Thursday, 28 March 2024
  1.  Home/
  2. Orya Maqbool Jan/
  3. Taliban Daur e Hukumat: Haqaiq (2)

Taliban Daur e Hukumat: Haqaiq (2)

طالبان دورِ حکومت: حقائق (2)

طالبان دور حکومت کے بارے میں اتنے افسانے تراشے گئے ہیں، میڈیا پر اسقدر جھوٹ بولا گیا ہے اور زبان زدِ عام ایسے قصے مشہور کیے گئے ہیں جن کا حقائق سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ طالبان کو جس طرح کا تباہ حال افغانستان ملا تھا اسے مجاہدین کی آپس کی خانہ جنگی نے اس حال پر پہنچا دیا تھا کہ اسکول، ہسپتال، سرکاری ادارے، مواصلاتی نظام سب برباد ہو چکا تھا۔ کابل نجیب اللہ کے دور حکومت میں ایک آباد اور ہنستا بستا شہر تھا جسے گلبدین حکمت یار اور احمد شاہ مسعود کی فوجوں نے کھنڈر بنادیا تھا۔ سات سالہ خونریز خانہ جنگی کے دوران پاکستان سے بہت کم لوگ ایسے تھے کہ وہاں جانے کی جرأت کرتے کہ کہیں کسی گروپ کے کمندان کے ہتھے نہ چڑھ جائیں۔ صرف اور صرف سمگلنگ کے قافلے تھے جو ہر راستے پر مختلف گروپوں کی چیک پوسٹوں پر بھتہ دے کر گزرتے۔ طالبان کا آغاز ہی اس بھتہ خوری کے خاتمے سے ہوا۔

پاکستانی سرحدی شہر چمن کے بالمقابل سرحد کی دوسری جانب افغانستان کا ایک چھوٹا سا شہر سپن بولاک ہے۔ یہ شہر انگریز ہندوستان کے زمانے سے سمگلروں کی جنت سمجھا جاتا رہا ہے۔ اس شہر کا ایک قصبہ اڈہ کہول ایسا ہے جس کے گھروں کے دروازے ایک سمت سے پاکستان اور دوسری سمت سے افغانستان میں کھلتے ہیں۔ یوں یہ گھر نہیں ہیں سامان کی نقل و رسد کی عارضی پناہ گاہیں ہیں۔ اس شہر سے لے کر قندھار شہر تک جانے والی ہر شاہراہ پر ان بدمعاش بھتہ خور کمانڈروں کی چیک پوسٹیں تھیں۔ پاکستان جس نے ان افغان مجاہدین کے لیے چودہ سال قربانیاں دی تھیں، یہ سمجھ رہا تھا کہ اب کم از کم ان کے قافلوں کو کچھ نہیں کہا جائے گا اور تمام افغان جہادی گروہ انہیں راستہ دے دیں گے۔ حیران کن بات تھی کہ جب 35 ٹرکوں کو 1994ء میں سرحد عبور کرتے ہی سپن بولاک پر روک لیا گیا۔ اس وقت تک کسی کو علم نہ تھا کہ قندھار میں ملا محمد عمر کی سربراہی میں طالبان تشکیل پا چکے ہیں۔ طالبان نے 24 جون 1994ء کو جمعہ کے دن قندھار اور پاکستان کی سڑک پر واقع کمانڈر دارو خان کی چیک پوسٹ پر حملے سے اپنی پہلی کارروائی کا آغاز کیاتھا۔ یہ پوسٹ ایسی جگہ پر تھی جہاں تین مختلف سڑکیں آپس میں ملتی تھیں۔ طالبان صرف بارہ تھے جبکہ اس پوسٹ پر مرنے والوں کی تعداد بیس تھی۔ دارو خان نے ہتھیار ڈال دیئے اور پھر اس کے چند دنوں کے اندر اندر قندھار اور اس کے اردگرد کے راستوں پر بیٹھے ان بھتہ خور کمندان کا خاتمہ ہوتا چلا گیا۔ یہ سب بھاگ کر سپن بولاک جاکر پناہ گزین ہو گئے اور وہیں سے اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے تھے۔ اسی جگہ پینتیس پاکستانی ٹرک یرغمال بنے ہوئے تھے۔

