Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Orya Maqbool Jan
  3. Data Ki Nagri Ka Sukoon

Data Ki Nagri Ka Sukoon

داتا کی نگری کا سکون

لاہور کی داستان سنانے والے کچھ ہندو ثقافت زدہ سیکولر دانشور لاہور کے ساتھ وہی سلوک کرتے ہیں جو یہاں کے بے ایمان گوالے دودھ میں گٹر کا گندہ پانی ملانے سے کرتے ہیں۔ لاہور سیدنا علی بن عثمان ہجویری کی آمد کے وقت ایک چھوٹی سی گوالوں کی بستی تھی، جس کے بارے میں خود حضرت داتا گنج بخشؒ نے فرمایا "لاہور یکِ از مضافاتِ ملتان است"(لاہور ملتان کی مضافات میں سے ایک ہے)۔

اس زمانے میں بڑے شہر بہت کم ہوتے تھے اسی لیے ان کی مضافات بھی کئی سو میل پر پھیلی ہوتی تھیں۔ لیکن میرے یہ دوست جنہیں اس خطے کی کسی بھی قسم کی اسلامی شناخت سے بغض و عناد ہے اور اپنی تہذیب کو ہندو مت کے ورثے سے جوڑنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں، انہوں نے ایک فرضی داستان تراش رکھی ہے کہ لاہور اور قصور دراصل رام چندر کے دو بیٹوں، لوھو اور قسو نے آباد کیے تھے۔

اس فرضی داستان کا پہلی دفعہ تذکرہ 1907ء میں شائع ہونے والی نور احمد چشتی کی کتاب "تحقیقات چشتی" میں ملتا ہے اور اس کے بعد کنہیا لال نے اپنی کتاب"تاریخ لاہور" میں اس افسانوی جھوٹ کا تذکرہ کیا ہے۔ ان دونوں نے اس کی کوئی تاریخی شہادت فراہم نہیں کی۔ جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ یونان کا سکندر یعنی الیگزینڈر، حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش سے 326 سال قبل جب ٹیکسلا فتح کرنے کے بعد پنجاب پر حملہ آور ہوا تو اسے ان جھوٹے افسانہ تراشوں کا شہر لاہور کہیں نظر نہ آیا۔ مشہور یونانی مورخ ہیروڈوٹس (Herodotus) نے سکندر کی جو فتوحات کی تاریخ لکھی ہے اس میں بھیرہ اور جہلم تک کا ذکر تو موجود ہے لیکن لاہور کا تذکرہ نہیں ملتا۔

چین کے مشہور بدھ سیاح "فاہین" نے 399 عیسوی سے 412 عیسوی تک پورے ہندوستان کا پیدل سفر کیا اورسفر نامہ لکھا۔ اس کا سفر نامہ تاریخ کا اہم ترین ریکارڈ ہے۔ اس چینی سیاح کو بھی ان سیکولر دانشوروں کا رام چندرکے بیٹے کا آباد کردہ لاہور کہیں نظر نہ آیا۔ تمام تاریخی شواہد اور آثار قدیمہ کی کھدائی کے بعد ملنے والی شہادتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ لاہور بحیثیت ایک شہر، پیدائشی طور پر مسلمان ہے اور اس کا سراغ محمود غزنوی کے دور سے پہلے صرف گوالوں کی ایک چھوٹی سی بستی کے طور پرہی ملتا ہے جہاں سیدنا علی بن عثمان ہجویریؒ نے آکر ڈیرہ لگایا تھا اور اس دن سے یہ داتا کی نگری کہلاتی ہے۔

2007ء میں میرے پاس ڈائریکٹر جنرل، محکمہ آثار قدیمہ کی ذمہ داری تھی، تو ان دنوں بھارت سے ایل کے ایڈوانی لاہور آیا۔ سیکولر لبرل اور ہندو تہذیب کے مرعوب کچھ نابغوں نے لاہور کے شاہی قلعہ میں"لوھو "کا ایک مندر بھی ڈھونڈ نکالا تھا اور ایڈوانی سے اس مندر کے کام کے افتتاح کی درخواست بھی کر دی تھی۔ ایڈوانی نے آمد سے پہلے تصدیق کے لیے دلی سے ایک ٹیم بھیجی جو تمام شواہد لے کر واپس چلے گئی۔ جب ایڈوانی لاہور قلعے کا دورہ کر رہا تھا تو ان دانشوروں نے اسے عالمگیری گیٹ کے پاس اس مندر کی طرف جانے کو کہا، تو وہ وہاں سے ایسے تیزی سے بھاگا کہ کہیں اس کی تصویر نہ بن جائے اور حضوری باغ کے پاس جا کر دم لیا۔

