Qaumi Zaban Ke Sath Soteli Maa Jaisa Sulooq
قومی زبان کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک

اردو ہماری قومی زبان ہے، جو باقاعدہ آئین پاکستان کی شق نمبر 251 میں صراحت کے ساتھ قلمبند کیا گیا ہے مگر عملا اسے ہم نہ صرف بھول چکے ہیں بلکہ اسے کم علمی، ان پڑھ اور معیوب سمجھتے ہیں زبان کسی بھی ملک وملت کی اصل پہچان ہوتی ہے، اسے زندگی کے ہر لمحے پر اپنایا جاتا ہے اپنے ملک میں ہو یاغیرکے دیار میں فخر سے استعمال کیا جاتا ہے جوتقریبا کم وبیش سبہی ممالک کرتے ہیں اپنے ملک کے علاوہ جہاں بھی ان کے حکمران جاتے ہیں چاہے وہ سرکاری میٹنگزہوں یانجی ملاقاتیں وہ سینہ تھان کراپنی زبان میں گفتگو کرتے ہیں اور ترجمان ساتھ رکھا ہوتا ہے جو اسے دوسرے ممالک کے ذمہ داران کو ان کی زبان میں شئیر کرتے ہیں بدقسمتی صرف ہماری ہے کہ ہم اردو کو وہ مقام تو کیا جو اس کا سرکاری حق ہے نہ صرف اس سے جان خلاصی کرتے ہیں بلکہ اسے شرمندگی اور عار محسوس کرتے ہیں تمام اداروں پارلیمنٹ، عدلیہ بیوروکریسی تعلیمی ہیلتھ اور دیگرنجی اداروں میں بھی اردو نایاب شے بن گئی ہے
افسوس کاعالم یہ ہےکہ ملک کے بڑے بڑے دانشور زعماء بیوروکریٹ ججز ٹیچرز اپنی قومی زبان میں درخواست تک نہیں لکھ سکتے ہیں باقی عام عوام سے کیا گلہ کیا جا سکتا ہے اپنی قومی زبان کو اپنے ہی سرکاری وغیرسرکاری اداروں میں ایک سنگین مذاق سمجھا جانے لگا ہے ہم انگریز کی زبان کے اس قدر دلدادہ ہیں کہ غلاموں کی طرح انگرہزی زبان کی زنجیروں میں ایسے جھکڑے ہوئے ہیں کہ اس سے خود نکلنا نہیں چاہتے قومی زبان کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کرنے کی وجہ سے آج ہم ایک ایسی الم ناک صورتحال سے دوچار ہو چکے ہیں جس کے اثرات ہماری آنے والی نسلوں پر گہرے اور خطرناک انداز میں مرتب ہو رہے ہیں۔ ہمارے بچے جو کہ اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، نہ وہ اپنی زبان سے واقف ہیں، نہ اپنی تہذیب سے، نہ اپنی ثقافت سے۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ انہیں بچپن ہی سے یہ بات ذھن نشین کرا دی گئی ہے کہ کامیابی، معیار اور ترقی کا واحد پیمانہ صرف اور صرف انگریزی زبان ہے۔
تعلیمی اداروں میں اردو کو محض ایک غیر اہم مضمون بنا کر پیش کیا جاتا ہے، جبکہ ذریعۂ تعلیم انگریزی کو بنا دیا گیا ہے۔ نتیجتاً بچے نہ ڈھنگ کی انگریزی سیکھ پاتے ہیں اور نہ اپنی مادری زبان پر عبور حاصل کر پاتے ہیں۔ زبان کے ساتھ ساتھ وہ اپنی تہذیبی شناخت، معاشرتی اقدار اور فکری ورثے سے بھی کٹتے چلے جاتے ہیں۔ یہ وہ خاموش زوال ہے جو بظاہر دکھائی نہیں دیتا مگر اندر ہی اندر پورے معاشرے کو کھوکھلا کر رہا ہے۔
