طارق عزیز۔یادوں کا ایک ورق
اے مرے دوست ذرا دیکھ میں ہارا تو نہیں میرا سر بھی تو پڑا ہے مری دستار کے ساتھوقت خود ہی یہ بتائے گا کہ میں زندہ ہوں کب وہ مرتا ہے جو زندہ رہے کردار کے ساتھدستار اور کردار کا آپس میں گہرا تعلق ہے مگر یہاں میں نے یہ اشعار ایک واقعہ کے باعث لکھے ہیں کہ جس کا تذکرہ میں بعد میں کروں گا۔ پہلے مجھے اس واقعہ کے ایک اساطیری کردار طارق عزیز کا تذکرہ کرنا ہے۔ ان کے ساتھ کئی برسوں پر محیط ایک تعلق خاطر تھا کہ ایک زمانے میں جیسے ہم ایک دوسرے کے عادی سے ہو گئے تھے۔ خاص طور پر جن دنوں طارق جمیل نیلام گھر کر رہے تھے۔ علی اکبر عباس بھی کمرے میں ہوتے۔ علمی مباحث بھی ہوتے اور شعرو شاعری کی باتیں۔ اتنی یادیں ہیں کہ میں ایک کالم میں کچھ بھی سمیٹا نہیں جا سکتا۔ وہ آتے تو رونق سی لگ جاتی۔ ہم آ گئے تو گرمئی بازار دیکھنا، ادھر سوال تیار ہو رہے ہیں ادھر بیت بازی کی ٹیمیں آ گئی ہیں ایک ڈاکٹر مہمان کے طور پر آئے تو انہوں نے غزل سنانے کی خواہش ظاہر کی۔ طارق عزیز صاحب فوراً میری طرف متوجہ ہوتے اور بولے یہ بیٹھے ہیں سعداللہ شاہ یہی فیصلہ کریں گے۔ آپ کی غزل کا کہ آپ نے پروگرام میں پڑھنی ہے یا نہیں؟
وہ اس جہت کا آدمی تھے۔ اداکار، فنکار، کمپیئر، شاعر، کالم نگار اور جانے کیا کیا کچھ وہ شاعری میں منیر نیازی کے رنگ اور آہنگ سے بے تحاشہ متاثر تھے۔ شاید یہ انداز ان کے مزاج سے لگا کھاتا تھا۔ ان کی شاعری مجموعہ"ہمزاد دا دکھ" اس کا بین ثبوت ہے اس شعری مجموعے کو نہایت عمدہ انداز میں میں نے اپنے پبلشرز صفدر حسین سے شائع کروایا۔ اس مجموعہ کے درجنوں ایڈیشن چھپ چکے۔ وہ سیاست میں بھٹو کے ابتدائی ساتھیوں میں تھے۔ وہ شملہ بھی ان کے ساتھ گئے تھے۔ وہ نواز شریف کے جلو میں اسمبلی میں بھی پہنچے اور پھر چیف جسٹس کے خلاف احتجاج میں پیش پیش بھی تھے۔ وہ کہتے ہوتے تھے کہ میں ہوں یا پھر نہیں ہوں، یعنی ان کی نظم دیکھ لیں :
جزا سزا دے وہم نے
کجھ وی کرن نہ دتا
زندہ رہن دے سہم نے
چج نال مرن نہ دتا
چھوٹیاں چھوٹیاں گلاں اتے
ایویں نہ توں لڑیا کر
ایڈیاں سوہنیاں اکھاں دے وچ
ہنجو نہ توں بھریا کر
جیہڑے کم نئیں تیرے چندا
توں اوہ کم نہ کریا کر
وہ جالندھر میں 1936ء میں پیدا ہوئے اور 17جون 2020ء کو لاہور یعنی داتا کی نگری میں آسودہ خاک ہوئے۔ وہ ایک جستجو اور ایک تحرک کا نام تھے۔ ان کا خاندان بھی مسلم لیگی تھا اور پھر ان کے والد عبدالعزیز نے جو ساہیوال میں قیام پذیر ہوئے۔ انہوں نے خود ہمیں بتایا کہ جب عبدالرب نشتر سرکاری دورے پر ساہیوال آئے ان کے آبائی چار مرلہ کے مکان میں ٹھہرے۔ صبح جب وہ گئے تو سرہانے کے نیچے کثیر رقم چھوڑ گئے۔ ان کے والد عبدالعزیز نے فوراً وہ رقم ان کے پیچھے ہی انہیں پہنچائی۔ یہ کیسے سنہرے اور کھرے لوگ تھے۔ طارق عزیز کے اندر پاکستان تھا۔ وہ درد دل رکھنے والے تھے۔ ایک مرتبہ میں نے ایک غریب ٹی وی ملازم کی سفارش کر دی کہ بیچارہ پیدل ٹی وی آتا ہے۔ کہنے لگے اچھا اسے کہو کہ کل ریکارڈنگ پر آ جائے۔ میں کہوں گا کہ آ کر یہ نیا سائیکل اٹھا لے۔ ایسے ہی ہوا وہ غریب آدمی ہمیشہ دعائیں دیتا رہا۔
