ہاتھوں کی لگائی گرہیں
کسی بھی زبان کے جو محاورے ہوتے ہیں وہ اسے بولنے والے معاشرے کی اجتماعی بصیرت کا بھرپور اظہار ہوتے ہیں۔ اسی باعث میں تواتر کے ساتھ اس کالم میں پنجابی کے چند محاوروں کا تواتر سے حوالہ دیتا رہتا ہوں۔ میرے پسندیدہ ترین محاوروں میں سے ایک کمال سادگی اور برجستگی سے خبردار کرتا ہے کہ ہاتھوں سے لگائی گرہوں کو بسااوقات دانتوں کے استعمال سے کھولنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ منگل کے دن یہ محاورہ ایک بار پھر میرے ذہن میں گونجتا رہا ہے۔
ہوا یوں کہ حال ہی میں بلوچستان سے سینٹ کی خالی ہوئی نشستوں پر ہوئے انتخاب کے دوران ایک نشست عبدالقادر صاحب نے جیت لی۔ ابتداََ یہ انتخاب لڑنے کے لئے انہیں تحریک انصاف نے نامزد کیا تھا۔ ان کی نامزدگی ہوگئی تو بلوچستان سے تعلق رکھنے والے عمران خان صاحب کے بے تحاشہ وفاداروں نے روایتی اور سوشل میڈیا پر دہائی مچادی۔ الزام لگایا کہ قادر صاحب کا بلوچستان سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ تحریک انصاف کے رکن بھی نہیں رہے۔ ایسے "غیر سیاسی اجنبی" کو بلوچستان سے منتخب کرواکر ایوان بالا میں بٹھانا زیادتی ہوگی۔ خان صاحب اپنے حامیوں کے جذبات کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں نواز شریف اور آصف علی زرداری "خود غرض"شہنشاہوں والا رویہ اختیار کئے بتائے جاتے ہیں۔ مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی کو انہوں نے اپنی اولاد کے سپردکرکے "موروثی سیاست" کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ تحریک انصاف کے کارکنوں کے جذبات کے آگے سرنگوں کرتے ہوئے عبدالقادر صاحب سے ٹکٹ واپس لے لیا گیا۔ قادر صاحب تاہم میدان میں ڈٹے رہے۔ صادق سنجرانی کی بدولت بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جام کمال صاحب نے ان کی بھرپور معاونت کا وعدہ کیا۔
جام کمال صاحب کا ذکر چھڑا ہے تو یاد دلانا ضروری ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو جب بلوچستان کی سردار عطاء اللہ مینگل کی قیادت میں منتخب مگر "غدار" حکومت سے جان چھڑانا پڑی تو اس کے خلاف "بغاوت" کا ماحول بنانے میں جام کمال صاحب کے دادا نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ جنرل ضیاء مرحوم کو جب 1985کے غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے اس ملک میں صاف ستھری جمہوریت بحال کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو وہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نامزد ہوئے۔ جنرل ضیاء کی فضائی حادثے میں رحلت کے بعد مگر ملکی سیاست ایک بارپھر "چوروں اور لٹیروں " کی یرغمال بن گئی تو جنرل مشرف کو 12اکتوبر1999کی شب منظر عام پر آنا پڑا۔ تین سال کے عارضی بندوبست کے بعد انہوں نے جمہوریت بحال کی تو جام کمال کے والد جام یوسف صاحب بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بنے۔ جنرل مشرف سے اقتدار چھن گیا تو ملکی سیاست دوبارہ "چوروں اور لٹیروں " کے ہاتھوں اغوا ہوگئی۔ بلوچستان میں "غدار" بھی متحرک ہوتے نظر آئے۔ ان سے جند چھڑانے کے لئے2017میں بلوچستان کے چند محبانِ وطن یکجا ہوئے۔ راتوں رات بلوچستان عوامی پارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اسے "باپ" بھی پکارا جاتا ہے۔ اس جماعت کی بدولت 2018کے بعد جام کمال بلوچستان حکومت کے وزیر اعلیٰ بنے۔ ایک ہی خاندان کی گویا تیسری نسل اقتدار میں ہے۔"موروثی سیاست" کیخلاف ٹی وی سکرینوں اور یوٹیوب چینلوں پر سینہ کوبی فرمانے والوں کا دھیان مگر جام کمال کی جانب شاذہی جاتا ہے۔
