بیانیہ
ہر ریاست کا ایک سچ ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ مکمل طور پر درست ہو، یا واقعی حقیقت پر مبنی ہو۔ مگر اس کو مختلف ممالک جانفشانی سے ترتیب دیتے ہیں۔ پھر بھرپور پروپیگنڈے کے زور پر اس امر کو عام لوگوں کے ذہنوں میں، اس طرح نقش کیا جاتا ہے کہ وہ اسے سو فیصد حقیقت سمجھنا شروع ہو جاتے ہیں۔
اس مفروضہ کے لیے مرنے مارنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ یعنی اگر ریاستی سچ، مکمل یا جزوی طور پر مبالغہ پر مبنی بھی ہے۔ تب بھی اس کے لیے جان دینے اور لینے والے کو حد درجہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
نیشن اسٹیٹس (Nation States)کا المیہ ہی یہی ہے کہ سرحدوں کو گزشتہ ایک صدی سے اس قدر تقدس عطا کر دیا گیا ہے کہ ایک ریاست کا سچ، مکمل طور پر ہمسایہ ملک کے لیے بھرپور جھوٹ ہوتا ہے۔ غیر جذباتی طریقے سے نازک ترین معاملات کو پرکھا جائے، تو کسی بھی ریاست کا مکمل سچ، دلیل کی کسوٹی پر پورا نہیں اتر سکتا۔ کہیں نہ کہیں کھوٹ معلوم ہو ہی جاتی ہے۔ اس کا ایک اور رخ بھی ہے۔
کسی بھی شہری کو یہ اجازت نہیں ہوتی کہ اپنے ملک کے بیان کردہ مسلمہ یا غیر مسلمہ بیانیہ پر منفی بات کر سکے۔ اس پر بحث کی گنجائش ہی نہیں ہوتی۔ اگر کوئی شخص ہمت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے غداری کا تمغہ فی الفور مل جاتا ہے۔ پابند سلاسل ہونا تو یقینی ہے۔
جان گنوانے کا اندیشہ بھی مسلسل لاحق رہتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک، مسلسل غلطیوں سے یہ سیکھ چکے ہیں کہ صرف اور صرف ملکی مفادات مقدم ہوتے ہیں۔ انھیں حاصل کرنے کے لیے کوئی بھی بیانیہ، جز وقتی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یعنی نہ کوئی مکمل سچ ہوتا ہے اور نہ کوئی مکمل جھوٹ۔ ملکی مفاد ہی سب کچھ ہوتا ہے۔
اس کی ایک بھرپور مثال، ہمارے ملک کو بھرپور طریقے سے افغانستان کی خانہ جنگی میں مبتلا رکھنے کے لیے استعمال کرنا تھا۔ ستر اور اسی کی دہائی میں، پاکستان کو جس بدترین طریقے سے امریکا نے اپنے مفاد کو بڑھانے کے لیے استعمال کیا۔ اتنی ادنیٰ مثال تاریخ میں ملنا مشکل ہے۔ مذہب کو جس طرح روس کے خلاف، ہمارے ملک میں استعمال کروایا گیا۔
اس سے ہمارا مستقبل تباہ ہوگیا۔ ہمارے ملک کو جہنم بنا کر روس کو شکست تو دلوا دی گئی۔ مگر امریکا نے اپنا کام نکلوانے کے بعد، قومی بیانیہ ایک سو اسی ڈگری پر تبدیل کر ڈالا۔ مجاہدین، کو دہشت گردوں کی صف میں کھڑا کر دیا گیا۔
پاکستان کو بھرپور طریقے سے ایک ناکام ریاست بنا دیا گیا۔ بدقسمتی سے آج بھی یہ سلسلہ ایک نئی استعماری صورت میں جاری و ساری ہے۔ مگر ابلاغ عام کے جدید ترین ذرایع اب اتنے طاقتور ہو چکے ہیں کہ کسی بھی پالیسی کو چھپانا ناممکن ہو چکاہے۔ حد تو یہ ہو چکی ہے کہ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور وائٹ ہاؤس جیسے طاقتور ادارے بھی اپنی کسی بھی میرٹ سے فارغ حکمت عملی کا دفاع نہیں کر سکتے۔ یہ صرف اورصرف ابلاغ عامہ کی طاقت ہی ہے کہ حقیقت کسی نہ کسی صورت سامنے آ جاتی ہے۔
