اُمتِ مسلمہ کی قوت اور بھارت
گذشتہ نصف صدی سے دُنیا بھر کے معیشت دان ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ غلبہ و اقتدار، اب اسلحہ و بارود یا افرادی قوت کی وجہ سے نہیں بلکہ معاشی بالادستی کا مرہونِ منت ہے۔ جو ملک جتنا معاشی طور پر مستحکم ہو گا، اس کی بات اتنی ہی سنی جائے گی۔ اسی بنیاد پر میرے ملک کا معاشی تجزیہ نگار بھی ہر روز ہمیں بھارت کی عالمی اہمیت سے ڈراتا رہتا ہے۔
یہ معیشت دان ہمیں ہرگز یہ نہیں بتاتا کہ بھارت صنعتی، معدنیاتی یا زرعی اعتبار سے اتنی ترقی ہرگز نہیں کر گیا ہے کہ دُنیا پر اس کا سکّہ چلے بلکہ وہ یہ منطق بگھارتا ہے کہ چونکہ بھارت کی آبادی ایک ارب 38 کروڑ ہے اس لئے یہ دُنیا کی بہت بڑی مارکیٹ ہے اور کوئی بھی بڑا صنعتی طور پر ترقی یافتہ ملک بھارت جیسی بڑی مارکیٹ کو کھونا نہیں چاہتا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بھارت کو ناراض نہیں کر سکتا۔
اس منطق اور دلیل کو ہی اگر سامنے رکھا جائے تو پھر اس وقت دُنیا بھر میں مسلمانوں کی آبادی ایک ارب 80 کروڑ ہے اور بھارت سے 25 کروڑ مسلمان آبادی کو نکال دیا جائے تو اس کی باقی آبادی ایک ارب 13 کروڑ رہ جاتی ہے۔ یہ ہے بھارت کی کل غیر مسلم آبادی۔ لیکن ان ایک ارب تیرہ کروڑ میں سے کتنے ایسے ہیں جو بدیشی مال خرید کر مارکیٹ کا حصہ بننے کے قابل ہیں۔ ایسے افراد کی تعداد بہت ہی کم ہے یعنی پچاس فیصد۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ساٹھ کروڑ بھارتی تو ایسے ہیں جو بھارت کی اپنی بنائی گئی مصنوعات بھی خریدنے کی اہلیت نہیں رکھتے چہ جائیکہ وہ بدیشی مال خریدیں۔ اس کے مقابلے میں ستاون مسلمان ممالک نے صنعتی، معدنی یا زرعی ترقی کی ہو یا نہ کی ہو مگر ان کی قوتِ خرید بھارت سے کئی گنا زیادہ ہے، خلیج کے عرب ممالک میں تو فی کس آمدنی اور تنخواہوں کا عالم یہ ہے کہ یورپ اور امریکہ کے پڑھے لکھے "پروفیشنل"، یہاں کچھ سال نوکری کر کے اپنے لئے آئندہ سالوں کی جمع پونجی اکٹھی کرتے ہیں۔
پوری دُنیا میں اس وقت مسلمانوں سے بڑی مارکیٹ اور کوئی نہیں ہے۔ مصنوعات خواہ موبائل فون ہوں یا گاڑیاں، جہاز ہوں یا پھر ملبوسات، خوراک اور پرفیوم وغیرہ ہوں، ان تمام اشیاء کے صارفین (Consumers) کی اکثریت مسلمان ملکوں میں پائی جاتی ہیں۔ بنگلہ دیش کے علاوہ، مسلم ممالک میں سے کوئی ایک بھی ملک ایسا نہیں، جس کے افراد، محنت مزدوری یا ملازمت کے لئے بھارت جاتے ہوں جبکہ اس کے مقابلے میں بھارت کے بجٹ میں بیرون ملک کام کرنے والوں کی بھیجی گئی رقوم میں سے 53.5 فیصد حصہ صرف خلیج کے مسلمان ممالک سے آتا ہے۔
