Wednesday, 02 April 2025
  1.  Home
  2. Saadia Bashir
  3. Aik Qadam Aage, Do Qadam Peeche

Aik Qadam Aage, Do Qadam Peeche

ایک قدم آگے، دو قدم پیچھے

زندگی قدموں کی روانی سے مشروط ہے۔ والدین کے دل اس وقت خوشی سے کھل اٹھتے ہیں جب ان کا بچہ پہلا قدم اٹھاتا ہے۔ مضبوط قدم ہی انسان کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ جست بھر سکے۔ اس کے لیے طے ہے کہ قدم زمین پر مضبوطی سے رکھے جائیں۔ تبھی عشق کی ایک جست زمین و آسمان کی بے کرانی کا مشاہدہ کر سکتی ہے۔ مضبوطی سے قدم رکھنے اور قدم اٹھانے کی بہت اہمیت ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے ہاں قدموں کی مضبوطی سے زیادہ بے سکون سفر کو کامیابی سے مشروط رکھا جاتا ہے۔ دائیں، بائیں قدم کو بابا جی نے اس درجہ اہمیت دی کہ اس پر پوری کتاب لکھ ڈالی ہے۔ اب بابا جی کے مرید مخمصے میں ہیں کہ ان کا بچہ پہلے دایاں قدم اٹھائے تو ہی راہ راست پر رہے گا۔ سنا ہے ان کے مرید اپنے بچوں کی بائیں ٹانگ باندھ کر انھیں چلنا سکھاتے ہیں۔ بابا جی نے مذید بتایا کہ گھر سے باہر نکلتے وقت اگر بایاں پاؤں پہلے باہر نکالا تو ہر راستہ بند ملے گا۔

بالفاظ دیگر ہر راہ کھوٹی ملے گی۔ مریدوں کو جس جگہ ٹریفک بلاک ملتی ہے۔ سمجھ جاتے ہیں کہ اردگرد بابا جی کے وہ نافرمان مرید موجود ہیں۔ جنہیں ابھی تک دائیں اور بائیں پاؤں میں تفریق نظر نہیں آتی۔ مرید ایک دوسرے سے لڑتے ہیں۔ اک دوجے کے وہ لتے لیتے ہیں کہ بایاں قدم منہ چھپا لیتا ہے۔

بابا جی کہتے ہیں کہ اگر کلاس روم میں پہلے بایاں قدم رکھا تو فیل ہونے کا خدشہ ہے۔ ایک بار ایک طالب علم نے بابا جی کو رپورٹ کارڈ دکھاتے ہوئے رو رو کر بابا جی کی قسمیں کھائیں کہ وہ کلاس روم میں جاتے ہوئے ہر بار دایاں پاؤں ہی پہلے رکھتا ہے۔ بابا جی نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور بائیں ہاتھ سے نذرانہ وصول کرتے ہوئے اسے یقین دلایا کہ بابا جی کے مرتد شرارتی استاد اور استانیاں دایاں پاؤں رکھنے والے طلبہ کو فیل کرکے بابا جی سے دشمنی نبھا رہی ہیں اور یہ سب بابا جی کے کاروبار کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔

بابا جی کے نقصان کا سن کر سب مریدین کے ہاتھ دوسروں کی جیبیں ٹٹولنے لگے۔ بابا جی زندہ باد کے نعرے لگے اور بابا جی بایاں پاؤں اٹھا کر ناچنے لگے۔ سنا ہے ہم سب کو دائیں بائیں کا یہ سبق اچھی طرح یاد نہیں اسی لیے ہماری ترقی کی رفتار سست ہے۔ بابا جی کہتے ہیں کہ جو عورتیں رسوئی گھر میں پہلے بایاں پاؤں رکھتی ہیں ان کے ہاتھ کا پکا کھانا بد ذائقہ ہوتا ہے خواہ وہ کھانا دائیں ہاتھ سے پکائیں۔

