کشمکشِ اقتدار میں سلطنت کا خاتمہ (2)
کھڑک سنگھ کی زہر خورانی کے بعد طویل بیماری، اس کے وزیر اعظم چیت سنگھ باجوہ کا سرِ دربار قتل اور اس کی بیوی اِندر کور باجوہ کو زندہ جلانے کے بعد خالصہ فوج برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں ایسی پہلی فوج بن گئی جس نے دو اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لئے، پہلا یہ کہ اب ہم فیصلہ کریں گے کہ مسندِ اقتدار پر کس کو بٹھانا ہے اور دوسرا یہ فیصلہ بھی ہمارے ہی فہم و فراست سے ہو گا کہ غدار کون اور محب ِ وطن کون ہے۔
کھڑک سنگھ کا واحد بیٹا نونہال سنگھ فوج کو بہت پسند تھا کیوں کہ اس کے دادا نے اسے لڑکپن ہی سے فنِ سپہ گری سیکھنے کے لئے فوج کے سپرد کر دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب فوج نے اسے بتایا کہ اس کا باپ قوم سے غداری کر کے انگریز سے مل چکا ہے تو اسے یہ سب ماننے میں ایک لمحے کو بھی تامل نہ ہوا۔
مؤرخین یہ بھی لکھتے ہیں کہ جذبۂ قومیت سے مغلوب ہو کر اسی نے اپنے باپ کو سیسہ پلا کر بیمار کیا تھا۔ اس کے اتنے کان بھرے گئے تھے کہ کھڑک سنگھ کا ڈاکٹر جوہن مارٹن ہونگ برگر (Johann Martin Honigberger) کہتا ہے کہ روزانہ اس کا باپ اسے دیکھنے کی بھیک مانگتا تھا لیکن وہ اسے دیکھنے کے لئے بھی نہیں آتا تھا۔
باپ کی بیماری کے دوران ہی 18 اکتوبر 1839ء کو فوج نے اسے اُمورِ مملکت کا نگران بنایا، اپنے خصوصی ایجنٹ دھیان سنگھ ڈوگرہ کو وزیر اعظم۔ سکھ قوم اس اٹھارہ سالہ نوجوان سے بہت محبت کرنے لگی اور وہ اس کے روپ میں اپنے عظیم لیڈر مہاراجہ رنجیت سنگھ کو دیکھتی تھی۔ 5 نومبر 1840ء کو اس کا باپ کھڑک سنگھ طویل علالت کے بعد مر گیا۔
وہ دریائے راوی کے کنارے اس کی آخری رسومات ادا کر کے واپس قلعے آ رہا تھا کہ جیسے ہی وہ روشنائی دروازے کے رستے حضوری باغ میں داخل ہونے لگا تو اس پر ایک بھاری پتھر لڑھکا دیا گیا۔ وہ شدید زخمی ہوا مگر اس میں ابھی جان باقی تھی، اسے انفنٹری کے پانچ جوان اُٹھا کر قلعے کے اندر لے گئے جہاں اس کی موت کا اعلان کر دیا گیا۔
ان سپاہیوں میں سے دو پراسرار طور پر مرے ہوئے پائے گئے، دو چھٹی لے کر گھر چلے گئے اور ایک غائب ہو گیا۔ کہا جاتا ہے اس زخمی بادشاہ کو قلعے کے اندر لے جا کر پتھر مار مار کر مارا گیا۔ اس کی موت فوج کے لئے ایک بہت بڑا دھچکا تھا، کیونکہ انہیں ایک ایسا حکمران مل چکا تھا جو ان کا ساتھی بھی تھا اور عوام اس سے محبت بھی کرتی تھی۔
