Moscow Se Makka (9)
ماسکو سے مکہ (9)

سر مونڈے جانے کے بعد مسجد الحرام میں پہنچنے کی خاطر ایک لمبا راستہ طے کرنا پڑا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ سعی کا آغاز "صفا" سے ہوتا ہے اور اختتام "مروہ" پر جبکہ مسجد الحرام میں داخل ہونے کا نزدیک ترین راستہ "صفا" کے قریب ہے۔ تلوے میں درد ہو رہا تھا لیکن عمرہ مکمل کر لینے کی مسرّت میں اس درد کا احساس کم تھا۔ راستے میں میں نے اپنے ہمرہی کا نام پوچھا تھا جو سنجیدہ اور کم گو نوجوان شخص تھا۔ اس نے اپنا نام جلیل بتایا تھا۔ جب مسجد الحرام میں داخل ہو گئے اور "کعبہ" کچھ دوری پہ دکھائی دینے لگا تو جلیل نے کہا تھا، " کیا تم نے دیکھا کہ پرندے کعبے کے گرد چکر کاٹ رہے تھے؟" میں نے نفی میں جواب دیتے ہوئے استفسار کیا تھا، " کتنے پرندے تھے؟" بولا، چار تھے اور پھر اس امید پر کہ شاید پرندے "طواف" کر رہے ہوں، مجھے تھوڑا سے آگے لے جا کر دکھایا تھا۔ کعبے کے گرد چکر کاٹتے ہوئے لوگ تو موجود تھے لیکن کعبے کے گرد کوئی پرندہ گرداں نہیں تھا۔
جلیل بولا تھا کہ ظہر کی نماز پڑھنے کے بعد ہوٹل کے لیے نکلیں گے، شاید کوئی اور ساتھی بھی مل جائے۔ ہم مسجد الحرام کی چھت پہ چڑھ گئے تھے کیونکہ نیچے کوئی جگہ خالی نہیں بچی تھی۔ اوپر سے کعبے اور مطاف میں متحرک لوگوں کو دیکھتے رہے لیکن دھوپ بہت تیز تھی۔ دھوپ کا چشمہ طواف کے دوران کھو گیا تھا۔ آنکھیں چندھیا رہی تھیں۔ میں نے جلیل سے کہا تھا کہ میں سائے میں کھڑا ہو کر انتظار کرتا ہوں۔ سامنے ہی خودکار زینے کے سامنے چھجّے تلے دو کرسیاں پڑی ہوئی تھیں اور کچھ لوگ جانماز بچھائے عبادت کر رہے تھے یا بیٹھے تھے۔ میں ایک کرسی پہ جا بیٹھا تھا اور جس پیکٹ میں چپل اور پانی کی بوتل تھی وہ سائیڈ پہ رکھ دیا تھا۔ میرے نزدیک ہی عام لباس میں ملبوس ایک لمبے تڑنگے صاحب آ کر کھڑے ہوگئے تھے جن کے ہاتھ میں پکڑے دستی بیگ پہ "دارلسلام ٹورز" لکھا ہوا تھا۔ جب ہم مدینہ سے مکہ آتے ہوئے گھوٹکی سے ملتے جلتے مقام پہ رکے تھے تو وہاں نئی اور ہماری بسوں سے بدرجہا بہتر دو بسیں آ کر رکی تھیں، جن پر اس کمپنی کے نام کے ساتھ امریکہ و کینیڈا لکھا ہوا تھا۔ میں نے ان سے پوچھا تھا کہ وہ امریکہ سے ہیں کیا؟ وہ واقعی امریکہ کے شہر ہوسٹن سے آئے تھے اور خاصے مہذب اور تعلیم یافتہ شخص تھے۔ چونکہ وہ ان کا تعلق پاکستان سے ہی تھا، اس لیے ہم انگریزی چھوڑ کر اردو میں ہم کلام ہو گئے تھے۔ اتنے میں محافظ پولیس والوں نے "یاحجّی" کی صدا لگا کر لوگوں کو وہاں سے ہٹانا شروع کردیا تھا۔ لوگ اپنے جانمازوں سمیت تھوڑا سا ادھر کو سرک گئے تھے۔ میں نے ان صاحب سے کہا تھا کہ چلیے سامنے دیوار کے سائے میں بیٹھ جاتے ہیں۔ ہم دونوں کرسیاں لے کر وہاں جا بیٹھے تھے۔
