Saturday, 22 February 2025
  1.  Home
  2. Saadia Bashir
  3. Higher Education Commission Ki Be Niaziyan

Higher Education Commission Ki Be Niaziyan

ہائر ایجوکیشن کمیشن کی بے نیازیاں

نئی بننے والی یونیورسٹیز، پرانی یونیورسٹیز اور صرف یونیورسٹی کا ٹیگ لگا کر کام کرنے والی کالج نما تمام تر یونیورسٹیز ہائر ایجوکیشن کمیشن کی زیر نگرانی ہیں۔ نصاب اور دیگر معاملات کی بحث الگ رکھتے ہوئے بات صرف رزلٹ کارڈرز اور جاری کردہ ڈگری پر کی جائے تو بہت سی یونیورسٹیز جو رزلٹ کارڈرز جاری کرتی ہیں۔ ذرا ان پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

رزلٹ کارڈ پر اہم اندراجات مبہم ہیں۔ کئی جگہ طالب علم کا نام تلاشنا مسئلہ بن جاتا ہے۔ طالب علم کا نام مل جائے تو سمسٹرز کی تعداد گن کر اندازہ لگایا جاتا ہے کہ یہ چار سالہ ڈگری پروگرام ہے۔ رزلٹ کارڈ پر سیشن کے متعلق تفصیل ندادر ہے۔ کچھ یونیورسٹیز کے جاری کردہ رزلٹ کارڈرز پر جی۔ پی۔ اے۔ کے ساتھ پرسنٹیج بھی لکھی ہے۔ بہت سے جاری کردہ رزلٹ کارڈز پر پرسنٹیج تو ایک طرف۔ رزلٹ کو اتنا گنجلگ بنا دیا گیا ہے کہ مجوزہ معلومات کے لیے نظر اور دماغ کی صلاحیتوں کا ڈول ڈالنا پڑتا ہے۔ کہیں تو رزلٹ کی تاریخ تک واضح نہیں۔

2014 کا رزلٹ کارڈر اگر 2016 میں ایشو ہوا ہے تو رزلٹ جاری ہونے کی تاریخ تو دی جائے۔ کچھ ایسی ہی صورت حال ڈگری کے ضمن میں ہے۔ جہاں سی۔ جی۔ پی۔ اے تو لکھا ہے لیکن درجہ اول، دوم یا سوم کے لیے جگہ ہی نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ڈگری پر بھی ان چار سالوں کا وجود یا ذکر تک نہیں جن میں طالب علم نے ڈگری مکمل کی۔ ایک یونیورسٹی کے رزلٹ کارڈز میں ریمارکس کی جگہ فیل لکھا ہوا ہے جب کہ اسی صفحہ میں اگلے سمسٹر میں طالب علم نے وہ کورس پاس کر لیا ہے۔ لیکن کنٹرولر آفس میں کسی کی توجہ اس اہم معاملہ پر نہیں گئی۔

دو تین یونیورسٹیز کے رزلٹ کارڈرز میں یہ بھی تلاشنا پڑتا ہے کہ بی ایس یا ایم اے کا مضمون کیا ہے جس میں طالب علم کو ڈگری دی گئی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح لاہور کالج یونیورسٹی میں ایک لسٹ دو حصوں میں تقسیم کرکے اساتذہ کے بقایاجات ادا کرنے میں نااہلی یا بدنیتی تا ہنوز کارفرما ہے۔ شاید یہ بات طے کر لی گئی ہے کہ چھوٹی چھوٹی سلطنتیں اپنے معاملات میں کسی کو جواب دہ نہیں اور نہ ہی انھیں انتظامی معاملات میں کسی اصلاح کی ضرورت ہے۔ بہت سی یونیورسٹیز پہ یہ شعر ٹیگ کیا جانا چاہیے کہ مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے لیکن نصاب و اساتذہ کے ساتھ انتظامی معاملات بھی صفر ہیں۔

پچھلے دنوں دو طلبا کو تعطل کا شکار رزلٹ کارڈ صوبائی محتسب کے حکم پر جاری کیے گئے۔ یعنی طلبا کو تعلیمی سال ضائع ہونے سے بچانے کے لیے بھی اب عدالتی حکم کی ضرورت ہوگی۔ آخر یونیورسٹی کے کرموں کی سزا طالب علم کیوں بھگتے۔ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ان تمام معاملات میں ہم طلبا کی تربیت کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ جن یونیورسٹیز میں استاد طلبا کو صرف دی گئی پی ڈی ایف پر رٹا لگانے کے نمبر دے گا اور باقی سوال کاٹ دے گا۔ اس استاد کی تربیت کہاں سے اور کیونکر ممکن ہوسکے گی۔