ہمارے ملک میں 1956 سے مبالغے پر مبنی بیانیہ کا یہی گھناؤناکھیل تسلسل کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس کی شکل اور خاصیت میں تبدیلی لائی جاتی ہے۔ مگر مقصد ہمیشہ ایک رہتا ہے۔ ہمارے ملک کو بین الاقوامی طاقتیں ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرتی ہیں اور پھر اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے۔ آج بھی سب کچھ بالکل اسی منفی طرز سے مضبوطی اور تواتر سے کیا جا رہا ہے۔
سوچیے۔ اگر ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کو طاقتور ترین ملک، سیاست دانوں کی قدرے جائز حکومتوں کو اکھاڑنے کی اجازت نہ دیتا، تو آج ہمارا ملک ترقی کے کتنے بلند زینے عبور کر چکا ہوتا۔ قومی المیہ یہ بھی ہے کہ ملکی ریاستی اداروں کو اپنا بھیانک چہرہ چھپانے کے لیے سیاسی کاری گروں کی ایک کھیپ ہمیشہ مل جاتی ہے۔ اور تماشا قائم و دائم رہتا ہے۔
غور طلب بات ہے کہ اس خونی کھیل میں بربادی صرف اور صرف عوام کے حصے میں آتی ہے۔ عام آدمی کی مشکلات اور ذلت میں دائمی اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ ایک حد درجہ غلیظ حکمت عملی کے تحت عام آدمی کو اس پاتال میں پھینک دیا گیا ہے، جہاں جائز حقوق کی دستیابی کے لیے جدوجہد کرنا ناممکن ہے۔ اس کا ثبوت آپ کو ہر دور میں با آسانی مل جائے گا۔
ہمارے ہاں، مقتدر شخصیات کی باہمی نفرت اور جنگ، ایک دوسرے کو اقتدار سے نکالنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ عام آدمی تو صرف اور صرف چارہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ کبھی مذہب کے نام پر، کبھی روٹی کپڑا اور مکان کے خوبصورت نعرہ پر، کبھی روشن خیالی کے دیدہ زیب نام پر اور کبھی، سیاست نہیں ریاست بچاؤ کے فریب پر۔ گزشتہ ستر برس کے دورانیہ کا غیر جذباتی تجزیہ کریں۔
حکومت لینے اور دوسرے کو گرانے کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آئے گا۔ عوام کی فلاح و بہبود اور ان کو معاشی استحکام دینے کا عمل مکمل طور پر مفقوددکھائی دے گا۔ یہ سب کچھ آج بھی قیامت خیز رفتار پر قائم ہے۔ ملکی حالات کو بتدریج جس نشیب میں لے جایا گیا ہے۔
یہ کسی ایک حکومت کا کام نہیں۔ اسی کی دہائی سے ہر سیاسی اور غیر سیاسی حکومت نے اس تباہی میں اپنا حصہ بھرپور طریقے سے ڈالا ہے۔ دراصل ہمارے لوگ نیانجات دہندہ اور دیوتا بناتے بناتے، پہلے سے بھی زیادہ دھوکا کھاجاتے ہیں۔ ہردم نئے فریب میں آنے کے لیے تیار بھی رہتے ہیں۔
عوام کی دگرگوں حالت ایک طرف مگر اداروں کی گراوٹ اور کمزوری اب اتنی عیاں ہو چکی ہے کہ کوئی بھی عوامی مسئلہ حل ہونا ناممکن نظر آ رہا ہے۔ کوئی بھی ریاستی ادارہ اس استطاعت اور طاقت کا حامل نہیں رہا کہ عام لوگوں کا سامنا کر سکے۔ عوامی خدمت کے کسی بھی معیار پر پورا اتر سکے۔ جمہوریت صرف یہ ہے کسی بھی سیاسی گرو کو اپنے خاندان کے علاوہ باہر دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ کمال یہ ہے کہ لوگ اسے قبول بھی کر چکے ہیں۔
