وائے ڈی اے بمقابلہ حکومت پنجاب
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن جب سے قائم ہوئی ہے ا س کا ہر حکومت کے ساتھ ہی میچ پڑجاتا ہے، سچ جانئے، شروع شروع میں یہی لگتا تھا کہ یہ کچھ نکمے اور لڑاکے ڈاکٹروں کا گروہ ہے جو چین اور وسط ایشیائی ریاستوں سے پڑھ کے آگئے ہیں یعنی ایسے ہیں جیسے دیسی گھی کے مقابلے میں ولائتی گھی ہوتا ہے مگر جوں، جوں ملاقات بڑھتی گئی تو غلط فہمیاں رفع ہوتی گئیں، میں نے وائے ڈی اے کے عہدیداروں کو پڑھائی اور تربیت میں نمایاں دیکھا ہے۔ یہ تنظیم ڈاکٹروں کے لئے دیسی گھی ہو یا نہ ہو مگر جہاں ڈالڈا وہاں مامتا، والی صورتحال ضرور بنا رکھی ہے۔ میں نے کسی دوسری پیشہ وارانہ تنظیم کو وائے ڈی اے سے بڑھ کے اپنی کمیونٹی کے مفادات کی حفاظت کرتے نہیں دیکھا، جب ڈاکٹروں پر کوئی برا وقت آنے لگتا ہے توکسی مرغی کی طرح پنجے جھاڑ کے حکومتی بلی کے پیچھے پڑجاتی ہے اور انہیں اپنے پروں میں چھپا لیتی ہے۔ وائے ڈی اے کے پہلے انقلابی صدر حامد بٹ سے لے کرآج تک کے سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر عاطف مجید اور صدر سلمان حسیب کے پروفیشنل ازم اور کمٹ منٹ کی گواہی دی جا سکتی ہے۔
اب معاملہ میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوٹس ایکٹ کا ہے جس کے تحت حکومت کہتی ہے کہ وہ خیبرپختونخوا کی طرز پرپنجاب کے ہسپتالوں کو خود مختاری دے رہی ہے جبکہ وائے ڈی اے کہتی ہے کہ یہ عوام کے اربوں، کھربوں سے بنے ہوئے ہسپتالوں کی نجکاری ہے۔ یہ پی ٹی آئی کے ان فنانسرز کو نوازنے کا منصوبہ ہے جنہوں نے انتخابات میں پی ٹی آئی پر سرمایہ کاری کی تھی ورنہ یہ بھلا کہاں کی بات ہے کہ ایروں، غیروں نتھو خیروں کو ہسپتالوں کے ایسے بااختیاربورڈ آف گورنرز کا رکن بنا دیا جائے جن بورڈز کو بنائے سرکار مگرپھر سرکار بھی ان کے اختیارات میں مداخلت نہ کرے، بورڈوں میں بیٹھے ہوئے ان سیٹھوں کو اختیار حاصل ہو کہ وہ جب چاہیں ہسپتالوں کے بستروں سے لیبارٹریوں کے ٹیسٹوں تک کی من مانی فیسیں مقرر کر دیں، جس ڈاکٹر، نرس یا پیرامیڈکس کی شکل پسند نہ ہو اس کی کمر پر لات مار کے نوکری سے نکال دیں۔ میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ہسپتال ہوں، تعلیمی ادارے ہوں یا میڈیا ہاو¿سز، یہ محض عمارتوں اور آلات کے ذریعے نہیں چل سکتے جب تک یہاں پر کمٹ منٹ والا ٹیلنٹ نہ ہو، جسے اپنے روزگار بارے اطمینان نہ ہو، یہ تمام کے تما م کاروبار ضرور ہیں مگر ان پر عام کاروباروں والی شرائط کا اطلاق نہیں ہوتا، یہ کاروبار سے بڑھ کے معاشرے کی خدمت ہے۔