ہر یونیورسٹی اساتذہ کی چیکنگ کا یہ نظام کیوں نہیں وضع کرتی۔ ایسے اساتذہ کے زیر سایہ شاہین کیسے اڑان بھر سکیں گے۔ ایجوکیشن کمیشن کو تمام یونیورسٹیز کے رزلٹ کارڈرز اور سند کے لیے ایک پیٹرن وضع کرنا چاہیے۔ جس پر تمام معلومات کا اندراج اور حصول ممکن ہو سکے۔ اب ادارے طالب علموں کو فون کرکے تو نہیں پوچھیں گے کہ اس نے ڈگری یا کورس کن سالوں میں مکمل کیا۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نصاب میں کن تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔

ماضی کا رٹا لگانے کی آپشن کو کم کرکے ہر سطح اور ہر شعبے کے نصاب میں ایسا مواد شامل کیا جائے جس سے طلبا میں مستقل بینی کی صلاحیت پروان چڑھ سکے۔ حوصلہ ہے تو سفینوں کے علم لہرانے ہوں گے۔ محترمہ مریم نواز شریف اور وزیر تعلیم رانا سکندر حیات سے درخواست ہے کہ تعلیمی نظام کی بہتری کے لیے ہر شہر میں تعلیمی محتسب کا عہدہ رکھا جائے تاکہ وہ اپنے شہر میں یونیورسٹیز اور کالجز کے مابین تفاوت کو سمجھ کر اس کے حل کی تجاویز دے سکے۔ اس عمل پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جن کالجز میں چار سالہ بی ایس شروع کروایا گیا ہے وہاں اساتذہ کی سیٹیں بھی بڑھائی جائیں اور عمارت کے لیے بھی فنڈز جاری کیے جائیں۔

کچھ کالجز میں بی ایس پروگرام شروع کرنا ہی تباہی کی بنیاد رکھنا ہے۔ یقینی طور پر اس کی وجہ یونیورسٹیز کا درجہ پانے والے کالجز اور نظر انداز ہونے والے کالجز ہیں جن کے اساتذہ اور طالب علم بھی نظرانداز ہو رہے ہیں۔ بی ایس پروگرام کے سب طلبا و طالبات ایک سطح پر نہیں۔ سب کے لیے زرخیز زمین میسر نہیں۔ سب کے لیے موسم سازگار نہیں۔ سب کو یکساں مواقع نہیں ملتے۔ جس پر توجہ کی ضرورت ہے۔ نا موافق ماحول میں یہ طلبہ تحقیق کے میدان میں فعال نہیں رہتے۔ انہیں اسائمنٹس بنانے اور مڈ ٹرمز دینے سے ہی فرصت نہیں ملتی۔ ایسے میں ایک محقق کیسے پروان چڑھ سکتا ہے۔

ہمت ہے تو بلند کر آواز کا علم
چپ بیٹھنے سے حل نہیں ہونے کا مسئلہ

(ضیاجالندھری)

محترم وزیر اعلی محترمہ مریم نواز شریف سے یہ بھی درخواست ہے کہ کالجز اور یونیورسٹیز کے مابین بھی انٹرن شپ پروگرام ترتیب دیے جائیں۔ ہر کالج سے بی ایس کے طلبا و طالبات affiliated یونیورسٹی میں کم از کم دو سمسٹر گزاریں تاکہ انھیں سمجھ آ سکے کہ جس یونیورسٹی کی ڈگری انھیں دی جا رہی ہے۔ وہاں کا ماحول، اساتذہ اور سہولیات کیسی ہیں اور انھیں مستقبل میں کن سہولیات کے حصول پر توجہ دینا ہے۔ ایسے ہی کالجز کے اساتذہ اور یونیورسٹی کے اساتذہ کے درمیان یہ انٹرن شپ ہونا ضروری ہے۔ بہترین نتائج کے لیے یہ تبدیلی ناگزیر ہے۔

Check Also

Valentine Day Ka Sangeen Muqadma

By Rauf Klasra