اس جنگل کی گھناوٹ میں راستہ بھول جاتی ہوں۔
کسی خاموش جزیرے کا بیان ہو تو سناٹا صفحات سے نکل میرے اطراف پھیل جاتا ہے۔ میں بظاہر شور بھرے منظر میں بیٹھی ہوئی۔ سب سے الگ ہو کر اس سناٹے کی گھمبیرتا میں کھو جاتی ہوں۔ برف زاروں کے بیان میں یخ بستگی رگ و پے میں اتر جاتی ہے۔"غار حرا میں ایک رات" تارڑ صاحب کے قلم کا شاہکار ہے۔ نہ میں کوئی ادبی نقاد ہوں نہ ادبی دانشور، بس کم علم سی صحافی۔ ادب کی طالب علم ضرور ہوں مگر میں سمجھتی ہوں کہ غار حرا میں ایک رات کو آنے والے دور میں اردو ادب کا بے مثل شاہکار سمجھا جائے گا، ابھی اسے دریافت کرنا باقی ہے۔
صرف ایک رات کے بیان کو تین سو صفحات تک بیان کرنا۔ ایک ادبی معجزہ ہے، غار حرا کے ذروں، کنکروں، پتھروں کی بناوٹ۔ ابھار اور اس کے پتھروں پر پڑتی چاندنی کی کرنیں جو رات کی سیاہی میں چاندنی کے مدھم جزیرے بناتی ہیں اور پھر تارڑ صاحب کے اندر روحانی کیفیات کا مدو جزر ایک عجیب جہاں تخلیق کرتا ہے۔ چند روز پہلے میں بھی اس جہان کا ایک حصہ تھی۔ جب میں روز رات کی خاموشی میں اپنے سیل فون کو آف کر کے صرف غار حرا میں ایک رات پڑھا کرتی اور بلا مبالغہ جب میں کتاب بند کرتی تو میری آنکھیں پانیوں سے بھری ہوتیں ایک عجیب کیفیت میرے احساس کے بدن میں تتلی بن کر دیر تک پھڑ پھڑاتی رہتی اور پھر ایسا لگتا کہ نیند میں بھی میں اسی کتاب کو پڑھتی رہی ہوں۔ صبح جاگنے پر اس کی گرفت سے آزاد نہ ہوتی!کسی کتاب نے مجھے اس طرح اپنی گرفت میں نہیں کیا۔
کچھ سوال میرے ذہن میں آتے تو تارڑ صاحب کو فون کر لیتی اور بالکل ایک بچے کی سی حیرانی اور بے ساختگی کے ساتھ کئی سوال پوچھتی۔ ایک سوال کے جواب میں تارڑ صاحب نے کہا کہ میں نے یوں تو ایک رات غار حرا میں گزاری لیکن پھر آٹھ ماہ لگے اس روحانی تجربے کو بیان کرنے میں، تو مجھے لگتا ہے میں نے ایک نہیں کئی راتیں غار حرا میں گزاریں۔ ایک کالم میں اتنی گنجائش نہیں کہ کتاب کے حوالے سے اتنی تفصیل میں جایا جائے۔ میں اس پر کبھی پھر کسی ادبی میگزین کے لئے ضرور لکھوں گی۔
مستنصر حسین تارڑ کے ساتھ بطور قاری میری وابستگی نکلے تری تلاش میں۔ پیار کا پہلا شہر سے شروع ہوئی۔ پھر راکھ، بہائو، قربت مرگ میں محبت، خس و خاشاک زمانے، جیسے شاہکار ناول بھی پڑھے۔ بطور تخلیق کار وہ مسلسل ارتقائی سفر طے کر رہے ہیں پھر منہ ول کعبے شریف اور غار حرا میں ایک رات۔ پڑھ کر ہم ایک نئے بدلے ہوئے روحانی طور پر ایک مسافت طے کرتے تارڑ سے ملاقات کرتے ہیں۔
بطور تخلیق کار ان کا سفر جاری ہے اپنے قاری سے ان کا قابل رشک تعلق ہے۔ کبھی تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ وہ لکھتے نہیں بلکہ اپنے ہزاروں چاہنے والوں سے گفتگو کرتے ہیں منظروں کی جس حیرت اور کیفیت میں خود مبتلا ہوتے ہیں اپنے قاری کو بھی اس میں شریک کر لیتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں کی پوروں میں مائی بھاگی کا سا ہنر ہے جسے میں نے خان پور کی ایک نواحی بستی میں دیکھا جو پرانی کترنوں سے خوش رنگ رلیاں بناتی تھی۔
تارڑ صاحب بھی کبھی کے پرانے استعمال شدہ گھسے پٹے لفظوں کی کترنوں کو اپنے ہنر سے اس طور جوڑتے ہیں کہ نثر کی خوش رنگ رلیاں تخلیق کرتے جاتے ہیں۔ ہمارا یہ محبوب نثر نگار یکم مارچ 2020ء کو اپنی اکیاسویں سالگرہ منا رہا ہے۔ ہماری دعا ہے تارڑ صاحب تادیر صحت، سلامتی اور آسودگی کے ساتھ ہمارے درمیان رہیں اور نثر کی اپنے جادوئی ہنر سے خوش رنگ رلیاں تخلیق کرتے رہیں۔