ویسے یہ کما ل بھی ایم ٹی آئی نے ہی کیا ہے کہ خیبرپختونخوا کے بہترین ہسپتالوں کے پروپیگنڈے کا پردہ فاش ہو گیا ہے۔ اب وہ ڈاکٹر جو نوازشریف، شہبا ز شریف کے دورمیں نسخے کی پرچی پردوا کے ساتھ ساتھ یہ بھی لکھ کر دیتے تھے کہ علاج تب مکمل ہو گا جب بلے پر مہر لگے گی وہ اب ثابت کرتے پھر رہے ہیں کہ پنجاب کے ہسپتال، خیبرپختونخوا کے ہسپتالوں سے بدرجہا بہتر ہیں۔ وہ مجھے ساتھ لے جا کر دکھاتے ہیں کہ پختون اپنے باپوں، بیویوں اور بچوں کو اٹھا کے پنجاب اور لاہور کے ہسپتالوں میں لا رہے ہیں کیونکہ کے پی کے میں ایم ٹی آئی کی وجہ سے علاج بے پناہ مہنگا ہو چکا۔ وائے ڈی اے والے اب ہیلتھ کارڈ بارے بھی کیا خوب بتاتے ہیں کہ یہ منصوبہ بنیادی طور پر سرکاری ہسپتالوں کے وسائل کم کرتے ہوئے عوام کے ٹیکسوں کی کمائی کو پرائیویٹ ہسپتالوں پر لٹانے اور انہیں نوازنے کامنصوبہ ہے۔ اس کے پیچھے بھی کچھ انشورنش کمپنیاں ہیں جن کے کرتا دھرتاو¿ںمیں ا یک صوبے کے گورنربھی شامل ہیں جن کے سپیلنگ تو درست نہیں مگر وہ بہت ساری بڑی بڑی یونیورسٹیوں کے چانسلر ضرور ہیں۔
یہ میچ حکومت جیتے گی یا وائے ڈی اے، اس کا فیصلہ چند روز میں ہوجائے گا مگر دلچسپ امر یہ ہے کہ وائے ڈی اے کا یہ شوق بھی پورا ہو گیا ہے کہ ایک ڈاکٹر ہی صحت کے شعبے کا سیکرٹری اور وزیر ہو۔ اب وائے ڈی اے والے اپنی خاتون ڈاکٹر وزیر کے ساتھ ملاقات کے لئے ترستے ہیں اور یاد کرتے ہیں وہ وزیر جو ڈاکٹر نہیں تھے ان کے مسائل پرتفہیم اور گپ شپ کے لئے ان کے پاس چائے کے کھوکھے پر بھی آجاتے تھے۔ جنرل ہسپتال میں ایک تقریب کے دوران مجھے وائے ڈی اے کے ایک عہدیدار نے کہا کہ آپ کو علم نہیں کہ گائنی کی ڈاکٹرز کا رویہ اپنے مریضوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ وہ رویہ ان کے مزاج کا حصہ بن جاتا ہے، دوستوں اور فیملی تک میں آجاتا ہے۔
سب سے دلچسپ صورتحال تو ہمارے منہ پھٹ دوست ڈاکٹر حامد بٹ کی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ڈاکٹرز کمیونٹی میں سے ڈاکٹر حامد بٹ کی صدارت کو کوئی نہیں بھولا ہوگا۔ شہباز شریف کے دور میں ایک طرف شہباز شریف تھے تو دوسری طرف حامد بٹ تھے یعنی ایک طرف مولا جٹ تھا تو دوسری طر ف نوری نت تھا۔ خواجہ سلمان رفیق بہت ہی ڈاون ٹو دی ارتھ، قسم کے ہیلتھ منسٹر تھے جنہیں میں اور زاہد چودھری سمجھایاکرتے تھے کہ یہ جو آپ محکمہ صحت کے ہر چھوٹے بڑے افسر کو بھائی، بھائی کہہ کر بلاتے ہیں تو وہ آپ کو اپنے چھوٹا بھائی ہی سمجھ کر ٹریٹ کرنے لگتے ہیں، تھوڑا سا رعب دبدبہ بڑے بھائی خواجہ سعد رفیق سے ہی سیکھ لیں۔ خواجہ سلمان رفیق، میڈم یاسمین راشد کے برعکس بطور وزیر دستیاب ہوا کرتے تھے مگر ایک ہڑتال کے دوران انہوں نے دوٹوک انداز میں کہہ دیا کہ وہ کسی کے ساتھ بھی پروگرام میں بیٹھ جائیں گے مگر حامد بٹ کے ساتھ نہیں کہ بٹ گالاں بوہت گندیاں کڈدا اے،۔ میری کل حامد بٹ سے ملاقات ہوئی جو اب ینگ کنسلٹنٹس ایسوسی ایشن کے صدر ہیں تو وہ مجھے بتا رہے تھے کہ نون لیگ والے پی ٹی آئی والوں سے ہزار گنا بہتر تھے، وہ مجھے تنخواہوں میں اضافوں سے اپ گریڈیشن تک سابق دور میں کی گئی ڈھیروں اچھی باتیں بتا رہے تھے اور میں حیرت سے ان کے منہ کو تک رہا تھا۔
وائے ڈی اے والوں کوعلم ہے کہ بے چاری وزیر تو ایک طرف رہی اس معاملے پر بے چارے وزیراعلیٰ کا بھی کوئی اختیار نہیں بلکہ ان کے پا س اطلاعات ہیں کہ ایم ٹی آئی ایکٹ کی منظوری میں تاخیرپر ان کی اوپر، سے اچھی خاصی تواضع، ہوئی ہے کیونکہ جو اوپر بیٹھے ہوئے ہیں ان کی رالیں پنجاب کے اربوں، کھربوں روپوں کے سرکاری ہسپتالوں پر ٹپک رہی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ عدالت کے واضح احکامات کے باوجود ایم ٹی آئی کے متنازعہ مسودہ قانون کو اسمبلی میں پیش کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ انہوں نے نوکری عدالت کی نہیں بلکہ خان صاحب اور ان کے کزن کی کرنی ہے جو اس وقت خیبرپختونخوا کے سرکاری ہسپتالوں کے بھی مالک ہیں۔ ایم ٹی آئی ایکٹ پر اتفاق رائے کئے بغیر اسے اسمبلی میں پیش کر کے واضح توہین عدالت کی گئی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ڈاکٹرز کمیونٹی پہلے کی طرح اپنی ملازمتوں ہی نہیں بلکہ غریب عوام کے علاج کے تحفظ کے لئے بھی وائے ڈی اے کی موجودہ قیادت کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے یا نہیں کیونکہ میں نے گذشتہ روز جیل روڈ پروائے ڈی اے، وائے این اے اور پیرامیڈکس کی وہ تعداد اور طاقت نہیں دیکھی جواس سے پہلے ایم ٹی آئی ایکٹ کے موقعے پر رہی، ہاں، ا س سے پہلے مال روڈ پران کا ردعمل واقعی جاندار رہا تھا۔ میں جانتا ہوں کہ کچھ یہ سوچ رہے ہیں کہ کسی دوسرے ملک میں جا کرپرسکون نوکری کرلیں تاکہ روز، روز کے تماشوں سے جان چھٹ جائے، یہ خطرہ تو نہ ہو کہ انہیں سرکاری پارٹی کا کوئی ٹھیکیدار پیٹھ پر لات مار کے ہسپتال سے ہی باہر نکال دے گا اور عین ممکن ہے کہ کچھ یہ سوچ رہے ہوں کہ نوکری کیہ تے نخرہ کیہ، کیہ ٹھیکیدار انسان نئیں ہُندے۔ اگر ایسا ہے تو پھرماضی کی روایات کے برعکس یہ معرکہ حکومت جیت جائے گی۔