مذہبی سیاسی قوتیں اور موجودہ امریکہ مخالف تحریک
اگر کسی شخص کا یہ گمان ہے کہ دس اپریل کو پاکستانی قوم عمران خان کے لئے سڑکوں پر نکلی تھی تو وہ بائیس کروڑ عوام کے ماضی سے بالکل بے خبر ہے۔ عمران خان کے لئے نکلنا ہوتا تو یہ قوم 2014ء کے دھرنے میں بھی اسی طرح دیوانہ وار نکلتی۔ اس وقت تک اس کے دامن پر اقتدار کے داغ دھبے بھی موجود نہ تھے۔ یہ قوم چند سال پہلے علامہ خادم حسین رضویؒ کے لئے بھی ہر گز نہیں نکلی تھی۔ وہ تو ان کے نام سے بھی ناواقف تھی۔
ممتاز قادریؒ کے جنازے سے لے کر خادم حسین رضویؒ کے جنازے تک باہر آنے والا ہجومِ عاشقاں سیدالانبیاء ﷺ صرف ناموسِ رسالت سے وارفتگی کی علامت تھا۔ یہ قوم جس کا نام علامہ محمد اسد نے "پاکستان کی اُمتِ مسلمہ" رکھا تھا، وہ ہمیشہ اعلیٰ و ارفع مقاصد کے لئے گھروں سے سر پر کفن باندھ کر نکلی۔ آخری دفعہ، بحیثیت مجموعی لوگ 1977ء میں نظامِ مصطفے کی تحریک، میں نکلے جس کا انہیں بہت تلخ ثمر ملا۔
یہی وجہ ہے کہ اکثر تجزیہ نگار اس بات پر متفق تھے کہ اب شاید یہ قوم دوبارہ اس طرح باہر نہ نکل سکے۔ لیکن دس اپریل کو اس قوم نے ثابت کیا کہ وہ ابھی زندہ ہے، صرف مقصد بلند ہونا چاہئے۔ یہ قوم آج خالصتاً امریکہ سے نفرت اور قومی وقار کے لئے باہر نکلی ہے۔ آج عمران خان، امریکی سرپرستی کو تسلیم کرنے کا نعرہ بلند کرے، لوگ گھروں کو واپس لوٹ جائیں گے۔
ہر دفعہ ایسا ہوا ہے کہ قوم جب بحیثیت مجموعی باہر نکلی تو مفاد پرست سیاست دانوں کا ایک طبقہ اس قوم کے پُر شور دریا سے الگ تھلگ جا کھڑا ہو گیا۔ مجھے کسی اور طبقے سے کبھی کوئی گِلہ نہیں کہ ان کا تو مقصد ہی ذاتی اقتدار ہوتا ہے۔ لیکن دُکھ یہ ہے کہ پاکستان کی مذہبی سیاسی قیادت ایسے وقت میں، جب عوام کا سمندر حالات بدلنے کی قوت رکھتا تھا، یہ اس سے الگ ہو گئی۔
تحریکِ پاکستان کے وقت قوم قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے گرد اس لئے جمع ہو رہی تھی کہ وہ مسلمانانِ ہند کو بیک وقت انگریز اور ہندو کی غلامی سے نجات دلانے کے لئے تحریک چلا رہے تھے۔ اس وقت مذہبی سیاسی قیادت جمعیت العلمائے ہند اور مجلس احرار کے گرد گھومتی تھی جو صرف انگریز سے آزادی چاہتی تھی، ہندو سے نہیں۔
جماعتِ اسلامی ابھی اپنی طفولیت میں تھی اور خاکسار ایک نیم عسکری جتھہ تھا۔ مذہبی سیاسی قیادت قائد اعظمؒ کے اسلامی ریاست کے نعرے سے اختلاف نہیں کر سکتی، لیکن شاطرانہ طریقے سے انہوں نے قائد اعظمؒ کی ذاتی شخصیت کو نشانہ بنایا۔ ان کے لباس اور انگریزی وضع قطع پر بات ہوئی، بلکہ ان کی ذاتی زندگی میں بیوی پر کفر کے فتوے لگا کر انہیں بھی کافرِ اعظم پکارا گیا۔