مسجد الحرام کے باہر کھلے احاطے کے پار مکہّ کی سب سے اونچی عمارت تعمیر کی گئی ہے جس کا بلندی والا سرا برطانیہ کے "بگ بین" کے ٹاور کا سا ہے اور اس میں شاید اتنا ہی بڑا کلاک ہے۔ میں آنے سے پیشتر ایک برطانوی اخبار میں اس عمارت کے بارے میں لوگوں کے اعتراضات اور حکام کی بے اعتنائی سے متعلق ایک مضمون پڑھ چکا تھا۔ اس عمارت کی بلندی سے "کعبہ" ایک بہت ہی چھوٹی تعمیر دکھائی دیتا ہے۔ طواف کرتے ہوئے بھی یہ عمارت آپ کے سروں پہ سایہ کیے کھڑی ہوتی ہے۔ طواف کے دوران اس کے اوپر والے حصے پہ میری نگاہ پڑی تو وہاں بڑے بڑے حروف میں لکھا تھا، "وقنا عذاب النار"۔ یقین جانیے مجھے ہنسی آ گئی کہ یہ دعا کن کے لیے ہے۔ ان میاں بیوی کے لیے جو اس میں موجود کمروں میں کعبے سے کہیں بلند ہو کر "وظیفہ زوجیت" سرانجام دیں گے یا "وقف ملک عبدالعزیز" یعنی بادشاہ کے لیے جس کی کہ یہ جائیداد ہے اور جس میں قیام کرکے حج کرنے کی قیمت ساڑھے تیرہ ہزار سے سولہ ہزار ڈالر تک ہے۔ ان لوگوں کو مسجد میں آنے کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ یہ ہوٹل حرم کی حدود میں آتا ہے چنانچہ انہیں اپنے کمرے میں ہی ایک لاکھ نمازیں پڑھنے کا ثواب مل جائے گا۔
امریکہ کے شہری پاکستان نژاد سے وفاق روس کے شہری پاکستان نژاد یعنی میری گفتگو کا پہلا حصہ اس ہوٹل اور بادشاہ کی بے اعتنائی اور ہوس زر سے متعلق تھا۔ حج کے لیے ہر سال پینتیس سے چالیس لاکھ لوگ آتے ہیں، جن کے طفیل سعودی عرب کو ایک کھرب بیس ارب ڈالر سالانہ کی آمدنی ہوتی ہے۔ اس سال اس تعداد میں بیس فیصد کمی کی گئی تھی کیونکہ حرم کی توسیع کا تعمیراتی کام ہو رہا ہے۔ حکومت سعودی عرب حجاج کی تعداد کو چار سال میں ایک کروڑ تک لے جانا چاہتی ہے یوں آمدنی ڈھائی گنا زیادہ ہو جائے گی۔ علاوہ اس ہوٹل کے، جس پہ، وقنا عذاب النار، لکھا ہوا ہے، حرم کے نواح میں کئی اور مزید پنج ستارہ ہوٹل بھی تعمیر کیے جانے کا منصوبہ ہے۔ اگر آپ کعبے سے اس ہوٹل کی عمارت کو دیکھیں تو آپ کو میری، ان صاحب اور دیگر لوگوں کی رنجش کا درست طور پہ اندازہ ہو جائے گا۔ اس کے برعکس اٹلی کے دارالحکومت روم کے بطن میں جا کر چھوٹے سے "عیسائی ملک" ویٹیکن کو دیکھیے۔ اس کے گرد ویٹیکن کی عمارتوں اور بالخصوص بڑے گرجے سے اونچی عمارت تعمیر کیے جانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