جمہوریت میں موروثیت کی تلچھٹ کو ترقی یافتہ دنیا میں گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے۔ مگر ہمارے محیر العقول ملک میں موروثیت کے عذاب کو حد درجہ تقدس سے پیش کیا جاتا ہے۔ کبھی نہیں بھولتا کہ نوجوان قیادت کے پیچھے پارٹی کے گرگ جہاں دیدہ ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں۔ قیامت یہ ہے کہ اس کو ہر طریقہ سے جائز مان لیا گیا ہے۔
ہمارے ملک میں پہلے دن سے نہ جمہوریت تھی اور نہ کبھی ہوگی۔ جمہوری رویہ کی اس طرح بیخ کنی کی گئی ہے کہ ہم ایک ملغوبہ کو جمہور ماننے کے لیے مجبور کر دیے گئے ہیں۔ چند دنوں سے وزیراعظم، اپنے سولہ ماہ کے اقتدار کی تعریفوں میں آسمان سے تارے توڑ رہے ہیں۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ وزیر اعظم نے ملک کی کایا پلٹ ڈالی ہے۔
ویسے یہ درست ہے کہ عام آدمی کی معمولی سی سانسوں کو چھیننے کا عمل انھوں نے کمال مہارت سے ادا کیا ہے۔ عوامی امنگوں اور آسودگی کو جس طرح اس حکومت نے زندہ درگور کیا ہے، اس کی مثال ہمارے ملک میں بھی ملنا ناممکن ہے۔
مہنگائی کا بڑھنے والا جملہ مکمل طور پر بے معنی ہے۔ مہنگائی اس قدر زیادہ کر دی گئی ہے کہ غریب کو دو وقت نہیں، صرف دن میں صرف ایک وقت کی روٹی کھانا تک ناممکن ہو چکی ہے۔ بجلی کے نرخوں میں اضافہ اس طور پر کیا گیا ہے کہ لوگ بل دیکھ کر خودکشی کر رہے ہیں۔
طالب علم کا سوال ہے کہ آپ کے اشتہارات تو بتاتے ہیں کہ ہم چالیس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کر سکتے ہیں۔ مگر یہ سچ کیوں نہیں بتاتے کہ اتنی بجلی کو عوام تک پہنچانے کا ترسیلی نظام موجود ہی نہیں ہے۔ کھیل صرف یہ ہے کہ نجی بجلی گھروں کو بجلی پیدا کیے بغیر اربوں روپے کے Capacity chargesدیے جائیں۔ پھر اس میں سے اپنا حصہ وصول کر لیا جائے۔
اس حکومت کی کارکردگی کا اندازہ اس طرح بھی لگائیے کہ سولر پینلز کی درآمد میں دو بلین ڈالر کی منی لانڈرنگ کی گئی ہے۔ سپ کچھ تمام اخبارات میں چھپ چکا ہے۔ مگر کسی کے چہرے پر کوئی بھی احساس ندامت نہیں ہے۔ ویسے ہونابھی نہیں چاہیے کیونکہ عوام اور بادشاہ، ایک جیسے خمیر سے اٹھے ہوئے ہیں۔
حکومتوں کا جب بیانیہ مکمل طور پر دروغ گوئی پر مبنی ہو۔ تو سمجھ جائیے کہ عوام کو مزید عذاب میں ڈالنے کی تیاری ہو رہی ہے۔ عوام بھی سادہ ہیں کہ ہر بار، مکمل بہروپیوں کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں۔ جناب، مکمل طور پر غلط سرکاری حکمت عملی کسی صورت سے ہمارے ملک کی مشکلات کم نہیں کر سکتی۔ مگر پروپیگنڈے کے زور پر جھوٹ کو سچ ثابت کیا جا چکا ہے۔
آنے والا وقت ہمارے ملک کے لیے کیا قیامت لانے والا ہے اس کا اندازہ لگانے سے دل دہلتا ہے۔ موجودہ بزرجمہر، ذرا کسی درباری میڈیا پرسن کے علاوہ، کسی بین الاقوامی سطح کے اینکر کو انٹرویودینے کی ہمت فرمائیں۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ فریب اور جھوٹ کبھی بھی دائمی نہیں ہوتے۔