بہرحال عبدالقادر صاحب میدان میں ڈٹ گئے تو بدخواہوں نے افواہیں پھیلائیں کہ ا نہوں نے تعمیراتی کاموں کے بڑے ٹھیکے لے کر بے تحاشہ دولت کمائی ہے۔ الزام یہ بھی لگاکہ وہ کسی زمانے میں شہباز شریف جیسے "بدعنوان" سیاست دان کے چہیتے بھی رہے ہیں۔ شنید ہے کہ اسلام آباد کو ایئرپورٹ تک ملانے والے بندوبست کا ٹھیکہ بھی قادر صاحب کو ان کی مہربانی سے ملاہے۔ عبدالقادر صاحب مگر فریاد کرتے رہے کہ وہ ایک ذہین، محنتی اور رزقِ حلال کمانے والے آدمی ہیں۔ دل وجان سے عمران خان صاحب کے گرویدہ رہے ہیں۔ 2014میں جب تحریک انصاف مبینہ طورپر دھاندلی کی بدولت قائم ہوئی حکومت کے خلاف اسلام آباد میں دھرنا دے رہی تھی تو وہ اس میں بھی بیٹھے رہے۔ مظاہرین کو اکثر انہوں نے کھانا فراہم کرنے کی سعادت بھی حاصل کی۔ پریشانی کے عالم میں ایک دن انہوں نے مجھے بھی فون کیا۔ نہایت دُکھ سے اپنے خلاف ہوئے پراپیگنڈے کا تذکرہ کرتے رہے۔ ان کی خواہش تھی کہ میں "اپنے ٹی وی پروگرام" میں ان کی نیک نیتی اجاگرکروں۔ بہت احترام سے انہیں یاد دلانے کو مجبور ہوا کہ عمران حکومت کے 2018میں اقتدارسنبھالتے ہی جس ٹی وی نیٹ ورک پر میں رونما ہوتا تھا وہ شدید معاشی بحران سے دوچار ہوگیاتھا۔ اپنے "بزنس ماڈل" کو درست بنانے کے لئے مذکورہ ٹی وی چینل کو بالآخر مجھے فارغ کرنا پڑا۔ ربّ کریم کی مہربانی سے اب خوش حال ہوگیا ہے۔ میں اگر ٹی وی پروگرام کررہا ہوتا تو یقینا انہیں مدعو کرکے اپنا مؤقف بیان کرنے کا موقعہ فراہم کرتا۔
ٹی وی سکرینوں سے میری عدم موجودگی کی بابت وہ مایوس ہوئے۔ یہ درخواست کرتے ہوئے فون بند کردیاکہ میرے جو دوست ان دنوں ٹی وی پر رونما ہورہے ہیں انہیں عبدالقادر صاحب کی نیک نامی اور عمران خان صاحب سے وفاداری کی بابت آگاہ کروں۔ حامد میر کے علاوہ میری کسی Starاینکر سے قریبی دوستی نہیں۔ اس سے مگر ایک بار بھی کسی موضوع پر گفتگو کے لئے فرمائش نہیں کی۔ عامر متین رئوف کلاسرا اور ارشد شریف بھی شاید میرا مشورہ شفقت سے سن لیتے۔ محمد مالک سے بھی فریاد کرسکتا تھا۔ عبدالقادر صاحب نے مگر میری خدمات کے عوض بھاری لفافے کا وعدہ ہی نہیں کیا۔ خدمت خلق کی مجھ جیسے حریص شخص کو ویسے بھی عادت نہیں۔ لاتعلق رہنے کو لہٰذا ترجیح دی۔
سینٹ کا رکن منتخب ہونے کے لئے ویسے بھی عبدالقادر صاحب کو مجھ جیسے بے اثر شخص کی مدد ہرگز درگار نہیں تھی۔ بلوچستان کی صوبائی اسمبلی میں بیٹھے گیارہ "صادق اور امین" اراکین نے انہیں "آزاد" حیثیت میں منتخب کرلیا ہے۔ غالباََ اپنے صوبے اور عوام کے "احساس محرومی" کے تدارک کیلئے انہیں قادر صاحب جیسے فیاض مہربان کی مدد درکار ہوگی۔
منتخب ہوجانے کے بعد عبدالقادر صاحب اسلام آباد تشریف لائے۔ وزیر اعظم صاحب سے ملاقات کی درخواست کی۔ منگل کے دن دربار میں طلب یابی سے فیض یاب ہوئے۔ اپنے گلے میں تحریک انصاف کی شمولیت والا دوپٹہ یا مفلر پہنوایا۔ یہ دوپٹہ یا مفلر انہیں عمران خان صاحب نے اپنے ہاتھوں سے پہنایا۔ وہ اس ملک کے واحد سیاست دان ہیں جنہیں ثاقب نثار صاحب جیسے اصول پسند، تاریخ ساز اور جی دار منصف نے "صادق اور امین" ٹھہرارکھا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ عبدالقادر صاحب واقعتا "بدعنوان" ہوتے تو خان صاحب ان سے ہاتھ ملانے کو بھی تیار نہ ہوتے۔ ویسے بھی تحریک انصاف میں باقاعدہ شمولیت کے بعد اب صادق سنجرانی کے سینٹ کا چیئرمین منتخب ہونے کے لئے ایک ووٹ "پکا" ہوگیا ہے۔ سنجرانی صاحب کا یوسف رضا گیلانی کے خلاف کانٹے دار مقابلہ ہونا ہے۔ گزرے ہفتے کے دن قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد وزیر اعظم صاحب نے جو تقریر فرمائی اس کے دوران گیلانی صاحب کو ا س ملک کا "کرپٹ ترین شخص" قرار دیا تھا۔ قادر صاحب جیسے نیک نام شخص کو اپنی جماعت میں شامل کرتے ہوئے انہوں نے ہماری معزز پارلیمان کے ایوان بالا کی سربراہی کو "کرپٹ ترین شخص" کے ہاتھ جانے سے بچانے کی کوشش کی ہے۔
سوشل میڈیا پر لیکن عبدالقادر صاحب کی تحریک انصاف میں قبولیت کی بابت واہی تباہی پھیلائی جارہی ہے۔ عمران خان صاحب کے "بدعنوان" اور "ووٹ خریدنے والے" افراد کے خلاف ہوئے دعوے یاد دلائے جارہے ہیں۔ اس حوالے سے ہوئے شوروغوغانے مجھے ہاتھوں سے لگائی گرہوں والے محاورے کی یاد دلادی۔ یوں ایک ڈنگ ٹپائو کالم لکھ کر آج کی روٹی کمانے کھانے کا بندوبست بھی ہوگیا۔ دُعا کریں کہ میرے جیسے بھی "بھاگ" ہیں وہ "لگے" رہیں۔