مسلمان خلیجی ممالک کو اپنی زندگی کی گاڑی چلانے یا جہاز اُڑانے کے لئے ایک قطرہ تیل بھی بھارت سے نہیں منگوانا پڑتا جبکہ اگر عرب ممالک بھارت کو تیل کی ترسیل بند کر دیں تو اس کی زندگی کا پہیہ رُک جائے۔ بھارت روزانہ 30 لاکھ 90 ہزار بیرل تیل باہر سے منگواتا ہے۔ یہ دُنیا بھر میں تیل درآمد کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔ اس کے درآمدی تیل میں سے 52.7 فیصد تیل مسلمان ممالک سے آتا ہے جبکہ 14 فیصد امریکہ اور 15 فیصد افریقہ سے منگوایا جاتا ہے۔
چند ماہ پہلے بھارت نے روس سے سستا تیل منگوانا شروع کیا ہے لیکن وہ اس کی کل برآمد کا دو فیصد بھی نہیں ہے۔ دُنیا بھر میں بھارتی تارکینِ وطن کی تعداد تقریباً 3 کروڑ 20 لاکھ ہے۔ ان میں سب سے زیادہ امریکہ میں ہیں جن کی تعداد 44 لاکھ ساٹھ ہزار ہے، لیکن یہ وہ بھارتی ہیں جو وہاں کے کارپوریٹ سیکٹر میں انتہائی اعلیٰ عہدوں پر فائز تو ہیں، کمپیوٹر، صحت اور تعلیم کے شعبے سے وابستہ بھی ہیں مگر ان بھارتیوں نے امریکہ کو ہی اپنا وطن بنا لیا ہے اور وہ اپنے "دیش" بھارت کو اپنی آمدن کا بہت کم حصہ سالانہ بھیجتے ہیں۔ یہ صرف گیارہ ارب ڈالر ہیں۔ اس کے برعکس صرف ایک مسلمان ملک، متحدہ عرب امارات میں کام کرنے والے 31 لاکھ بھارتی جن کی اکثریت وہاں مزدوری کرتی ہے، وہ چودہ ارب ڈالر سالانہ بھارت بھیجتی ہے۔
سعودی عرب میں 28 لاکھ بھارتی ہیں اور وہ بارہ ارب ڈالر سالانہ بھیجتے ہیں، جبکہ قطر سے 4 ارب ڈالر، کویت سے پانچ ارب ڈالر اور مسقط عمان سے 3 ارب ڈالر ہر سال بھارت آتے ہیں۔ ابھی ان ممالک میں ملائیشیا، انڈونیشیا، بحرین اور دیگر مسلمان ممالک شامل نہیں ہیں جن میں بھارتیوں کی کثیر تعداد موجود ہے۔ بڑے غیر مسلم ممالک یعنی کینیڈا سے تین ارب اور برطانیہ سے بھی صرف تین ارب ڈالر ہی بھارتی اپنے وطن بھجواتے ہیں۔
اگر مسلمان ممالک صرف ان دو معاملات میں ہی آنکھیں دکھائیں تو بھارتی معیشت دھڑام سے نیچے گر جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور اہم پہلو وہ تمام صارفین (Consumers) ہیں جو خلیج کے مسلمان ممالک میں بھارتی اشیاء استعمال کرتے ہیں۔ بھارت کی خلیج کے چھ ممالک میں برآمدات (Exports) کا حجم 2020-21ء میں 27.8 ارب ڈالر تھا جبکہ وہ 2021-22ء میں بڑھ کر 44 ارب ڈالر ہو چکا ہے۔ جبکہ دو طرفہ تجارت کا حجم اس وقت 154.73 ارب ڈالر پر محیط ہے۔
یہ گذشتہ سال 87.4 ارب ڈالر تھا۔ اس ایک سال میں دو طرفہ تجارت میں بیش بہا اضافہ ہوا ہے۔ یہ ایک چھوٹی سی تصویر ہے جو آپ کے سامنے رکھی گئی ہے۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ اگر ایک دفعہ، اُمت ِمسلمہ متحد ہو جائے تو پھر بھارت تو دُور کی بات ہے دُنیا کے کسی بھی ملک کے لئے اپنی معیشت کا پہیہ چلانا مشکل ہو جائے گا۔