فوج کو معلوم تھا کہ محل کے اندر چیت سنگھ باجوہ کے وفادار موجود بھی تھے جو کھڑک سنگھ کی موت کے بعد شدید غصے میں تھے۔ اب سکھ کھل کر ایک دوسرے کے سامنے آ گئے اور بالکل پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کی طرح بدھو کے آوا میں موجود فوج کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کرنے لگے۔ ایک گروپ نے اس کے چچا شیر سنگھ کو اپنا سربراہ بنایا اور دوسرے نے نونہال سنگھ کی بیوی چاند کور کو تخت کا حقدار اس لئے قرار دیا کیونکہ وہ بچے کی ماں بننے والی تھی اور اس گروہ کے سکھ سمجھتے تھے کہ تخت کا اصل وارث اسی کی کوکھ میں ہے۔
حالات بہت کشیدہ تھے اس لئے فوج نے فوری طور چاند کور کو ہی تخت پر بٹھا دیا۔ لیکن شیر سنگھ بھی فوج سے گٹھ جوڑ بنائے ہوئے تھا تاکہ ان کی مدد سے اقتدار پر قبضہ کرے۔ چاند کور کے ہاں مردہ بچہ پیدا ہوا۔ اس خبر نے اس کے گروہ میں مایوسی پھیلا دی۔ شیر سنگھ نے موقع غنیمت جانا اور یوں وہ بدھو کے آوا سے ستر ہزار خالصہ فوج لے کر روانہ ہوا۔
فوج نے اپنے ہی شہر لاہور پر حملہ کر دیا۔ قتل و غارت کا بازار گرم تھا، شہری جان بچانے کی دہائیاں دیتے چاند کور کے پاس جا پہنچے۔ نرم دل رانی نے مزید قتل و خون سے بچنے کے لئے شیر سنگھ کے حق میں دستبرداری کا اعلان کر دیا۔ شیر سنگھ نے تین سال حکومت کی، لیکن چونکہ اسے اقتدار فوج نے دلوایا تھا اس لئے اس کے سارے فیصلے فوج کے ہیڈ کوارٹر یعنی بدھو کے آوے میں ہونے لگے۔ جس کو قتل کرنا ہوتا اُسے انگریز کا ایجنٹ یا غدار کا لقب دینا کافی تھا۔
ڈوگرہ گروپ فوج کی آشیرباد سے حکمران تھا جبکہ مخالف سندھنانوالے شدید معتوب۔ انہوں نے خفیہ کارروائیاں شروع کر دیں اور یکے بعد دیگرے مہاراجہ شیر سنگھ اور دھیان سنگھ کو قتل کر دیا۔ شیر سنگھ کے بیٹے ہیرا سنگھ نے انتقام میں بے شمار سندھنانوالوں کو قتل کیا اور سیدھا فوج کے ہیڈ کوارٹر بدھو کے آوے پہنچ گیا اور عرض کی کہ سندھنانوالے شروع دن سے غدار ہیں اور نرم پالیسی کی وجہ سے طاقت پکڑ گئے ہیں اور اگر اسے وزیر اعظم بنایا جائے تو وہ ان کو سنبھال لے گا اور ساتھ ہی وہ سپاہی کی تنخواہ نو روپے سے بڑھا کر بارہ روپے اور گھڑ سوار کی تیس روپے ماہوار کر دے گا۔
ایک بار پھر فوج لاہور پر حملہ آور ہو گئی۔ پوری رات توپ خانے سے گولہ باری ہوتی رہی، جب فوج صبح شہر میں داخل ہوئی تو لاشوں کے انبار لگے ہوئے تھے۔ رنجیت سنگھ کے چھ سالہ بیٹے دلیپ سنگھ کو تخت پر بٹھا دیا گیا اور ہیرا سنگھ اس کا وزیر اعظم بن گیا۔ اس نے فوج کی مراعات میں اضافہ کیا۔
ڈھائی روپے تنخواہ اور بڑھا دی لیکن ایک دن جرنیل اس کے ایک مشیر سے ناراض ہو گئے وہ اس مشیر کو ہٹانا نہیں چاہتا تھا۔ فوج نے اسے اقتدار سے علیحدہ کر کے گرفتار کرنا چاہا، مگر اسے سازش کا علم ہوا تو وہ بھاگ نکلا۔ فوج نے اس کا تعاقب کر کے مار دیا اور اس کے ماموں جواہر سنگھ کو وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر بٹھا دیا۔