11 نومبر 1994ء کو صرف چالیس طالبان نے اس شہر کو فتح کیا اور وہ پینتیس پاکستانی ٹرک جو یرغمال بنائے گئے تھے انہیں آزاد کروایا۔ اس رات بی بی سی پر جو خبر نشر ہوئی اس میں پہلی دفعہ طالبان کا نام دنیا میں گونجا۔ اس سے پہلے پاکستان، امریکہ، ایران بلکہ خطے کا کوئی ملک بھی اس نام سے آشنا نہ تھا۔ وہ انچاس لوگ جو ملامحمدعمرمجاہد کی سربراہی میں اکٹھا ہوئے تھے انہوں نے سب سے پہلے پاکستان کو اس بہت بڑی بدنامی سے نکالا کہ پاکستان نے افغانوں کے لیے چودہ سال قربانیاں دیں اور اس کا صلہ یہ ملا تھا کہ آج اسی پاکستان کے تاجروں کا سامان جو این ایل سی کے35 ٹرکوں میں جا رہا تھا اسے یرغمال بنا لیا گیا۔ یہ اتنا بڑا واقعہ تھا کہ قندھار سے متصل صوبے بلوچستان کے حکام ایک دوسرے سے پوچھتے پھرتے تھے کہ یہ طالبان کون ہے۔ میں نے لاتعداد ایسی صوبائی سطح کی میٹنگوں میں شرکت کی ہے جن میں خفیہ ایجنسی والوں کو بھی اس گروہ کے بارے میں کچھ علم نہ تھا۔ حتیٰ کہ ملا محمد عمر کی ذات کو بھی کئی برسوں تک افسانہ سمجھا جاتا رہا۔ دوسری جانب 11 نومبر 1994 کے صرف دو دن بعد 14 نومبر کو قندھار شہر، وہاں موجودگلبدین حکمت یار کے بد نام زمانہ کمانڈر سرکاتب کی معمولی مزاحمت کے بعد فتح ہوا، اورجب تحریکِ اسلامی طالبان کی باضابطہ حکومت کا اعلان ہوا تو دنیا بھر کے میڈیا پر صرف طالبان کا نام گونج رہا تھا۔

مغربی دنیا کے لیے حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ افغانستان جہاں روس کے جانے کے بعد بڑی محنت سے گروہی فسادات اور لڑائی پیدا کی گئی تھی اس میں یہ چھوٹا سا گروہ اتنے سکون اور اطمینان سے کیسے برسراقتدار آ گیا اور وہاں موجود لوگوں نے بھی اجنبی گروہ کو تسلیم کیسے کر لیا۔ دوسری حیرت پاکستانی دشمن ممالک اور خود پاکستان کے پشتون سیاسی رہنماؤں کو بھی تھی کہ انہوں نے آٹھ سال سے افغانستان کے شہریوں میں ایک پروپیگنڈہ زور و شور سے کیا تھا افغانستان کا امن صرف پاکستان نے تباہ کیا ہے، یہی افغانوں کا قاتل ہے۔ انکے لئے بھی حیرت تھی کہ اس پراپیگنڈے کی موجودگی میں یہ طالبان کہاں سے آگئے جو پاکستان کے خیر خواہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور میں پاکستان کا تقریبا ہر صحافی جو خود کو "باخبر" سمجھتا تھا، اس نے بھارتی اثرورسوخ سے متاثر افغان اور پاکستانی پشتون سیاستدانوں نے مل کر یہ شور مچایا کہ طالبان کو آئی ایس آئی نے بنایا ہے۔ حالانکہ آغاز کے ایک سال تک پاکستان کے خفیہ اداروں کے فرشتوں کو بھی خبر نہ تھی کہ یہ طالبان کون ہیں۔ وہ ہم سے پوچھتے پھرتے تھے کہ ملا محمد عمر واقعی کوئی فرد ہے یا ایک افسانہ ہے۔ اگر ہے تو اس کا ہم نے پہلے کبھی نام کیوں نہیں سنا۔ وہ یہ درخواست کرتے کہ کون ہے جو ان سے ملاقات کروائے۔