2009ء میں جب میں ڈائریکٹر جنرل والڈ سٹی لاہور تھا تو میں نے اس شہر لاہور پر ایک ضخیم کتاب شائع کروائی جس کے دیباچے میں یہ چیلنج کیا تھا کہ لاہور ایک پیدائشی مسلمان شہر ہے اور اس سے پہلے کے لاہور کا بحیثیت شہر کوئی تاریخی ثبوت موجود نہیں ہے۔ آج دس سال گزرنے کے بعدبھی اس چیلنج کا کوئی جواب نہ آ سکا، لیکن گذشتہ دنوں سیدنا علی ہجویری کے عرس پر مسجد میں کھڑے ہوکر اس قبیل کے ایک دانشور نے ڈھٹائی کے ساتھ اس افسانوی جھوٹ کو دہرا دیا۔

یہ داتا کی نگری اور پیدائشی طور پر مسلمان شہر اس پورے ہندوستان ہی نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ اور سینٹرل ایشیا تک کے علاقوں میں تہذیب و ثقافت اور علم وعرفان کا گہوارہ رہا ہے اور مغلوں کے دور میں تو یہ بام عروج پر تھا۔ علامہ اقبال کا مسکن لاہور، جس کا ذکر اگر آپ ایران، تاجکستان اور ازبکستان سے ترکی تک کسی بھی ملک میں کریں گے تو لوگ اسے اقبال کا شہر کہہ کر آپکو خوش آمدید کہیں گے۔

صدیوں سے یہ شہر اپنے باسیوں کی زندہ دلی اور امن و سکون کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ لیکن گذشتہ سال سے اس کا شہرہ اور عزت دنیا کے امن و امان کی جانب بڑھتے ہوئے ایک پرسکون شہر کی حیثیت سے مسلم ہوئی ہے۔ جرائم کی شرح کو ناپنے اور کسی جگہ سیکورٹی کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے، اس وقت دنیا کا سب سے بڑا ڈیٹا بیس (Data Base) ایک بہت بڑی تنظیم نمبیو (NUMBEO) مرتب کرتی ہے۔ یہ دراصل دنیا بھر کے تقریباً ساڑھے تین سو شہروں کے معیار زندگی اور ماحول کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہے۔ ان میں جرائم کی شرح، آلودگی، صحت کی سہولیات، سیکورٹی، گھریلو سہولیات وغیرہ شامل ہوتی ہیں۔

ان تقریبا 356 شہروں کے علاوہ بھی دنیا کے دیگر نوہزار شہروں کے بارے میں بھی آپ آپکو معلومات اس ڈیٹا بیس پر ملتی ہیں۔ یہ تنظیم ہر سال تقریبا ساڑھے تین سو شہروں کاکرائم انڈیکس مرتب کرتی ہے۔ ان شہروں کو دو وجوہات کی بنیاد پر انڈکس میں نمبر دیا جاتا ہے۔ ایک شرح جرائم (Crime index) اور دوسرا سلامتی و امن و امان (Safety Index)۔ یہ انڈیکس ہر سال کے وسط (Mid year) میں جاری کیے جاتے ہیں۔

اس سال یعنی 2019ء میں جاری ہونے والے انڈیکس کے مطابق دنیا کا سب سے غیر محفوظ شہر وینزویلا کا "کاراکاس"(Caracas) ہے۔ یہاں شرح جرائم انڈیکس 84.88 ہے جبکہ سلامتی انڈیکس صرف 15.12 ہے، جبکہ سب سے محفوظ شہر جو 356 نمبر پر ہے وہ ابودبئی ہے جس کا شرح جرم 11.00 اور سلامتی انڈیکس 89.00 ہے۔ لاہور شہر کا نمبر 228 ہے جہاں شرح جرم 37.10 ہے اور سلامتی انڈیکس 62.90.یعنی لاہور سے اس وقت دنیا کے 227 بڑے شہر زیادہ غیرمحفوظ اورجرائم کی شرح میں آگے ہیں۔

