نظریاتی کشمکش (2)
پورے ہندوستان کو کسی ایک مذہب کا وطن اور جاگیر تصور کرنے کا نظریہ گزشتہ پانچ ہزار سال کی ہندوستانی تاریخ میں صرف تین سو سال پہلے کی پیداوار ہے۔ برصغیر کے اس خطے کو اہلِ ایران اس لیے ہندوستان کہتے تھے، کہ یہاں سیاہ رنگ کے لوگ آباد تھے۔ "ہند" کا لفظ سیاہ رنگ کے لیے فارسی میں استعمال ہوتا ہے۔ حافظ کا مشہور اور متنازعہ شعر یوں ہے
اگر آں ترکِ شیرازی بدست آرد دلِ ما را
بخال "ہندوش" بخشم سمرقند و بخارا را
ترجمہ: اگر شیراز کا وہ ترک لڑکا میری طرف ملتفت ہو جائے تو میں اس کی گال پر موجود کالے تل کے بدلے سمرقند و بخارا کے شہر قربان کر دوں۔
اس مذہب کا قدیم ترین نام "سناتن دھرم" ہے، جو ان کی چار مذہبی کتابوں (1) رگ وید (2) سام وید(3) یجر وید اور (4) اتھروا وید میں ملتا ہے۔ اسی لئے آج کے کٹر ہندو اپنے آپ کو ہندو نہیں بلکہ ویدانتی کہتے ہیں۔ کئی ہزار سال قبل سے تہذیبی طور پر آباد یہ خطہ، مختلف راجوں کے راجواڑوں میں ہمیشہ منقسم رہا ہے۔
ہر خطے اور علاقے کے اپنے اپنے دیوی دیوتا ہیں جو لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ لیکن ان سب کو ویدوں میں بنائے گئے تین بنیادی اوتاروں کی چھتری تلے سمجھا جاتا ہے یہ تینوں ہیں، برہما (تخلیق کا ذمہ دار)، وشنو (پالن ہار) اور شیو (تباہی نازل کرنے والا)۔ پورے بھارت میں آپ کو شیو کے مندر اکثریت میں نظر آئیں گے کیونکہ اسے جلد راضی ہو جانے والا اوتار سمجھا جاتا ہے جس کے بے شمار نام ہیں جیسے بھولے ناتھ، شنکر مہاراج وغیرہ۔
تین دیوتائوں کی اس بنیادی چھتری تلے جدید ترین دور کے کسی بھی شخص کو کسی بھی علاقے میں، دیوی یا دیوتا کا درجہ دے کر اس کی مورتی مندر میں سجا کر پوجا کی جا سکتی ہے۔ جدید بھارت میں جو سب سے بڑا مندر تعمیر کیا گیا ہے وہ اکھشردھام مندر ہے، جو دلّی میں جمنا کے کنارے واقع ہے۔ ہندو اسے جدید تاج محل کہتے ہیں۔
میں جب 2007ء میں وہاں داخل ہوا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ مندر کے مرکز میں جس شخصیت کی مورتی سب سے بلند اور سونے میں جڑی ہوئی تھی وہ سوامی نرائن کی تھی جو اپریل 1781ء میں پیدا ہوا اور یکم جون 1831ء میں اُترپردیش میں فوت ہو گیا۔ لیکن اس کے بارے میں یہ تصور عام ہو گیا تھا کہ اس سوامی کو بھگوان نے ایسی "شکتی" عطا کی تھی کہ اس کے توسط اور وسیلے سے ایشور تک پہنچا جا سکتا ہے، مرادیں پوری کروائی جا سکتی تھیں۔
اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندو مذہب نے شروع دن سے ہی اپنے لیے ایک وسیع گنجائش رکھی ہے کہ بڑے بنیادی اوتاروں کے زیرسایہ آپ جس کسی کو بھی اپنے لیے "نجات دہندہ" اور "مرادیں پوری کرنے والے" سمجھتے ہیں، اس کا بُت مندر میں نصب کریں اور اس کی مورتی پوجا کر کے مرادیں مانگیں۔ اسی تصور کے تحت ہندوستان میں جو کوئی بھی یہاں کے ذات پات میں اُلجھے ہوئے معاشرے کی اصلاح کرنے کے لیے ایک مصلح کی صورت اُٹھا، انہوں نے اُسے اوتار کا درجہ دیا اور اس کا بُت کسی مندر میں سجا کر اس کی پوجا شروع کر دی۔
تین بڑے علاقائی مذہب ہندوستان سے اُبھرے۔ جین مت جو قتل و غارت اور اہنسا کے خلاف اُبھرنے والا بہت مقبول مذہب تھا۔ اس کی تعلیمات میں گوشت انڈے تک کھانا بھی حرام تھا۔ ہندوئوں نے اس مذہب کے بانی مہاویر کو وشنو کے اوتار کا درجہ دیا اور اس کی تعلیمات پر خود بھی عمل کر کے گوشت، مچھلی، انڈے وغیرہ ترک کرنے کو اعلیٰ روحانی مقام کے حصول کا ذریعہ قرار دے دیا۔
