یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا
پاکستانی اشرافیہ میں تین متکبر مزاج طبقات ایسے ہیں جن کی اُٹھان اس ملک کے صدیوں پرانے ذات پات کے کریہہ اور غیر انسانی سماج سے ہوئی ہے۔ ان تینوں طبقوں کو نافرمانی، حکم عدولی اور مخالفت سخت بُری لگتی ہے۔ پہلا طبقہ اعلیٰ زمیندار (Landed Aristocracy) کا ہے جو خود کو اس زمین کا مالک و مختار سمجھتا ہے اور باقی تمام انسانوں کو خواہ وہ کسی بھی پیشے سے منسلک کیوں نہ ہوں، انہیں تابع فرمان اور کمتر حیثیت کے ملازمین (Sub servient) تصور کرتا ہے۔
ہزاروں سالوں سے اس برصغیر میں تمام ہنرمند افراد ان کے نزدیک کمتر یا "کمی" کی حیثیت سے نسل در نسل چلتے چلے آ رہے ہیں۔ یہ زمیندار طبقہ اپنے گائوں یا علاقہ میں ہمیشہ سے ایک چھوٹا سا "بھگوان" ہوا کرتا تھا، جس کے سامنے پنچائت کا عدالتی نظام بھی مطیع ہوتا اور اگر ضرورت پڑتی تو مندر کا پروہت یا پنڈت بھی اس متکبر زمیندار کی اَنّا کی تسکین کے لئے "اشلوکوں " کی اس کی مرضی کے مطابق تعبیر کر دیتا۔
دوسرا طبقہ مذہبی طبقہ ہے۔ اس کے اندر جو استکبار اور اپنے فیصلوں کو بزورِ قوت نافذ کرنے اور ان سے انکار کرنے والوں کو "کافر" یا "بھرشٹ" قرار دے کر عبرت کا نشان بنانے کا روّیہ آج موجود ہے وہ بھی اسی "برہمن" سماج کی عطا ہے، جس میں ایسے شودروں کے کانوں میں کھولتا ہوا سیسہ ڈلوا دیا جاتا تھا، جو غلطی سے وید یا گیتا سن لیتے۔ یہ "برہمن" جب تک زمیندار کے مفاد کو نہیں چھیڑتا تھا، اس کی دھونس قائم رہتی تھی۔ وقت بدلا تو اس میں ایک تیسرا طبقہ بھی آ کر شامل ہو گیا۔
جولاہے کی کھڈی نے پاور لوم کی شکل اختیار کر لی، لوہار کی بھٹی فائونڈری بن گئی، تانگے کا پہیہ تیز رفتار پہیوں میں ایسا تبدیل ہوا کہ ٹرین سے جہاز تک پہنچتے ہوئے اسے صرف چند سال لگے۔ دُنیا میں صنعتی انقلاب آیا تو برصغیر میں بھی فیکٹریوں کے مالکان کی صورت، ایک نیا طبقہ وجود میں آ گیا۔ بھٹی کی دھونکنی پر بیٹھنے والے لوہار کا بیٹا جب سٹیل مل کا مالک بنا تو اس کے زیرسایہ ہزاروں ایسے کاریگر آ گئے جن کے ہنر اور محنت کا استحصال کر کے وہ اپنی کاروباری سلطنت کو وسعت دینا چاہتا تھا۔ لیکن اس نومولود طبقے کو ایک مشکل کا سامنا تھا۔
