اخلاقیات کا زوال
پاکستانی معاشرہ اس سے زیادہ شاید ہی کبھی گرا ہو کہ جو حالت اس وقت پاکستانی سیاست و صحافت کی ہو چکی ہے۔ سیکولر، لبرل اور جمہوری روایات کے پرچم بردار سیاسی لیڈروں اور ان کے عشق میں وارفتہ کارکنان تو چلو جدید معاشرتی اقدار کی رو میں بہہ کر کسی کی ذاتی زندگی کے بارے میں جو انٹ شنٹ مارتے پھریں، اس کا کچھ گلہ نہیں ہے کہ گذشتہ پچاس سال میں وقت کے ساتھ ساتھ دُنیا بھر کی صحافت و سیاست مسلسل سیکنڈلوں کے گرد ہی گھومتی چلی آ رہی ہے۔
میرے ملک میں اس زوال پر مہرِ تصدیق اس وقت ثبت ہوتی ہے، جب ایسے مذہبی سیاسی رہنما جن کی زندگیاں مسجدوں کی چٹائیوں پر تفسیرِ قرآن پڑھتے اور احادیثِ رسولؐ کا درس سنتے اور دیتے ہوئے گزری ہوں اور پھر جب ان سے کسی سیاسی سکینڈل پر یہ سوال کیا جائے کہ فلاں شخصیت کی ذاتی زندگی کے بارے میں فلاں ویڈیو یا آڈیو منظرِعام پر آئی ہے تو وہ فوراً پلٹ کر جواب دیں کہ اس کا فرانزک (Forensic) کروایا جائے تاکہ سچ اور جھوٹ کھل کر سامنے آ جائے۔
ایسا کہتے ہوئے ان کے سینوں میں قرآنِ پاک کی وہ آیات شاید حافظے سے محو ہو جاتی ہیں اور سیّدالانبیائؐ کی احادیث میں دی گئی وہ وعید انہیں یاد ہی نہیں رہتی، جس کے مطابق کسی بھی انسان کی ذاتی زندگی انتہائی مقدس و محترم ہے اور اس میں دخل اندازی یا کسی کے رازوں کو طشت ازبام کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ دُنیا کا ہر مذہب اور ہر مہذب معاشرہ انسان کی ذاتی زندگی کا احترام کرتا ہے اور اسلام تو اس کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔ اسلام کے ہاں ایسا کوئی بہانہ یا عذر قابلِ قبول ہی نہیں کہ فلاں شخص چونکہ ایک عوامی سیاسی شخصیت ہے، اس لئے اب اس کی ذاتی زندگی ذاتی نہیں رہ گئی۔
اسلام کے نزدیک کوئی بھی گھر یا مسکن، انتہائی محترم اور مکّرم جگہ ہے جہاں ہر شخص اپنی نجی زندگی گزارتا ہے۔ اسلام نے سب سے پہلے اسی گھر میں داخلے پر پابندی عائد کی ہے۔ فرمایا، "اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں نہ جائو، جب تک اجازت نہ لے لو اور وہاں کے رہنے والوں کو سلام نہ کر لو"(النور:27) یہاں تک کہ رسولِ اکرم ﷺ نے دروازے پر کھڑے ہو کر اندر جھانکنے سے بھی منع فرمایا ہے حتیٰ کہ اگر کسی شخص نے جھانکنے والے کی آنکھ پھوڑ دی تو آپ ﷺ نے فرمایا "اس پر کوئی گناہ نہیں "(البخاری:کتاب الدّیات)۔
آپؐ نے دروازے کے سامنے کھڑے ہونے کے آداب نہ صرف بتائے بلکہ اس پر خود عمل کر کے بھی دکھایا۔ آپ ﷺ کی عادتِ مبارکہ تھی کہ اجازت طلبی کے وقت آپ ﷺ دروازے کے دائیں یا بائیں جانب کھڑے ہوتے، تاکہ ایک دَم سامنا نہ ہو، جس میں بے پردگی کا امکان رہتا ہے (صحیح بخاری: کتاب الاسئذان، مسند احمد، ابودائود)۔ یہ رویہ دراصل مسلمان معاشرے کے انفرادی اور اجتماعی آداب (Mannerism) کی مثال ہے کہ ایک شخص کی ذاتی زندگی معاشرے کی سب سے محترم چیز ہے۔ سیّدنا انسؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے آپ ﷺ کے گھر میں جھانک کے دیکھا، آپ ﷺ تیر کا پھل لے کر اس کی طرف لپکے (کہ اس کی آنکھیں پھوڑ دیں) کہ وہ پیچھے ہٹ گیا (بخاری، مسلم، ابودائود، مسند احمد)۔
ایک جگہ فرمایا، "گھر میں داخلے کی اجازت ملنے سے پہلے جس نے پردہ کھسکا کر کسی کے گھر میں جھانکا اور گھر والے کی بیوی کی پردہ دری کی تو اس نے ایسا کام کیا جس کا کرنا اس کے لئے حلال نہ تھا۔ جس وقت اس نے اپنی نگاہ اندر ڈالی تھی، کاش اس وقت اس کا سامنا کسی ایسے شخص سے ہو جاتا جو اس کی دونوں آنکھیں پھوڑ دیتا تو میں اس پر اسے خون بہا نہ دیتا" (مسند احمد)۔
اسلام میں ایسی اخلاقیات کا تعلق صرف گھروں میں داخلے تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ کسی بھی شخص کی ذاتی زندگی کے بارے میں تجسس، عیب جوئی اور خامیاں تلاش کرنے کی نہ صرف شدید ممانعت کی گئی ہے بلکہ اسے صریحاً ایک بہت بڑا جُرم قرار دیا ہے۔ قرآنِ پاک کی نصِ قطعی ہے "ایک دوسرے کے حالات کا تجسّس مت کرو، اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے" (الحجرات: 12)۔