اس کی توجیہہ یہ نکالی کہ "مہاویر" دراصل وشنو سے متاثر تھا کیونکہ وشنو "ماس مچھی" نہیں کھاتا تھا۔ یہی سلوک "گوتم بدھ" کے ساتھ کیا گیا اور "گورونانک" تو ابھی کل کی بات ہے کہ اس کی تصویریں اُٹھا کر مندروں میں رکھی گیں، گروگرنتھ کا پاٹ شروع کیا گیا اور وہ ہندو جو گورونانک کو مانتے تھے وہ "بالمیکی" کہلانے لگے۔ اس کے برعکس ایسے تمام مذاہب جن کی ابتداء ہندوستان سے باہر ہوئی تھی وہ اس ویدانتی مذہب کی چھتری تلے نہ لائے جا سکے، جیسے عیسائیت، مسلمان اور پارسی۔ کیونکہ ان سب کی روایات، اقدار اور تہذیبی تاریخ بالکل اس خطے سے جدا تھی۔
اسلام تو اس لیے بھی ان سے بالکل الگ تھلگ رہا کیونکہ اس میں ہندومت والی وہ رنگینی، دیوی دیوتائوں کی دیو مالا اور رنگ و موسیقی کی چاشنی موجود نہ تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ صوفیاء نے اس خطے میں دین پھیلانے کے لیے مصلحت کے طور پر کچھ جگہ آسانیاں پیدا کیں جیسے قوالی، عرس اور دیگر تقریبات وغیرہ۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی پورے بھارت میں مسلمان صوفیاء کے مزاروں پر مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندوئوں کا بھی بہت بڑا ہجوم ہوتا ہے۔
ہندو توا کا نظریاتی تصور اسی تقسیم پر مبنی ہے کہ جو شخص قدیم نسلوں سے تعلق رکھتا ہے، وہ یہاں رہنے کا حق دار ہے، خواہ وہ ہندو، یعنی سناتن دھرم کو ماننے والا ہو یا پھر ہندو اوتاروں کے مذاہب، جین مت والا یا بدھ مت کا پیروکار۔ تھوڑی سی رعایت وہ سکھوں کو بھی دیتے ہیں، لیکن نسلاً ہندوستان سے باہر آنے والے ہرگز یہاں کے باسی نہیں ہو سکتے ہیں۔
یہ دُنیا کا واحد مذہبی تعصب ہے کہ اگر آپ ان کا مذہب قبول بھی کر لیں پھر بھی آپ قابلِ قبول نہیں ہیں کیونکہ آپ یہاں کے نسلی باشندے نہیں۔ یہ تصور دراصل ویدانتی مذہب کے ذات پات کے ڈھانچے کی وجہ سے ہے۔ وید کی تعلیمات انسانوں کو چار گروہوں میں تقسیم کرتی ہیں۔ سب سے پہلے مذہبی رہنما یعنی برہمن جو دیوتا "برہما" کے سر اور چہرے سے بنائے گئے۔
دوسرے حکمرانی اور جنگ کرنے والے "کھشتری" جو اس کے سینے سے بنائے گئے، تیسرے "ویش" جو کاروبار اور زراعت کرتے ہیں اور وہ پیٹ سے اور آخری "شودر" جو پائوں سے بنائے گئے تھے جن کا کام خدمت کرنا ہے۔ ان چاروں اہم ذاتوں سے جو لوگ وقت کے ساتھ ساتھ نکالے گئے، ایسے گروہوں کی حیثیت معاشرے میں شودروں سے بھی بدتر قرار دے دی گئی تھی، یہ "دِلت" کہلاتے ہیں۔ ان کو پانچواں ورنا یا "پنجمہ" بھی کہتے ہیں۔ یہ ناپاک ہیں ملیچھ ہیں۔
چونکہ اس پورے ذات پات کے نظام میں باہر سے آئے ہوئے مسلمان، عیسائی، یہودی اور پارسی افراد کہیں نہیں ٹھونسے جا سکتے اسی لیے انہیں بھارت دیش سے باہر پھینکنے کا نعرہ ہندو توا کا بنیادی نعرہ بن گیا، کیونکہ ایک راجپوت کھشتری جو مسلمان ہو چکا تھا وہ اگر واپس ہندو ہو جائے تو کھشتری بن جائے گا، لیکن اگر ایک مسلمان مغل ہندو مت قبول کر لے تو وہ پھر بھی ملیچھ کا ملیچھ ہی رہے گا۔ کیونکہ وہ تو برہما کے سر، سینے، پیٹ یا پائوں کسی ایک سے بھی پیدا نہیں کیا گیا۔
لیکن ہندوتوا کے اس تصور کے ساتھ ساتھ بھارت میں ایک اور نرم خو (Soft) ہندوتوا، کا نظریہ بھی پروان چڑھایا جاتا رہا اور آج کل اس نظریے کو خصوصی وجہ سے ایک بار پھر اُٹھایا جا رہا ہے۔ یہ نظریہ بھی راشٹریہ سیوک سنگھ کے بہت بڑے پرچارک دین دیال اپھدیائے نے پیش کیا تھا۔
یہ شخص 23 ستمبر 1916ء کو پیدا ہوا اور جوانی سے ہی راشٹریہ سیوک سنگھ اور ہندوتوا کے نظریہ سے وابستہ ہو گیا، اس نے آر ایس ایس کا نظریاتی مینی فیسٹو "جن سنگھ" تحریر کیا اور یہ 1940ء سے مسلسل ایک رسالہ بھی نکالتا رہا، جس کا نام "راشترہ دھرما" تھا جو ہندونیشنلزم کا علمبردار تھا۔ (جاری ہے)