اس وقت تک اسرائیل نہیں بنا تھا ورنہ شاید انہیں اسرائیلی اور یہودی ایجنٹ کے طعنے بھی مل جاتے۔ ان مذہبی سیاسی قوتوں کے برعکس اللہ نے جن روحانی بزرگوں کو بصیرت کی آنکھ عطا کی تھی، ان تمام مشائخ، پیرانِ عظام نے عوامی سیلاب کا احترام کیا اور قائد اعظمؒ کا ساتھ دیا اور یہ ملک بن گیا۔ لیکن سیاسی علمائے کرام کی قائد اعظمؒ اور مسلم لیگ سے دُوری اور نفرت کا ایسا خوفناک نتیجہ نکلا کہ ہم آج تک اس ملک میں ایک حقیقی اسلامی نظام کے نفاذ کو ترس رہے ہیں۔
قائد اعظمؒ جس "ریاستِ مدینہ" کو قائم کرنا چاہتے تھے اس میں رہنمائی تو ان علمائے کرام نے دینا تھی لیکن سیاسی مذہبی جماعتوں نے نفرت کی ایک ایسی خندق کھود دی تھی جس سے فائدہ اُٹھا کر مسلم لیگ کی قیادت کو سیکولر، لبرل قوتوں نے اپنے ہاتھ میں لے لیا اور آج بھی ایسا ہی ہے۔
اس قوم نے 1977ء میں جب عوامی قوت کا مظاہرہ کیا تو اصغر خان سے لے کر مفتی محمود تک تمام رہنمائوں نے نیلا گنبد لاہور سے قرآنِ پاک گلے میں ڈال کر تحریک کا آغاز کیا، اس دفعہ مذہبی سیاسی قیادت نے اپنی جبیں ضیاء الحق کے آستانہ ٔعالیہ پر ایسی جھکائی کہ وہ قوم جو نظامِ مصطفے کے نعرے کی گونج سن کر باہر نکلی تھی، اسے مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں غرق کر دیا۔
آج پاکستان کی سیاسی مذہبی قوت تین بڑے گروہوں میں تقسیم ہے۔ دیو بندی مسلک کی اکثریت مولانا فضل الرحمن کے مضبوط پنجوں تلے محوِ خرام ہے۔ بریلوی مسلک کی اکثریت علامہ خادم رضوی صاحب کی تحریکِ لبیک کے تحت منظم ہے اور مولانا مودودی کے چشمۂ فیض سے سیراب ہونے والے سراج الحق کی سیاسی قیادت میں اکٹھے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن تو حکومت کو پیارے ہو گئے، اور ایسا وہ گذشتہ تیس سال سے کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اب جو انجام حکومت کا ہو گا، وہی ان کی قسمت میں بھی لکھا جائے گا۔ رہ گئی دو قوتیں، جماعتِ اسلامی جس نے امریکہ کے خلاف اس عوامی طوفان سے علیحدہ، سُود کے خلاف اپنی الگ مہم شروع کر دی ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے قیامِ پاکستان کی تحریک میں شمولیت کی بجائے، جماعتِ اسلامی الگ تھلک اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے اپنی جدوجہد کرتی رہی۔
تحریکِ لبیک بھی اس وقت امریکہ کے خلاف نکلنے والے سیلاب سے بالکل علیحدہ ناموسِ رسالت ﷺ کے لئے اپنے جلسے کر رہی ہے۔ حیرت ہے دونوں امریکہ مخالف ہیں اور دونوں ریاستِ مدینہ بھی چاہتی ہیں مگر آج یہ دونوں عمران خان پر ویسے ہی اعتراضات کر رہی ہیں، جیسے تحریکِ پاکستان کے وقت مسلم لیگ کی قیادت پر کئے جاتے تھے۔ کہ یہ دین سے دُور ہیں، ان کی ذاتی زندگیاں مغرب زدہ ہیں، یہ دراصل انگریز کے ایجنٹ ہیں۔
