یہ جنگ ختم نہیں ہو سکتی
اس جدوجہد کا آغاز چوہتر برس قبل ہوا تھا، جب یکم جولائی 1948ء کو بانی ٔپاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے سٹیٹ بینک کا افتتاح کرتے وقت عالمی، مغربی سُودی مالیاتی نظام کے خلاف جہاد کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا تھا، "میں انتہائی اشتیاق سے آپ کے تحقیقی ادارے کے کام کا جائزہ لیتا رہا ہوں گا کہ وہ کیسے بینکاری کے نظام کو اسلام کی معاشرتی اور معاشی طرزِ زندگی کے اُصولوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے"۔
اس کے صرف ستر دن بعد اُمتِ مسلمہ کا یہ روشن چراغ، منوں مٹی تلے دفن کر دیا گیا اور قوم آہستہ آہستہ اس نظریے سے ہی دُور ہو گئی، جس کے لئے مسلمانانِ ہند نے لاکھوں جانوں کی قربانیاں دے کر پاکستان بنایا تھا۔ 12 مارچ 1949ء کو قانون ساز اسمبلی نے قراردادِ مقاصد منظور کر کے ریاست کو کلمہ تو پڑھوا دیا، لیکن اس کے آئین و قانون اور طرزِ معیشت و معاشرت کی بنیادیں سیکولر ہی رہیں۔
1956ء کا آئین یوں تو اسلامی اور جمہوری کہلاتا ہے، لیکن اس نے بھی ملکی معیشت کو اسلامی خطوط پر ڈھالنے میں کوئی حصہ نہ ڈالا اور اکتوبر 1958ء میں مارشل لاء لگ گیا اور 1962ء میں ایک دستور نافذ کر دیا گیا۔ اس دستور کے تحت "اسلامی نظریاتی کونسل" کے نام سے ادارہ بھی قائم ہوا، جس کی ذمہ داری حکومت کو قانون سازی کے اسلامی پہلوئوں پر رہنمائی کرنا تھی۔
قیامِ پاکستان کے سولہ سال بعد 1964ء میں اس کونسل نے بینکاری کے نظام کا جائزہ لینا شروع کیا اور دو سال محنت کے بعد 1966ء میں بینکوں کے تمام سُودی لین دین کو حرام قرار دے دیا۔ لیکن فیلڈ مارشل ایوب خان کی حکومت نے اس "محنت" کو ردّی کی ٹوکری کی زینت سمجھا۔ یحییٰ خان برسرِاقتدار آیا تو دوبارہ مشورہ مانگا گیا، کہ شاید دل بدل گئے ہوں، مگر 3 دسمبر 1969ء کو اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنی ہی پرانی رپورٹوں کا اعادہ کر دیا۔
پاکستان دولخت ہو گیا، بچے کھچے پاکستان پر ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت قائم ہوئی، 1973ء میں ایک اور اسلامی جمہوری دستور منظور ہوا، لیکن اس کے تحت بھٹو نے بینکاری سُود پر کوئی رائے طلب نہ کی۔ چھ جولائی 1977ء کو ضیاء الحق برسرِاقتدار آیا تو اس نے آئین و قوانین کو اسلامی بنانے کی اپنی مہم کے تحت اسلامی نظریاتی کونسل سے رجوع کیا۔
کونسل نے 25 جون 1980ء کو جہاں اور بہت سے اقدامات تجویز کئے، وہیں سُود کے خاتمے کے لئے ایک متبادل نظام بھی تجویز کر دیا۔ انہی سفارشات کے تحت وفاقی شرعی عدالت قائم کی گئی اور سپریم کورٹ میں شریعت اپیل بنچ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ لیکن کمال حیرت یہ کہ دونوں عدالتوں پر پابندی لگا دی گئی کہ وہ دیگر تمام معاملات کے بارے کیس سن سکتے ہیں لیکن دس سال کے لئے مالی معاملات نہیں سن سکیں گے۔
ان دس سالوں میں ہی 1988ء کو ضیاء الحق دائمی اجل کو لبیک کہہ گئے مگر پابندی نے تو 1990ء میں ختم ہونا تھا۔ جیسے ہی پابندی اُٹھی تو محمود الرحمن فیصل نامی ایک شخص سُودی بینکاری کے خلاف وفاقی شرعی عدالت جا پہنچا۔ بند ٹوٹا تو ایک ساتھ 115 درخواستیں جمع ہو گئیں۔ شرعی عدالت نے روزانہ سماعت کی بنیاد پر کام کیا اور صرف ایک سال کے اندر، اکتوبر 1991ء میں 157 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں تمام بینکاری سُود کو حرام قرار دے کر حکومت کو حکم دیا کہ وہ 30 جون 1992ء تک تمام سُودی بینکاری ختم کر دے۔ اس وقت نواز شریف برسرِاقتدار تھے۔ انہیں سُودی بینکاری کے خاتمے کا ایک موقعہ ملا تھا مگر انہوں نے آخرت کا سودا کرنے کی بجائے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔
اس کے بعد 1992ء سے 1999ء تک سات سال گزرے مگر نواز شریف اور بے نظیر حکومتوں نے شریعت اپیل بنچ ہی پورا نہیں ہونے دیا کہ کہیں فیصلہ ان کے خلاف نہ آ جائے۔ مشرف کے آنے کے بعد جو اچانک ایک انتظامی افراتفری مچی، تو سپریم کورٹ کا شرعی بنچ مکمل ہو گیا اور کسی کو پتہ نہ چل سکا۔ اس بنچ میں جسٹس خلیل الرحمن، جسٹس منیر اے شیخ، جسٹس وجیہہ الدین احمد، جسٹس تقی عثمانی اور جسٹس محمود احمد غازی شامل تھے۔