ہماری گفتگو کا دوسرا حصہ چالباز پاکستانی بھک منگے تھے۔ ان صاحب نے بتایا کہ وہ مسجد نبوی میں نماز پڑھ رہے تھے کہ ساتھ بیٹھے ہوئے ایک شخص نے کہا کہ میں پاکستان سے یہاں بطور ڈرائیور آیا تھا، میری نوکری ختم ہوگئی ہے، راہ خدا کچھ اعانت کیجیے۔ ان صاحب کے بقول انہوں نے اس کی مدد کر دی تھی۔ پھر انہوں نے بتایا کہ کل سے اب تک مجھے حرم میں تین اور آدمی مل چکے ہیں جنہوں نے بعینہ یہی کہانی سنا کر مالی مدد کرنے کی درخواست کی۔ کہنے لگے، لگتا ہے کہ یہ ڈرائیور والی سٹوری بڑی "ان" ہے یہاں۔ پھر انہوں نے بتایا کہ حرم کے گرد جتنی کرینیں کھڑی ہیں، ان سب پہ لکھا ہے کہ آپریٹرز اور ڈرائیور کی ضرورت ہے۔ کہانی سنائے بغیر براہ راست بھیک مانگنے میں بھی وہاں پاکستانی پیش پیش ہیں جن کا ذکر آگے آئے گا۔
جلیل ہمارے پاس آ گیا تھا اور اس نے مولانا رشیت کا نمبر مانگا تھا۔ فون کرنے پر اسے مولانا رشیت نے بتایا تھاکہ وہ بھی حرم میں ہی ہیں لیکن انہیں ملنے کی بجائے سب اپنے طور پر ہوٹل پہنچ جائیں۔ چونکہ جلیل کے ہاتھ میں پانی کی بوتل تھی چنانچہ مجھے اس پلاسٹک بیگ کا خیال آیا تھا جس میں میرے چپل اور بوتل تھے۔ جا کرکے ڈھونڈا لیکن نہ مل سکا۔ اس اثناء میں نماز کا وقت ہوگیا تھا۔ ہم نے چھت کی دیوار کے ساتھ دھوپ میں جا کر نماز پڑھی تھی۔ وہ صاحب تو ہم سے پہلے ہی نماز پڑھ کر جا چکے تھے البتہ دوبارہ ڈھونڈنے سے مجھے اپنے چپل مل گئے تھے۔
میں اور جلیل واپس آنے کے لیے ٹیکسی میں سوار ہوئے تھے۔ چونکہ جلیل نے ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھی تھی اس لیے میں نے معذرت کرکے اس سے ذاتی سوال پوچھا تھا کہ کیا تم شیعہ ہو؟ تو اس نے اثبات میں جواب دیا تھا۔ وہ نسلا" آذربائیجانی تھا لیکن ماسکو میں رہتا تھا۔ پورے قیام کے دوران جلیل کسی فروعی بحث میں نہیں پڑا تھا۔ بہت مناسب شخص تھا۔
کمرے میں جا کر احرام اتار کر تہہ کرکے رکھ دیا تھا۔ نہا کر شلوار قمیص پہنی تھی۔ کھانے کے لیے نکل پڑا تھا۔ اتفاق سے سڑک پر پہنچتے ہی دو پاکستانی مرد اور ایک عورت جاتے ہوئے مل گئے تھے۔ ان سے پاکستانی کھانے سے متعلق پوچھا تھا، تو انہوں نے بتایا تھا کہ جس سمت میں ہم جا رہے ہیں، اس سمت میں ہی آگے جا کر پاکستانی حجاج کے لیے ہوٹل آئے گا، اس کے مطعم میں ہی پاکستانی کھانا مل سکے گا اگر مخالف سمت میں جائیں گے تو چاول وغیرہ ہی مل سکیں گے۔ ان میں سے میاں بیوی حج کے لیے ائے ہوئے تھے اور تیسرے صاحب الیکٹریشن تھے جو سعودی عرب میں ہی مقیم تھے۔ ہمارے ہوٹل سے تھوڑا آگے جا کر سڑک کے ساتھ ساتھ ایک پہاڑی شروع ہوگئی تھی، جس کے ساتھ فٹ پاتھ خاصی گندی تھی۔ یہ اصحاب مجھے ہوٹل دکھا کر آگے نکل گئے تھے۔ ایک منزل پہ پہنچا تھا جہاں کھانے کا ایک خاصا مناسب ہال تھا، جس میں میز کرسیاں لگی ہوئی تھیں۔ ایک کاؤنٹر کے پیچے لوگ ہجوم کی شکل میں کھڑے ایک نوجوان کو لکھواتے جاتے تھے اور وہ پرچی دے دیتا تھا۔ سامنے دیوار کے آگے اور کاونٹر کے پیچھے ایک عینک والے صاحب پرچی وصول کرتے تھے، ایک دوسرا شخص ڈسپوزیبل برتن میں سالن ڈال کر دیتا تھا پھر عینک والے صاحب سالن پر ڈھکن لگا کر اور ساتھ میں دو تندوری روٹیاں، پرچی لانے والے کے حوالے کر دیتے تھے۔ میں نے بھی کوفتہ انڈا کی پرچی لی تھی۔ تھوڑی دیر تو لائن میں کھڑا رہا تھا لیکن میرا نمبر بہت پیچھے تھا۔ اس لیے سامنے دوسری دیوار کے ساتھ ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا تھا۔
داڑھی والا ایک اور نوجوان پہلے ہی وہاں بیٹھا ہوا تھا۔ علیک سلیک کیا، تو پتہ چلا کہ وہ سیالکوٹ سے تھا اور خیر سے حجر اسود کو دو بار چوم چکا ہے۔ اس کا موقف یہ تھا کہ جب تک اللہ سے گڑگڑا کر دعا نہ کی جائے تب تک حجر اسود کو چومنے کی سعادت حاصل نہیں ہوتی۔ میرا کہنا یہ تھا کہ بھائی اللہ کو علم ہے کہ ہم یہاں کس مقصد کے لیے آئے ہیں اور یہ بھی اسی کی جانب سے ہے کہ حجر اسود کو چومنا عبادت اور سعادت ہے تو پھر گڑگڑا کر دعا مانگنے کی بجائے اس ہجوم میں قوی و جری ہونا ضروری ہے کیونکہ حجر اسود کو چومنے کی عبادت کی بجائے وہاں تو اس سلسلے میں عالم حرب ہوتا ہے۔ بہر حال اس کا عقیدہ تھا، اس نے دعا مانگی تھی اور قبول ہوگئی تھی۔ اسی طرح ماسکو لوٹنے سے دو روز پیشتر، باب الاجیاد، کے سامنے نماز پڑھنے کے لیے بیٹھے تو میرے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک پاکستانی معمر شخص کا قمیص ایک جانب سے بالکل ہی چرا ہوا تھا۔ پوچھا حضور کیا ہوا؟ بڑے فخرو انبساط سے جواب دیا " حجر اسود کو بوسہ جو دیا ہے"۔ چاچاجی گوجرانوالہ سے تھے، دونوں گھٹنوں کو پٹیوں سے کسا ہوا تھا کہ درد کرتے تھے۔ قعود میں صحیح طرح سے بیٹھ نہیں سکتے تھے لیکن "پہلوانوں کے شہر" میں رہنے والا "سیاہ پتھر" چومے بغیر واپس بھلا کیسے جائے۔ حج کے بعد لاف زنی بھی نہیں کر سکتا تھا جیسے وہاں کے لوگ اکثر کرتے ہیں چنانچہ طے کر لیا کہ "بوسہ" دے کے ہی چھوڑیں گے سو بوسہ دے لیا۔

