ہم جو وارے گئے ہم ستارہ نشیں
دسمبر کتنے ہی حوالوں سے نمایاں ہے۔ سقوط تو شاید ماہ دسمبر کا ٹیگ ہے۔ 2014 کا دسمبر تو سقوط دل کی لٹی پٹی راہداریوں میں سکوت ہی سکوت ہے۔ یہ دسمبر اے پی ایس پشاور کے شہداء کا خونچکاں خراج ہے۔ جس کے بعد دل اور دامن دونوں خالی ہیں۔ وہ تاریخ جس کی صبح کبھی طلوع نہیں ہوگی۔ کون جانے یہ دن ہی تھا یا پھر آسیبی رات۔ تاریکی مستقل ہے اور لہو رنگ دھبے لیے ہے۔ جو مٹائے نہ مٹ سکیں اور صدمہ ایسا جو بھلائے نہ بھلایا جا سکے۔ روشنی کے معصوم چراغ خون کی ہولی سے بجھ گئے اور ہمارے دل سلگتے چھوڑ دیےگئے۔
ایسا دن، جب علم کے متلاشی معصوم بچے اپنی آنکھوں میں خواب سجائے کاغذ پہ اتارنے کے خواہاں تیز سہج سہج قدم اٹھائے مکتب کی دیواروں کی مضبوطی پہ اعتماد رکھے ایک دوسرے کے ساتھ تھے۔ یہ چراغ ایک ساتھ بجھ گئے۔ وہ خواب اور امیدیں جو تار تار ہوگئیں۔ یہ قتلِ عام محض ایک اسکول پر حملہ نہیں تھا، بلکہ قوم کے روشن مستقبل پر وار تھا۔ کون جان سکے گا کہ وہ خواب کیسے تھے، کتنے روشن تھے، کتنے بلند آہنگ، کیسی پرواز لیے تھے اور وہ امیدیں کس رنگ کی تھیں؟
قوس قزح سے سجی تھیں یا بادل کی طرح تیرتی ہوئیں! سفاک دہشت گردوں کے ہتھیاروں کی گھن گرج میں دب گئیں۔ آرمی پبلک اسکول، پشاور میں ہونے والے اس سانحے نے نہ صرف پوری قوم کو رُلا دیا بلکہ ہر دل میں ایک ایسا زخم چھوڑ دیا جس کی ہریالی شاخیں تک ہری رکھے گی۔ دس سال سے اس زخم کی اسیر قوم ہر آہٹ سے خوف زدہ ہے۔
ابھی تلک ان معصوم شہداء کی یاد مدھم نہیں ہوئی۔ وہ معصوم سپاہی جن کے خواب دشمنوں کے سامنے خون سے لبالب سر زمین وطن پر وارے گئے۔ معصوم پھولوں کا قتلِ عام محض ایک اسکول پر حملہ نہیں تھا، بلکہ یہ ایک قوم کے روشن مستقبل پر وار تھا۔
غم و اندوہ کی لہر ہے جو بہے جا رہی ہے۔ کبھی تند و تیز اور کبھی تہہ میں خونی بھنور سمیٹے خلا بنتی جا رہی ہے۔ اس دن کا تصور کرتے ہی دل غمگین ہو جاتا ہے۔ دہشت گردی کی یہ واردات بھیانک جرم سے انسانیت کی شکست کی تصویر ہے۔ ہر گھر ماتم کدہ بنا، ہر ماں کی گود خالی ہوئی اور پوری قوم کا سر جھک گیا۔ معصوم ستارے سیارگاہ کے سفر پر نکل گئے اور اپنے خون سے ایک ایسا باب لکھ گئے جو ہماری تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ اس اندوہناک واقعہ کے بعد قوم نے یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان معصوم شہداء کی قربانی پر دہشت گردی کے خلاف ایک مضبوط دیوار بن کر کھڑی ہوگئی۔
حکومت نے نیشنل ایکشن پلان کے ذریعے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو توڑنے کی کوشش کی اور آرمی نے ان مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے لیے آپریشنز کو تیز کیا اور سوشل میڈیا کے گھناؤنے کھیل اور الزامات کے باوجود یہ آپریشن جاری ہے۔ لہو کا یہ بجھے دل اور روشن چراغ عزمِ و استقلال کا سپاس نامہ ہے۔ یہ دن ہماری تاریخ کا ایک ایسا باب ہے جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو دہشت گردی اور انتہا پسندی سے محفوظ رکھنا ہے۔
یہ وقت ہے کہ ہم ان معصوم بچوں کے خون کو رائیگاں نہ جانے دیں اور اپنے تعلیمی اداروں کو محفوظ بنانے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائیں۔ تعلیمی نظام کو مضبوط کریں اور دہشت گردوں کو ان کے نظریات سمیت شکست دیں اور زمیں برد کر دیں۔ یہ دن ہمیں ان شہداء کے لواحقین کی قربانیوں کا بھی احساس ہے۔ ان والدین کے لیے یہ غم ناقابلِ بیان اور ناقابل فراموش ہے۔ لیکن ان کی استقامت اور صبر پوری قوم کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
ہائے معصوم چہرے خون میں کیسے نہلائے گئے۔ ان کے پھول سے خواب خاک میں ملانے کے لیے تو نہیں تھے۔ ہمارے پاس تو ان کی کتابیں، بستے اور قلم تک لہو رنگ ہیں، یہ روشنی کے نشان اور علم کے روشن چراغ تھے جو ظلمتوں میں بجھ گئے۔
وہ زندگی، جو ان کے لب پہ ہنستی تھی قیامت خیز تھی جو قیامت بن گئی۔ کربلا کا سماں و ماتم جاری ہے اور رہے گا۔ خراج احساس و دل:
سر زمین وطن ہے یہ دل کی زمیں
یہ ہے جنت سماں یہ ہے خلد بریں
زرد چہرے امیدیں سنبھالے ہوئے
اپنے صدمات کو بھی اجالے ہوئے
یہ دعائیں ہیں آفات ٹالے ہوئے
بارشوں میں یہ فصلیں بچاتے ہوئے
تپتے سورج میں پانی پلاتے ہوئے
حادثوں پہ رکیں اپنی جاں وار دیں
اور مائیں بھی بیٹے رضاکار دیں
جو بچا کر گئے حرمت وطن و دیں
سر زمین وطن ہے یہ دل کی زمیں
اپنے خوابوں کو وردی میں ڈھالے ہوئے
اپنے پرچم کی حرمت بڑھاتے ہوئے
گیت گاتے ہوئے گل کھلاتے ہوئے
اس زمیں پر لہو جو بہایا گیا
ان شہیدوں کا سر سے نہ سایا گیا
ان کا زخمی بدن ان کی روشن جبیں
سر زمین وطن ہے یہ دل کی زمیں
خوش نما خواب خود اپنی تعبیر ہیں
اک سفر پر سجی اپنی تعمیر ہے
رقص ہوتا رہے گا روایات کا
چاک دامن نہ ہوگا کرامات کا
فلسفہ کون سمجھے ہر اک گھات کا
ذرے ذرے کی صورت لگے دل نشیں
سر زمین وطن ہے یہ دل کی زمیں
آؤ نکلیں سبھی اپنے جذبات سے
روشنی ڈھال کر ٹوٹتی رات سے
دل سمجھ کر رہے گا یہ جادوگری
یہ صدائیں ہیں یا پھر ہے نوحہ گری
عزم فولاد ہے درد شمشیر ہے
ہم جو وارے گئے ہم ستارہ نشیں
سر زمین وطن ہے یہ دل کی زمیں
(سعدیہ بشیر)