سب مریدین روز اپنے گھر کا پکا کھانا بابا جی کے لیے لاتے ہیں اور بابا جی چکھ کر اپنے مریدین کے ذریعہ گھر بیٹھی جھوٹی عورتوں کی پٹائی کرواتے ہیں۔ "کہنا دھی نوں تے سناناں نونہہ نوں" کی اس سے بہتر مثال بھلا کیا ہو سکتی ہے۔ سنا ہے کہ بابا جی کے مرید ڈاکٹرصاحب بھی قبض کے مریضوں کو یہ کہہ کر بھگا دیتے ہیں کہ اس نے باتھ روم میں پہلے بایاں پاؤں کیوں رکھا تھا۔ بابا جی سے ان کے ایک مرید نے دست بستہ سوال کیا کہ جن برانڈز پر سیل لگی ہو اور دھکم پیل میں خیال ہی نہ رہے کہ کون سا پاؤں رکھنا ہے تو کیا شریعت میں اس کی معافی کی گنجائش ہے۔

بابا جی نے صاف کہہ دیا کہ ہر بابے کی ذاتی کاروباری شریعت میں معافی تو خیر حسب نذرانہ وافر موجود ہوتی ہے۔ لیکن ایسے بھلکڑ نافرمان مریدین سیل میں حسب پسند لوازمات کی قطعی امید نہ باندھیں۔ بابا جی نے بتایا کہ پاؤں کے ساتھ چلنے اور رکنے والے تمام تر محاورات بابا جی کے ہی ایجاد کردہ ہیں جو بقلم خود بابا جی کے اہم تجربات میں سے ہیں۔

جہاں دایاں قدم اٹھانے والے مرید رنگے ہاتھوں بھی نہیں پکڑے جاتے۔ وہیں پیڑ توڑ کر بیٹھنا، پاؤں نہ جمنا۔ کھڑا نہ رہ سکنا۔ چل نہ سکنا کی تمام صورتوں اور کیفیات کو بائیں پاؤں سے مشروط کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پیروں کے جمنے اور ٹھہرنے کے بارے میں محاورات صرف انسانی کردار اور سماجی ضرورت کی طرف اشارہ نہیں کرتے۔ ان میں بابا جی کی کرشماتی کرامات کے نئے نئے پہلوؤں کی طرف بھی اشارہ ہے۔ بادبان اور کنارے کی تصویر بھی بابا جی کے اعتقادی مریدوں کی محنت کا نتیجہ ہے۔ قدم یا پیر صرف اعتقادی مریدوں کے جمتے ہیں اور اس کا تعلق مریدوں کے اعتقاد اور مستقل مزاجی سے فرماں برداری سے ہے۔

نافرمان مریدوں کے تو قدم اکھڑتے ہیں اور قدم اکھاڑے جاتے ہیں۔ پامردی اور بہادری کا بابا جی کی شریعت سے کوئی علاقہ نہیں۔ ایک تحقیق سے پتا چلا کہ جب بائیں اور دائیں کی شناخت کی بات آتی ہے تو بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ یہ فیصلہ کرنے کی قابلیت ہی نہیں رکھتےاور ہم سوچتے ہیں

یہ وار کر گیا ہے پہلو سے کون مجھ پر
تھا میں ہی دائیں بائیں اور میں ہی درمیاں تھا

(جون ایلیا)

ایک دن جلالی کیفیت میں بابا جی کی زبان سے نکلا کہ بائیں پاؤں کے گروہ ان کے مرید خاص ہیں۔ نذر نذرانہ کی وافر مقدار نے بابا جی کی آنکھیں چندھیا دی ہیں۔ جس ترازو کا پلڑا جھکتا ہے۔ بابا جی اپنی دعائیں اور بیان اسی گروہ کی حفاظت میں لٹانے لگتے ہیں۔ ہمیں دائیں بائیں کی شناخت میں الجھا کر بابا جی نے اپنے گروہ مضبوط کر لیے ہیں۔ دایاں پاؤں بائیں پاؤں کی حمایت میں سرگرم رہتا ہے اور بائیں پاؤں نے دائیں پاؤں کی حفاظت میں دستے بنا لیے ہیں۔ متوازن چلنے والے سب روندے گئے ہیں۔

چہار سمت کہیں دائیں بائیں لگتی ہیں
سکوت توڑنا ہو تو صدائیں لگتی ہیں

(اعجاز توکل)

سفر میں قدموں کے نشان ایک طرف

دائیں بائیں قدم کی تفہیم نے ہمیں اس قابل ہی نہیں چھوڑا کہ ہم سمت کا تعین کر سکیں۔

Check Also

Etemad Sazi Kyun Zaroori Hai?

By Haider Javed Syed