اب بدھو کے آوے والوں کے مطالبات بہت بڑھ گئے۔ جواہر سنگھ نے سارا خزانہ بلکہ محل کے سونے کے برتن تک ڈھلوا کر کنٹھے بنوائے اور فوج میں تقسیم کر دیئے، عوام سے جو ٹیکس اکٹھا ہوتا فوج پر خرچ کر دیا جاتا، مگر مطالبات بڑھتے گئے وہ مزید مراعات میں اضافہ نہیں کر سکتا تھا۔ آخر ایک دن ناراض فوج نے جواہر سنگھ کو ہیڈ کوارٹر طلب کیا گیا۔
اس کی بہن رانی جنداں اپنے بیٹے دلیپ سنگھ کو ساتھ لے کر سفارش کے لئے آئی، مگر جرنیلوں نے بہن کے سامنے اسکے بھائی جواہر سنگھ کو قتل کر دیا۔ بھائی کی لاش کو رانی جنداں نے ایک نظر دیکھا اور محل کی طرف لوٹ گئی۔ اس واقعے نے پورے ماحول میں ایک سراسیمگی پیدا کر دی تھی۔ نو سالہ دلیپ سنگھ حکمران تھا اور رانی جنداں سرپرست، لیکن کوئی بھی فوج کا ٹوڈی کہلانے کی بدنامی کے ڈر سے وزیر نہیں بننا چاہتا تھا، جس کو کہا جاتا وہ کانوں کو ہاتھ لگا کر بھاگ جاتا۔
گلاب سنگھ اور تیج سنگھ جیسے بدھو کے آوے والوں کے وفادار بھی انجام سے ڈر کر شہر چھوڑ گئے۔ کمسن دلیپ سنگھ کو کچھ ناموں کی پرچیاں دی گئیں اور ان میں قرعہ نکال کر زبردستی لال سنگھ کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔
خزانہ خالی ہو چکا تھا۔ توشہ خانہ کے برتن بھی بیچے جا چکے تھے، لیکن بدھو کے آوے میں بیٹھی خالصہ فوج کے مطالبات بڑھتے جا رہے تھے۔ رانی جنداں کے پاس جرنیلوں کی بلیک میلنگ سے نجات کا ایک ہی راستہ تھا کہ خالصہ فوج کو انگریز کی فوج کے ساتھ لڑا دیا جائے۔ پروپیگنڈے کا وہ طریقہ جو خالصہ فوج نے سب سے پہلے خود کھڑک سنگھ کے خلاف استعمال کیا تھا رانی جنداں نے خود ان کے خلاف استعمال کرنا شروع کیا اور سرگوشیوں کی ایک مہم چلائی کہ انگریز پنجاب پر حملہ کرنا چاہتے ہیں۔
عام سپاہی کو انگریز کی طاقت کا بالکل اندازہ نہ تھا۔ اسے تو سکھ قوم کی عظمت کے نام پر مرنے مارنے کے لئے تیار کیا گیا تھا، لیکن جرنیلوں کو بخوبی اندازہ تھا کہ مقابلہ بہت مشکل ہے اس لئے وہ لڑنا نہیں چاہتے تھے۔ انہوں نے بہت مخالفت کی لیکن، رانی جنداں نے سکھوں کی عظمت کا پرچم اٹھایا اور پروپیگنڈہ عام فوجیوں تک پھیلا دیا۔
اب بدھو کے آوے میں بیٹھے جرنیلوں کے لئے کوئی راستہ نہیں بچا تھا، رنجیت سنگھ کی بنائی ہوئی طاقتور خالصہ فوج جب لڑنے نکلی تو عوام نے جس کا انہوں نے پہلے ہی بھرکس نکال دیا تھا ان کا ساتھ نہ دیا اور پہلی ہی جنگ میں 8000 مارے گئے۔ تاریخ نے مارشل قوم ہونے کا دعویٰ بھی باطل کر دیا۔ چھ چھ فٹ اونچے دراز قد سکھوں کو شکست دینے والے انگریز فوج میں بھرتی ہونے والے بنگالی اور مدراسی تھے جن کے چھوٹے قدوں کو دیکھ کر سکھ تمسخر اُڑایا کرتے تھے۔
اس شکست کے بعد نہ رنجیت سنگھ کی سلطنت باقی رہی اور نہ ہی جنرل وینچورا کی فوج۔ (ختم شد)