یہی صورتحال ہمیں اسپتالوں میں بھی نظر آتی ہے۔ ذرا کسی سرکاری یا نجی اسپتال کا رخ کیجیے تو مریض اور ان کے ساتھ تیمادار در بدر کی ٹھوکریں کھاتے ہیں ڈاکٹر صاحبان انگریزی میں پرچیوں پر پرچیاں لکھ کر دے دیتے ہیں، دوائیاں انگریزی میں لکھ دیتے ہیں، ٹیسٹ انگریزی میں لکھ دیتے ہیں، جو کسی بھی بیچارے عوام کو سمجھ نہیں آتی۔ نہ انہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ بیماری کیا ہے، نہ یہ سمجھ پاتے ہیں کہ دوا کس لیے دی جا رہی ہے اور نہ یہ کہ ٹیسٹ کیوں ضروری ہیں۔
افسوس اس بات کا ہے کہ نہ تو مریض سوال کرنے کی ہمت کر پاتا ہے اور نہ ہی ان حضرات کے پاس سمجھانے کی فرصت ہوتی ہے۔ یوں قومی زبان میں بات کرنے والا مریض خود اپنے ہی ملک میں بسترعلالت پراجنبی بن کر رہ جاتا ہے۔ زبان جو سہولت ہونی چاہیے تھی، وہ بوجھ بن جاتی ہے اور علم جو آسان ہونا چاہیے تھا، وہ خوف اور الجھن میں بدل جاتا ہے۔
یہ سب کچھ محض اتفاق نہیں بلکہ برسوں کی غفلت آئین کوپس پشت ڈالنے اور قومی زبان کے ساتھ روا رکھے گئے سوتیلے سلوک کا نتیجہ ہے۔ جب ریاست، ادارے اور نظام اپنی ہی زبان کو کمتر سمجھنے لگیں تو عوام کے ذہنوں میں بھی یہی تصور راسخ ہو جاتا ہے۔
اسی طرح جب عدلیہ میں کوئی ماں، بہن یا بیچارہ عام آدمی اپنی کسی پریشانی اور مجبوری کے باعث انصاف کی تلاش میں چلا جاتا ہے تو وہاں جا کر اس پر ایک نئی آزمائش مسلط ہو جاتی ہے۔ نہ تو اسے وکیل کی زبان سمجھ آتی ہے، نہ وکیل کی لکھی ہوئی تحریریں اس کے پلے پڑتی ہیں۔ فائلوں، درخواستوں اور دلائل میں ایسی زبان استعمال کی جاتی ہے جو عام آدمی کے لیے بالکل اجنبی ہوتی ہے۔ اسے سمجھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے
عدالت کے ماحول میں کھڑا وہ سادہوپریشان حال شہری نہ صرف خوفزدہ ہوتا ہے بلکہ مکمل طور پر بے بس نظر آتا ہے۔ ججز حضرات کی زبان بھی اس کے لیے اتنی ہی پیچیدہ ہوتی ہے، نہ ان کی گفتگو سمجھ میں آتی ہے اور نہ ان کے تحریری فیصلے۔ یوں جو شخص انصاف کی امید لے کر آیا ہوتا ہے، وہ مزید الجھنوں اور پریشانیوں میں گھرا ہوا واپس چلا جاتا ہے
انصاف کا نظام، جو عام آدمی کے لیے سہارا ہونا چاہیے تھا، اسی کے لیے خوف اور بے یقینی کی علامت بن جاتا ہے۔ زبان کی یہ دیوار اس کے اور انصاف کے درمیان حائل ہو جاتی ہے۔ یوں قومی زبان سے دوری نہ صرف تعلیمی اور طبی شعبے میں مسائل پیدا کر رہی ہے بلکہ عدلیہ جیسے حساس اور اہم ادارے میں بھی عام شہری کے لیے انصاف تک رسائی کو مشکل سے مشکل تر بنا رہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم قومی زبان کو محض نعروں تک محدود نہ رکھیں بلکہ اسے تعلیم، صحت، عدلیہ اور دفتری نظام میں حقیقی مقام دیں، ورنہ یہ فکری اور تہذیبی بحران آنے والے وقتوں میں مزید سنگین صورت اختیار کر لے گا آئین میں درج شق اس وقت تک بےکار رہتی ہے جب تک اسے عملانافذ نہیں کیا جاتا۔ افسوس یہ ہے کہ پاکستان میں اردو کو آئینی حیثیت تو ملی، مگر انتظامی، عدالتی اور تعلیمی سطح پر اسے دانستہ طور پر نظرانداز کیا گیا۔ یہ نظرانداز کرنا کسی لاعلمی کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک سوچا سمجھا رویہ ہے۔