علم و ادب کے ساتھ ان کا شغف کیا کہنے کہ رانجھا رانجھا کر دی نی میں آپے رانجھا ہوئی، انہوں نے تین نسلوں کی آبیاری کی، علم کے موتی لٹائے۔ یہ واحد پروگرام تھا جسے گھر کے سب چھوٹے بڑے بیٹھ کر دیکھتے۔ آپ اندازہ لگائیں کہ میرے ماموں جان ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی اور بڑے ماموں عبدالمجید مفتی تک اس پروگرام کو دیکھتے اور بعض عربی تلفظ کی غلطیاں نکالتے تو مجھے کہتے طارق صاحب کو بتا دینا۔ وہ ساہیوال میں مجید امجد کی صحبت میں بھی بیٹھے۔ ان کا پروگرام گینز بک آف ریکارڈ میں آنے والا تھا کہ کسی وجہ سے بینظیر دور میں درمیان میں ختم کر دیا گیا جس کا انہیں رنج تھا۔ نواز شریف کے دور میں اس کا نام بزم طارق عزیز شو رکھا گیا تو پہلے پروگرام میں میں بھی موجود تھا۔ پہلی مرتبہ میں ان کے پروگرام میں بحیثیت مہمان غالباً 1991ء میں آیا۔ آغا ذوالفقار خاں پروڈیوسر تھے۔ میں نے جب پڑھا جہاں پھولوں کو کھلنا تھا وہیں کھلتے تو اچھا تھا، تو سامعین نے دوسرا مصرع پڑھا۔ تمہی کو ہم نے چاہا تھا تمہی ملتے تو اچھا تھا۔ اس پر وہ بہت خوش ہوئے۔ وہ مزید خوش ہوئے کہ میں نے ملنے والی ساری رقم 3500روپے سیلاب فنڈ میں دے دئیے۔
بڑے خوش مزاج تھے کسی نے عمر پوچھی تو کہنے لگے 60کا ہو گیا ہوں۔ میں نے کہا لگتے تو آپ انسٹھ سال کے ہیں۔ مسکرائے اور کہنے لگے شاباش ای، بڑی رعایت کی ہے۔
ایک مرتبہ میں معروف شاعرہ ثمینہ راجہ کے ساتھ ان کے پروگرام میں آیا تو دیکھتے ہی سٹیج سے اتر کر نیچے آئے اور مجھے چوم لیا۔ میں حیرت زدہ رہ گیا اور ثمینہ راجہ بھی۔ کہنے لگے یار۔ رات تمہارا شعر پڑھا کہ اے مرے دوست ذرا دیکھ میں ہارا تو نہیں۔ میرا سر بھی تو پڑا ہے مری دستار کے ساتھ۔ جی میں آیا کہ تم ملو تو تمہیں چوم لوں۔ ان کی یہ بحثیں مجھے اکثر نصیب ہوئیں۔ ان کے پاس جاتا تو ڈھیروں باتیں ہوتیں۔ وہ اپنی یادداشتیں لکھ رہے تھے اور چاہتے تھے کہ میں شائع کروائوں۔ چھاپنے والے تو کئی تیار تھے۔ بس ان کی مصروفیات بہت تھیں۔ آخری دنوں میں پروڈیوسر قیصر علی شاہ صاحب طارق عزیز شو کر رہے تھے تو میں متعدد پروگرامز میں جج کے طور پر آیا۔ بعض اوقات تو طارق عزیز صاحب کہتے یار اس مرتبہ آپ اکیلے ہی جج ہونگے۔ انہیں مجھ پر بہت اعتماد تھا۔ ان کا ایک شعر کافی مشہور ہوا تھا:
ہم وہ سیاہ بخت ہیں طارق، کہ شہر میں
کھولیں دکان کفن کی تو سب مرنا چھوڑ دیں
وہ تاریخ بنانے والے تھے۔ ایک رول ماڈل میزبان تھے۔ زبان و بیان کے ساتھ ساتھ علم سیاست و ثقافت کا گہرا شعور رکھتے تھے۔ جن کی پرورش بھی عبقری لوگوں میں ہوئی تھی۔ وہی کہ جنہوں نے میٹھے پانی کا کنواں اپنے ناخنوں سے کھودا تھا۔ وہ سنتے کانوں اور دیکھتی آنکھوں میں رس گھولتا رہا اور روشنی بکھیرتا رہا۔ اللہ کے بابرکت نام سے آغاز کرنا نہ بھولتا اور پھر اسی کے نام پر بننے والی ریاست کے لئے زندہ باد کا نعرہ لگا کر اختتام کرتا۔ طارق ایک سوچ اورفکر کا نام تھا اور وہ ایک نظریہ تھا جو میری اور آپ کی اساس ہے۔ طارق عزیز ہماری یادوں میں مہکنے والا پھول ہے۔