دُنیا کے بڑے بڑے ممالک جو کاریں، جہاز، ایئر کنڈیشنر اور دیگر سامانِ آسائش بناتے ہیں اور ساتھ اسلحہ بھی فروخت کرتے ہیں، ایسے تمام ممالک کی معیشتوں کا دارومدار ہی مسلمان ممالک کو مال فروخت کرنے پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 1920ء میں قائم ہونے والی شدھی اور سنگھٹن کی تحریکوں سے جنم لینے والی راشٹریہ سیوک سنگھ اور اس کی کوکھ سے پیدا ہونے والی سیاسی پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی کے غبارے سے ایک دم ہوا نکل گئی جب ایک چھوٹے سے عرب ملک مسقط جس کی آبادی صرف چھ لاکھ تیس ہزار ہے اس نے نوپور شرما اور نوین جندل کی گستاخانہ گفتگو کی بنیاد پر بھارتی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔
گذشتہ ایک سو سال سے ہندو توا تصور کے بانیان، گول وارکر اور ساوریکر بھارت کے ہندوئوں کو یہ لوریاں دیتے آئے ہیں کہ ہمالیہ سے سری لنکا تک کی سرزمین دیوتائوں کی مقدس اور پوتر سرزمین ہے اور اس پر مسلمان یا کسی دیگر مذہب کے ماننے والوں کے پائوں ناپاک یعنی ملیچھ ہیں، ہمیں اس سرزمین کو ان ناپاکوں سے پاک کرنا ہے اور جب ان سے ہماری یہ آخری لڑائی (یُدھ) شروع ہو گی تو ہمالیہ سے دیوتا ہماری مدد کو اُتریں گے۔ لیکن صرف عرب مسلمان ممالک کے معمولی سے بائیکاٹ نے ہی بھارت کے متعصب ترین ہندوئوں کے بھی پائوں اُکھاڑ دیئے ہیں۔
مسقط کے مفتی کا فیصلہ اس دور کی۔ یاد دلاتا ہے جب مسلم اُمت خلافتِ عثمانیہ کے تحت متحد تھی تو فرانس کے ایک تھیٹر "Comedie - Francais" نے مارچ 1890ء میں ایک گستاخانہ ڈرامہ سٹیج کرنا چاہا۔ سلطان عبدالحمید دوم کے حکم پر فرانس میں خلافتِ عثمانیہ کے سفیر نے سلطان کی دھمکی پہنچائی اور ڈرامہ سٹیج ہونے سے روک دیا گیا۔
اس کے بعد اس ڈرامے کے ڈائریکٹر برونیئر (Bronier) نے لندن کے لائسیم (Lyceum) تھیٹر میں اسے چلانے کا معاہدہ کیا، سلطان عبدالحمید دوئم نے ملکہ وکٹوریہ، جس کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا، اسے ویسا ہی ایک خط لکھا جس کے جواب میں ملکہ نے پورے برطانیہ میں اس ڈرامے پر پابندی لگا دی۔
یہ ہے مسلم اُمت کی یکجہتی کی قوت جس کی وجہ سے آج مغربی دُنیا نہ ہمارے پاس کسی ایٹم بم اور فوجی قوت سے خوفزدہ ہے اور نہ ہی ہماری معاشی ترقی سے ڈرتی ہے۔ وہ 57 علیحدہ علیحدہ مسلمان ریاستوں سے بھی خوفزدہ نہیں ہے، اس کا خوف صرف ایک مسلم اُمت، ایک متحد قوم اور ایک خلافت کے تصور سے ہے۔