اس کے زیر سایہ تمام مزدور اور ہنر مند ایک چھت کے نیچے کام کرتے تھے۔ ان کے مسائل مشترک تھے اور وہ مالک کا ظلم اور استحصال بھی اکٹھا برداشت کرتے تھے۔ اس لئے ان میں جتھہ بندی بہت آسانی سے ممکن تھی۔ یہ شہروں میں بکھرے ہوئے تھے، اس لئے ان پر گائوں کی طرح زبردستی بھی نہیں کی جا سکتی تھی۔ فیکٹری چلانے کے لئے ان کا تابع ہونا بہت ضروری تھا۔ ان کی بغاوت تو ہرگز برداشت ہی نہیں کی جا سکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جس طرح سترھویں صدی کے یورپ میں آلیور ٹوسٹ (Oliver Twist) کے ناول میں دکھائے گئے ماحول میں منہ زور مزدوروں کو مشینوں کے پٹوں پر گرا کر یا کھولتی بھٹیوں میں پھینک کر نشانِ عبرت بنایا جاتا تھا، برصغیر کے کارخانوں کے مالکوں نے بھی "ٹریڈ یونین" پر قابو پانے کے لئے ایسا ہی کیا۔
چند گستاخ زبانوں کو ہمیشہ کے لئے خاموش کر کے باقی تمام کو خوفزدہ کر دیا گیا۔ پاکستان بنا تو زمیندار طبقے کی وراثت جوں کی توں انگریزی قوانین کے بل بوتے پر نہ صرف منتقل ہوئی بلکہ ہر بڑے زمیندار کے لئے انگریز نے ایک حلقہ ٔ انتخاب بھی بنا دیا جس سے وہ سیاسی اشرافیہ کا حصہ بن گیا۔ جبکہ علماء اور صوفیاء کا وہ طبقہ جس نے اس برصغیر میں صرف اپنے لنگر کا دسترخوان بچھا کر اس پر شودر کے ساتھ ایک پیالے میں کھانا کھانے سے ذات پات کے نظام کو ہلا کر رکھ دیا تھا، اس عظیم طبقے کو انگریز دربار کی سرپرستی ملی، خانقاہوں کو جائدادیں عطا ہوئیں اور 1781ء میں وائسرائے کے قائم کردہ کلکتہ مدرسہ میں مذہبی تعلیم کو دُنیاوی تعلیم سے علیحدہ کر کے ایک "پروہت نما" طبقہ پیدا کیا گیا۔
اب مولوی کو ویٹگن سٹی کے پوپ اور کاشی وشواناتھ کے "برہمن" کی طرح صرف تین کاموں تک محدود کر دیا گیا۔ (1) پیدا ہونے پر بپتسمہ کی طرح اذان دینا، شادی کے وقت پھیروں کی طرح نکاح اور مرنے پر آخری رُسومات ادا کرنا۔ طاغوت سے لڑنے، کفر کی حکومت کا سامنا کرنے اور جہاد کی تعلیم کو شجر ممنوعہ قرار دیا گیا تو پھر اس طبقے کی ساری توانائیاں فروعات اور مسلکی اختلاف پر صرف ہونے لگیں، فتوے بازیاں شروع ہوئیں، واجب القتل کے آوازے گونجے اور آہستہ آہستہ جب یہ طبقہ اپنے اپنے مسلکی قلعوں میں مضبوط ہو گیا تو پھر اس کے مزاج میں استکبار آیا اور اس کے نزدیک بھی مخالف آواز، نافرمانی اور حکم عدولی بدترین جرم بن گیا۔ آج یہ طبقہ سیاست میں بھی سرگرم عمل ہے اور اپنی تمام گرمجوشی کی بدولت جسے چاہتا ہے دائرۂ اسلام سے خارج قرار دیتا ہے۔
یہ تینوں طبقات پاکستان کی سیاست کے اُفق پر گذشتہ ستر سال سے چھائے ہوئے ہیں۔ ان تینوں طبقات کا مزاج ایک جیسا ہے۔ ان کے ہاں حکم عدولی، نافرمانی اور اختلاف رائے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ نظام عدل و انصاف ہو یا قیام امن کے ادارے، ترقیاتی پروگراموں کے ذمہ دار ہوں یا رفاہِ عامہ کے ٹھیکیدار، سب کو ہماری مرضی کے مطابق چلنا ہو گا، ورنہ سب "مردود" ہیں۔