ان 227 خطرناک شہروں میں ڈھاکہ 32 ویں نمبر پر اور دلی 68 ویں نمبر پر ہے جبکہ مہذب دنیا کے شہر بریڈفورڈ 67,برمنگھم 77,پیرس 109,برسلز 113 اور واشنگٹن 76 ویں نمبر پر آتا ہے۔ امریکی شہر میمفس جو مسس سپی دریا کے کنارے ہے، جرم کی شرح اور سلامتی کے حوالے سے 12 نمبر پر ہے، امریکہ کا بالٹی مور 16 ویں نمبر پر ہے۔ لاہورکا ایک اور تازہ کمال ہے کہ یہ دنیا کے پرامن ترین شہروں میں سے ایک ہی نہیں بلکہ اس نے گذشتہ سال امن کی جانب ایسا سفر شروع کیا ہے کہ یہ ایک دم 53 انڈیکس نمبر بلند ہوگیا ہے۔

2018ء میں یہ 174 نمبر انڈیکس پر تھا اور آج یہ 228 پر آگیا ہے۔ یہ یقینا حیران کن ہے۔ لاہور کے بارے میں نمیبو (NUMBEO)کی مفصل رپورٹ بتاتی ہے کہ گذشتہ سال جن معاملات میں لاہور میں جرم کی شرح میں بہت زیادہ کمی واقع ہوئی ہے انکا انڈیکس یہ ہے، 1) گھروں میں ڈاکہ اور چوری (35.15)، گاڑیوں میں اشیاء کی چوری (36.57)، جرائم کی عمومی شرح (37.50) ہے جبکہ ایسے معاملات جن میں درمیانے درجے کی کمی واقعہ ہوئی ہے ان میں، راہ چلتے ڈاکہ اور کار چوری شامل ہیں۔ قابل فخر بات یہ ہے کہ لاہور جس خطرے سے بالکل پاک ہے وہ یہ کہ کوئی آپ کو رنگ، نسل، زبان اور علاقے کی بنیاد پر نفرت کا نشانہ نہیں بناتا یا کوئی راہ چلتے آپ کی تضحیک نہیں کرتا۔

لاہور میں دن کے وقت سفر کرنے کے دوران سلامتی کی سطح 78.46 ہے اور یوں یہ دنیا کے پہلے دس پرامن شہروں میں آتا ہے اور رات کے وقت سفر کرنے میں سلامتی کی شرح 56.63 ہے اور یوں بھی لاہور دنیا کے پہلے بیس پرامن شہروں کی شرح میں آتا ہے۔ یہ ہے لاہور جس پر امن کا سایہ ہے۔ جس کی محبت کا یہ عالم ہے کہ اس وقت لاہور کے اندرون شہر میں 45 فیصد پشتون آباد ہو چکے ہیں اور یہ سب اس تہذیب کا حصہ بن چکے ہیں۔

پاکستان کے ہر صوبے، علاقے سے لوگ یہاں آکر جائیدادیں خریدتے ہیں، پلازے بناتے ہیں، فیکٹریاں لگاتے ہیں اور لاہور ان کو سینے سے لگاتا ہے، انہیں اپنے اندر سموتا ہے۔ اسی لئے اس پر اللہ نے امن کی چادر تان رکھی ہے۔ جبکہ اس مقابلے میں پاکستان کے وہ شہر جہاں رنگ، نسل اور زبان کا تعصب پالا جاتا ہے، وہاں رات کو امن ہے اور نہ دن کو چین۔

About Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan is a columnist, writer, poet and civil servant from Pakistan. He has written many urdu columns for various urdu-language newspapers in Pakistan. He has also served as director general to Sustainable Development of the Walled City Project in Lahore and as executive director ECO, Cultural Institute, Tehran and information secretary to the government of the Punjab.

Check Also

Bushra Bibi Hum Tumhare Sath Hain

By Gul Bakhshalvi