مشرف وغیرہ اپنی سیاست میں لگے ہوئے تھے اور یہ بنچ روزانہ خاموشی سے ماہرین کو سنتا رہا اور 23 دسمبر 1999ء کو دُنیا کے ستاون اسلامی ممالک کی تاریخ میں پاکستان وہ واحد ملک بن کر اُبھرا جس کی سپریم کورٹ نے تمام قسم کے بینکاری سُود کو حرام قرار دے کر 30 جون 2001ء تک حکومت کو اس سُودی بینکاری نظام کے خاتمے کا حکم دیا۔ مشرف تیز آدمی تھا، وہ اس فیصلے کے بعد خود خاموش بیٹھا رہا، لیکن اس نے یونائیٹڈ بینک کے ذریعے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ایک نظرثانی کی درخواست دائر کروا دی۔
پی سی او آ گیا، اور گذشتہ شریعت بنچ کے پانچ ججوں میں سے چار فارغ کر دیئے گئے۔ اب چیف جسٹس شیخ ریاض کی سربراہی میں ایک نیا بنچ تشکیل دیا گیا، جس میں علماء کی نشستوں پر آنے والوں میں سے ایک رشید احمد جالندھری تھے جو ہمارے ساتھ بلوچستان یونیورسٹی میں اسلامیات کے اُستاد تھے اور اپنے حلیئے اور وضع قطع سے جدید فیلسوف نظر آتے تھے اور دوسرے ڈاکٹر خالد محمود تھے، انہیں خصوصی طور پر مانچسٹر کی جامعہ مسجد سے بلا کر سپریم کورٹ کا جج لگایا گیا۔
"تبرک" کے طور پر ایک جج منیر احمد شیخ کو پرانے بنچ سے بھی لے لیا گیا۔ اس بنچ نے سپریم کورٹ کی تاریخ کا انوکھا فیصلہ کیا۔ سب سے پہلے 23 دسمبر 1999ء کے سپریم کورٹ کے سُود کے خلاف فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا، اب چاہئے یہ تھا اس کے بعد خود اپنا کوئی فیصلہ تحریر کرتے، لیکن ایسے میں اس ایک ہزار صفحات پر مشتمل فیصلے کا جواب دینا پڑتا۔ اب ایک چال چلی گئی، فیصلے میں لکھا گیا کہ چونکہ وفاقی شرعی عدالت کی سطح پر ہی کیس صحیح طرح نہیں سنا گیا، اس لئے اسے واپس وفاقی شرعی عدالت میں بھیجا جاتا ہے۔
25 جون 2002ء کو سپریم کورٹ معاملہ واپس وفاقی شرعی عدالت کے سپرد کر دیا۔ اس قوم کے درد مند اور سُود کے خلاف جنگ کرنے والے حضرات ایک بار پھر 19 سال نو ماہ اور تین دن پیشیاں بھگتتے رہے، بحثیں ہوتی رہیں اور بالآخر وفاقی شرعی عدالت نے دوبارہ 28 اپریل 2022ء کو تمام قسم کے بینکاری سُود کو حرام قرار دے کر حکومت کو پانچ سال کی وسیع مہلت دی تاکہ اپنے نظام کو سُود سے پاک کر لے لیکن شاید ابھی اس حکم نامے کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی ہو گی کہ اقتدار کے ایوانوں میں سوچ و بچار شروع ہو گئی۔ پھر وہی مکارانہ چال چلی گئی جو مشرف نے چلی تھی۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہوئے یکم جون 2022ء کو بینکاری سے متعلق تمام قوانین کو کالعدم قرار دیتی، لیکن شاطرانہ طریقے سے ریاستِ پاکستان کے اہم ترین ادارے سٹیٹ بینک کو، جو عوام کے سرمائے کے بغیر کوئی حیثیت نہیں رکھتا اور جو حکومتِ پاکستان کا معاشی اور معیشتی نمائندہ ہے، اس سے پٹیشن دائر کروائی جس نے اپنے ساتھ چار بڑے بڑے بینکوں کو ملا کر وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر دی۔
کچھ دنوں بعد اب سپریم کورٹ کا دروازہ کھلے گا، ہرکارے آوازیں لگائیں، سلمان اکرم راجہ بینکوں کی جانب سے پیش ہوں گے اور دوسری جانب سے وکلاء، علماء اور ماہرین ایک بار پھر اس اُمید میں دلائل دیں گے کہ فیصلہ ان کے حق میں آ ہی جائے گا۔ مگر منافقت کا عالم یہ ہے کہ ہمارے سیاسی علمائے کرام نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ ان چاروں بینکوں کا بائیکاٹ کریں جو اس پٹیشن میں شریک ہیں۔ کیا باقیوں کا سُودی کاروبار اس کے بعد حلال ہو گیا ہے۔
یہ ایسا کیوں نہیں کرتے کہ وہ حکومت جس نے سُود کے خلاف فیصلے پر عمل سے عملاً انکار کر دیا وہ جمعیت العلمائے اسلام کے پندرہ ووٹوں پر کھڑی ہے۔ اگر اس مسئلے میں احتجاج کرتے ہوئے حکومت چھوڑ دیں تو یہ جدید تاریخ کا بہت بڑا واقعہ ہو گا کہ پاکستان کے علمائے کرام نے سُود کے معاملے میں حکومت کا ساتھ چھوڑا اور حکومت گر گئی۔ یہ صرف دُنیا کی نیک نامی ہے جو ملے گی۔ اللہ کے ہاں تو اس کا اجرِ عظیم ہو گا۔