ہم کہیں تو انتظامیہ کسی کا جینا دوبھر کر دے اور ہم بتائیں تو اس کو نواز دے، ترقیاتی کام ہماری مرضی اور منشا کے مطابق ہوں، اگر ہم اس ملک کے سب سے بڑے شہر کو بھی سہولیات سے محروم رکھنا چاہیں تو تمہاری جرأت نہیں ہونی چاہئے کہ اس کے برعکس سوچو بھی۔ زکواۃ، صدقات اور مستحقین کی مدد بھی ہم سے پوچھ کر کی جائے۔ جو ہمارے دروازے کا بھکاری نہیں ہے اسے مرنے دو۔
تھانہ، پٹوار خانہ، محکمہ مال، زراعت سب ہماری ہدایت پر چلیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر کوئی ایسا نہ کرے اور اگر ہم اپنی طاقت سے اس پر زندگی تنگ کر دیں، وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے تو پھر عدالتیں بھی ہمارے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہوں، ہمارا ساتھ دیتے ہوئے اگر کسی جج کی ہمارے ساتھ گفتگو پکڑی جائے، دو جج ہماری قربان گاہ پر "بَلی" چڑھا دیئے جائیں، مگر ہمیں کچھ نہ کہا جائے۔ ان تینوں طبقات کے خلاف جب بھی کسی عدالت نے کوئی فیصلہ دیا ہے انہوں نے اسے ہمیشہ ذلیل و رُسوا کیا ہے۔ کوئی اس عدالت پر اختیارات سے تجاوز کرنے کا الزام لگاتا تھا تو کوئی اس پر کفر کا حامی ہونے کا فتویٰ لگا دیتا۔
25 جولائی کو یہ تینوں طبقات ایک ساتھ ایک میز پر نظر آئے اور دُنیا کی جدید مہذب تاریخ نے یہ پہلا انوکھا منظر دیکھا کہ کسی ملک کی حکومت نے جس کا فرضِ عین ہی عدالت کا حکم نافذ کرنا تھا، اس حکومت نے عدالت کا حکم ماننے سے انکار کر دیا۔ ان کے چہروں پر غصہ، نفرت اور طیش دیکھنے والا تھا۔ ہر کسی کی آنکھوں میں خون اُترا ہوا تھا۔
یہ غصہ عدالت پر نہیں تھا۔ اس کی وجہ پاکستانی عوام کا وہ 63 فیصد نوجوان طبقہ ہے جن کی عمریں 14 سے 35 سال تک ہیں۔ اس طبقے نے اچانک دس اپریل کو ان تینوں طبقات کا طوقِ غلامی اُتار پھینکنے کا اعلان کر دیا اور 17 جولائی کو اس پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی۔ نوجوانوں کی یہ تعداد اتنی بڑی ہے کہ اب کوئی زمیندار صفت رہنما اپنے غنڈوں سے انہیں ٹھکانے بھی نہیں لگا سکتا، کوئی صنعت کار صفت لیڈر انہیں جلتی ہوئی بھٹی میں پھنکوا کر خاموش نہیں کر سکتا اور نہ ہی کوئی عالم صفت رہنما ان 63 فیصد نوجوانوں کو فتوے سے بیک وقت واجب القتل، مرتد اور کافر قرار دے سکتا ہے۔
بے بسی و لاچاری میں غصہ عدالت پر نکالا گیا۔ انہیں اندازہ ہی نہیں کہ وقت نے ان کے پائوں تلے سے زمین کھینچ لی ہے۔ اب وہ، ان کی سیاست، نسلی تفاخر اور تکبر عوام کے جمِ غفیر کے پائوں تلے کچلا جا چکا ہے۔ اندازہ نہیں ہے، تو اپنا یہ اندازِ تکلم لے کر ایک دن عوام کے درمیان جا کر دیکھ لو۔