11 نومبر 1994ء کو پاکستان کے پینتیس ٹرکوں کو آزاد کروانے سے لے کر اکتوبر 2001ء کے آٹھ سالوں میں ایک لمحہ بھی ایسا نہیں بتایا جا سکتا جب طالبان نے پاکستان سے اپنی محبت اور دوستی میں تھوڑی سی بھی کمی آنے دی ہو۔ شروع دن سے پاکستان سے گاڑیوں کے اغواء کا ایک مستقل دھندہ تھا جو افغانستان لے جا کر بیچی جاتیں یا پھر ان کے پرزے کرکے مارکیٹ میں لائے جاتے۔ طالبان دور میں پاکستان کے ہزاروں افراد اور لاتعداد انتظامیہ کے افسران گواہ ہیں کہ پاکستانی اغوا شدہ گاڑیاں وہاں پکڑی جاتیں اور پاکستانی اپنی گاڑی شناخت کرکے واپس لاتے۔ 1947ء میں ہمیں ڈیورنڈ لائن ورثے میں ملی تھی۔ اس وقت سے لے کر 1997ء تک پچاس برسوں میں افغان حکومتوں نے پاکستان کو اس کی پیمائش اور برجیاں لگانے کی اجازت نہیں دی تھی، کیونکہ وہ اسے عالمی سرحد تسلیم نہیں کرتے تھے۔ طالبان کے دور میں پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ سروے آف پاکستان نے اس سرحد کی پیمائش کی اور برجیاں بھی لگائیں۔ میں خود چاغی میں ڈپٹی کمشنر تھا۔ افغانستان کیساتھ سب سے بڑا بارڈر اسی ضلع کا ہے، میرے سامنے اس ڈیورنڈ لائن کا احترام کرتے ہوئے برجیاں لگیں۔ اس سب کے باوجود میڈیا میں ایک جھوٹا بیان چلایا گیا اور آج تک چلایا جاتا ہے کہ طالبان ڈیورنڈ لائن کو سرحد تسلیم نہیں کرتے تھے۔

بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے عام لوگ طالبان کی عدالتوں میں اپنے کیس لے کر جاتے تھے، اوراپنے بھاگے ہوئے مجرموں کوانکی عدالتوں سے سزا دلواتے تھے۔ یہاں تک کہ اگر پاکستان سے کوئی فراڈ سے پیسے لے کر افغانستان چلا گیا ہوتا تو طالبان اس سے بھی پیسے واپس دلواتے۔ لیکن پاکستان میں اس کے برعکس آج تک یہ پروپیگنڈا کیا جاتا رہا ہے کہ وہ پاکستان کے مجرموں کو پناہ دیتے تھے۔ یہ جھوٹ صرف ایک مکتبہ فکر کے افراد نے تراشا تھااور وہ بھی چند ایک افراد کے بارے میں جو مجاہدین کے دور سے وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ کوئی پاکستانی مفرور طالبان کی سرپرستی میں نہیں رہ سکتا تھا۔ نواب اسلم رئیسانی کے بھائی اسماعیل رئیسانی سر لٹھ میں 80 کی دہائی سے اپنا کیمپ چلا رہا تھا یہاں تک کہ مجاہدین کی بھی اسے سرپرستی حاصل تھی لیکن طالبان کے آتے ہی وہ کیمپ ختم کر دیا گیا۔ (جاری ہے)

About Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan is a columnist, writer, poet and civil servant from Pakistan. He has written many urdu columns for various urdu-language newspapers in Pakistan. He has also served as director general to Sustainable Development of the Walled City Project in Lahore and as executive director ECO, Cultural Institute, Tehran and information secretary to the government of the Punjab.

Check Also

Shah e Iran Ke Mahallat

By Javed Chaudhry