آج ہمارے ہاں انگریزی زبان ایک طاقتور زبان بن چکی ہے۔ جو انگریزی جانتا ہے، وہ نہ صرف قابل بلکہ اہل سمجھا جاتا ہے اور جو اردو میں اپنا مافی الضمیر بیان کرتا ہے اسے غیر سنجیدہ، غیر معیاری اور کم فہم تصور کیا جاتا ہے۔ یہ رویہ صرف سماجی سطح تک محدود نہیں بلکہ ریاستی ایوانوں میں بھی سرایت کر چکا ہے۔ بھرتیوں سے لے کر ترقیوں تک، امتحانات سے لے کر انٹرویوز تک، ہر جگہ زبان کو اہلیت کے ساتھ نتھی کر دیا گیا ہے، حالانکہ زبان کا تعلق صلاحیت سے نہیں بلکہ ذریعۂ اظہار سے ہوتا ہے۔
سرکاری دفاتر میں بیٹھے افسران کی ایک بڑی تعداد خود بھی انگریزی میں سوچنے کی صلاحیت نہیں رکھتی، مگر وہ اسی زبان میں فائلیں لکھنے اور فیصلے کرنے پر مجبور ہے، کیونکہ یہی روایت بن چکی ہے۔ اس روایت نے ایک ایسا نظام پیدا کر دیا ہے جہاں اصل توجہ مسئلے کے حل پر نہیں بلکہ زبان کی درستگی پر ہوتی ہے۔ یوں قابلیت و سمجھ پیچھے رہ جاتا ہے اور انگریز کی زبان آگے چلی جاتی ہے۔
یہی صورتحال پارلیمنٹ میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ عوام جن نمائندوں کو منتخب کرکے بھیجتے ہیں، وہ ایوان میں بیٹھ کر ایسے قوانین پر بحث کرتے ہیں جن کی زبان عوام تو درکنار، خود نمائندوں کے لیے بھی پوری طرح قابلِ فہم نہیں ہوتی۔ یہ ایک عجیب تضاد ہے کہ عوام کی تقدیر کے فیصلے ایسی زبان میں کئے جاتے ہیں جو عوام کی اکثریت کے لئے اجنبی ہے۔ اس تضاد نے جمہوریت کو ایک نمائشی عمل بنا دیا ہے۔
قوموں کی تاریخ میں کچھ فیصلے محض انتظامی نہیں ہوتے بلکہ تہذیبی ہوتے ہیں۔ زبان کا فیصلہ بھی ایسا ہی ایک تہذیبی فیصلہ ہوتا ہے۔ یہ فیصلہ طے کرتا ہے کہ قوم اپنی شناخت پر فخر کرے گی یا اسے بوجھ سمجھے گی۔ بدقسمتی سے ہم نے اب تک اردو کو بوجھ سمجھنے کا رویہ ترک نہیں کیا۔
جب تک اردو کو محض جذباتی علامت کے بجائے عملی حقیقت نہیں بنایا جاتا، جب تک اسے عدالت، پارلیمنٹ، دفاتر اور تعلیمی اداروں میں حقیقی اختیار نہیں ملتا، تب تک یہ بحث چلتی رہے گی اور جب تک یہ بحث چلتی رہے گی، اردو ہمارے ہی گھر میں مہمان بنی رہے گی۔
سوال یہ نہیں کہ اردو کب نافذالعمل ہوگی، سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی چاہتے ہیں کہ اردو نافذ ہو؟ کیونکہ جس دن اردو نافذ ہوگئی، اس دن ریاست کو عوام کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا اور شاید یہی وہ سچ ہے جس سے سب سے زیادہ خوف آتا ہوگا۔