سیّدالانبیاء ﷺ نے اس آیت کی وضاحت میں ایک اور اہم لفظ کا اضافہ فرمایا۔ قرآن میں آیا تھا "ولاتجسَّسُوا" یعنی تجسّس مت کرو لیکن رسولِ خدا ﷺ نے ساتھ "ولا تحِسُو" کا اضافہ فرما دیا جس کا مطلب ہے کہ خبریں معلوم کرتے مت رہا کرو۔ پوری حدیث یوں ہے، "تجسّس نہ کرو، خبریں معلوم نہ کرو، اور ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، اور ایک دوسرے کی مخالفت نہ کرو" (صحیح بخاری) ٹوہ میں لگے رہنے اور چُھپ چُھپ کر باتیں سننے والے کے بارے میں فرمایا، "جو شخص لوگوں کی باتیں سنتا ہے، حالانکہ وہ ایسا نہیں چاہتے، بلکہ وہ اس سے دُور بھاگتے ہیں، تو قیامت کے دن اس کے کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے گا" (سنن ترمذی)۔
یہ تو آخرت کی سزا ہے، لیکن اللہ ایسے بدبخت لوگوں کے ساتھ جو سلوک دُنیاوی زندگی میں ہی کرے گا وہ انتہائی خوفناک ہے۔ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا، "مسلمانوں کی غیبت مت کرو اور ان کے عیوب کی جستجو نہ کرو۔ کیونکہ جو شخص اُن کے عیوب تلاش کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے عیب تلاش کرتا ہے اور جس کے عیب کی تلاش اللہ کرے، اس کو اس کے گھر کے اندر رُسوا کر دیتا ہے (قرطبی)۔
اُمتِ مسلمہ کے عظیم فلسفی اور جدید نسلوں کو الحاد کے شر سے محفوظ رکھنے کے لئے شہرۂ آفاق کتاب "تہافتہ الفلاسفہ" تحریر کرنے والے امام غزالی نے تجسّس اور عیب جوئی کی سات بنیادی وجوہات بتائیں ہیں، یہ ساتوں وجوہات آج پاکستانی سیاسی و صحافتی معاشرے میں بدرجۂ کمال پائی جاتی ہیں۔ تجسس، ٹوہ میں لگنا اور عیب جوئی کی پہلی وجہ بغض، کینہ اور ذاتی دُشمنی ہے، ہماری سیاست ذاتی دُشمنی میں ڈھل چکی ہے۔ دوسری وجہ حسد ہے جو ہمارے ہاں عام ہو چکا ہے، تیسری وجہ غیبت اور چُغل خوری کی عادت ہے۔ ہمارے صحافتی چُغل خور کو تو روزانہ نیا سکینڈل چاہئے ہوتا ہے تاکہ ریٹنگ بنی رہے۔
چوتھی وجہ چاپلوسی اور خوشامد ہے ہر کوئی اپنے "باس" کو خوش کرنے کے لئے اس کے دُشمن کے سکینڈل ڈھونڈ کر نکالتا ہے، پانچویں وجہ نفاق یعنی منافقت ہے۔ امام غزالی نے اس کی وضاحت کے لئے ایک حدیث تحریر کی ہے، "مومن ہمیشہ اپنے دوست کی خوبیوں کو سامنے رکھتا ہے تاکہ اس کے دل میں عزت، محبت اور احترام پیدا ہو، جبکہ منافق ہمیشہ برائیاں اور عیوب دیکھتا ہے (احیاء العلوم)۔
چھٹا سبب شہرت اور مال و دولت کی ہوس ہے۔ انسان دوسرے کے مقابلے میں خود کو بلند کرنے کے لئے اپنے مدِمقابل کے عیوب تلاش کرتا ہے تاکہ اس کی عزت کو داغدار کر کے اپنی واہ واہ بنائے جبکہ آخری اور ساتواں سبب منفی سوچ (Negativism) ہے۔ جدید نفسیات میں یہ ایک بیماری ہے جو انسان کا اپنا ہی گھر جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔ پاکستانی معاشرہ میں یہ بیماری اب ایک اجتماعی رویہ بن چکی ہے۔
تجسس، جاسوسی، ٹوہ میں لگے رہنا اور عیب جوئی جیسے رزائل (بداخلاقیاں) کا ذکر خصوصاً اسلام کے حوالے سے اس لئے کیا ہے کیونکہ سیاست دان اور صحافی تو اس بیماری میں مدتوں سے مبتلا تھے ہی مگر آپ آج کسی بھی مذہبی سیاسی پارٹی کے رہنمائوں یا ان کے ماننے والوں کے سوشل میڈیا پیج نکال لیں، خود ان پارٹیوں کے رہنمائوں کی تقریریں سن لیں اور ٹی وی ٹاک شوز میں ان کے دُھواں دار تبصرے ملاحظہ کر لیں: جبّہ و دستار کے امین یہ لوگ اپنے مخالف کی تضحیک پر خوش ہوتے ہیں، اس کی عیب جوئی پر تالیاں پیٹتے ہیں اور اگر کوئی انہیں قرآن و حدیث یاد دلا دے اور کہے کہ تم تو ایسا مت کرو، تو جواب دیتے ہیں کہ جب کوئی سیاست میں آئے گا تو اس کے ساتھ ایسا تو ہو گا۔
جن معاشروں میں مذہبی طبقے میں بھی آخرت کا خوف رُخصت ہو جائے تو پھر وہاں صرف اور صرف عذاب ہی نازل ہوا کرتے ہیں۔