اس وقت صاحبانِ بصیرت صوفیاء کرام ہی جانتے تھے کہ خلقت کے دلوں میں بھی محبت اللہ ڈالتا ہے۔ اسی لئے انہوں نے قائد اعظمؒ جیسے بظاہر "مغرب زدہ " مسلمانوں کا ساتھ دیا اور یہ ملک بن گیا۔ موجودہ سیاسی مذہبی قیادت سے صرف ایک سوال ہے کہ سُود کا نظام کیا پاکستان پر عالمی طاقتوں کے ایجنڈے پر قائم نہیں ہوا۔ یہ نظام تو دُنیا بھر میں نافذ ہی 1944ء میں "برٹین ووڈ" معاہدے کے تحت امریکہ نے کیا ہے۔ پاکستان جب تک امریکی غلامی سے نجات نہ حاصل کر لے، سُود کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔
سراج الحق صاحب کی جماعتِ اسلامی بھی اس عالمی مالیاتی نظام سے باہر نکلے بغیر ملک میں سُود ختم نہیں کر سکتی لیکن آج جب قوم اس امریکی غلامی سے نجات کے لئے باہر نکلی ہے تو اس وقت قوم کے اس سیلاب کو بانٹنے کے لئے انہوں نے سُود کے خلاف تحریک کا آغاز کر دیا ہے۔ اسی طرح ناموسِ رسالت کا مسئلہ بھی اُمت مسلمہ نے پیدا نہیں کیا۔ اس اُمت کا تو بچہ بچہ سیدالانبیاء ﷺ کے نام پر جان دینے کو تیار ہے۔
پوری دُنیا میں گذشتہ چالیس سال سے اس فتنے کا سرپرست اور پالنے والا امریکہ اور اس کی مغربی استعماری قوتیں ہیں، جنہوں نے اقوامِ متحدہ سے لے کر یورپی یونین تک ہر وقت پاکستان پر پریشر ڈالا۔ امریکہ سے علیحدہ ہوئے بغیر اور مغرب کے مالیاتی اور سیاسی نظام سے جدا ہوئے بغیر، آج تک حکومتیں کھل کر اس مسئلے پر بھی احتجاج نہیں کر پائیں۔ لیکن آج اسی امریکہ کے خلاف قوم کے سیلاب کو بانٹنے کیلئے سعد رضوی صاحب، ناموسِ رسالت کے لئے اپنی علیحدہ تحریک چلا رہے ہیں۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ ان تحاریک کا محرک صرف آئندہ جمہوری الیکشن ہیں۔
تمام مذہبی سیاسی جماعتیں، ووٹ کی لذت میں گرفتار ہو چکی ہیں۔ جان لیں! پاکستان اس وقت ایک ہدف ہے۔ چین کے خلاف پینٹاگون کی حکمتِ عملی جو دسمبر 2019ء میں آئی، اس کے تحت دو ممالک یوکرین اور پاکستان ایسے ہیں جنہیں امریکی تسلط میں لا کر انہیں برباد کرنا مقصود ہے تاکہ چین اور روس کے تجارتی راستے مسدود کئے جائیں۔
آج پھر اللہ نے پاکستانی قوم کو اس سازش کے خلاف کھڑا کر دیا ہے۔ اللہ اسے نصرت بھی دے گا۔ لیکن اس اہم مرحلے میں ہماری مذہبی سیاسی قیادت کی حالت بغداد کے ان علماء کی طرح ہے کہ جب ہلاکو بغداد پر حملہ آور ہوا تو یہ تمام علماء ابنِ علقمی کے ساتھ مل کر یہ کہہ رہے تھے کہ اچھا ہے، عباسی خلیفہ کے مظالم کا انتقام ہلاکو لے گا۔
وہ ہلاکو کو اللہ کی طرف سے بلا قرار دیتے رہے۔ لیکن ہلاکو کی یہ بلا سب سے پہلے انہی علماء پر نازل ہوئی اور اس کی تلواروں سے انہی علماء کی داڑھیاں خون آلود ہوئیں۔