Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Muzamal Suharwardy
  3. Yaksan Baldiyati Nizam Pakistan Ki Zaroorat

Yaksan Baldiyati Nizam Pakistan Ki Zaroorat

یکساں بلدیاتی نظام پاکستان کی ضرورت

آج کل سندھ میں بلدیاتی قوانین کو لے کر سیاسی درجہ حرات کافی گرم ہے۔ پیپلزپارٹی بضد ہے کہ اکثریت حکومت کی بنا پرانھیں کراچی اور سندھ کے تمام فیصلے کرنے کا آئینی و قانونی حق حاصل ہے اور وہ اپنے اس حق سے کسی بھی صورت دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔ جب کہ ایم کیو ایم اور دیگر سیاسی جماعتوں نے پیپلزپارٹی کے خلاف اتحاد بنا لیا ہے۔ تا ہم ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی ایک دوسرے کے خلاف محاذ گرم کرتے نظر آرہے ہیں۔

میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ تمام صوبائی حکومتیں بلدیاتی نظام کو اپنے ماتحت رکھنے کے لیے مختلف قسم کے حربے اور تجربات کر رہی ہیں۔ ایسا صرف سندھ میں نہیں ہو رہا، پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان میں بھی ایسے ہی تجربات ہو رہے ہیں۔ ہر صوبے کے حکمران ایسا طریقہ کار بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں بظاہربلدیاتی نظام موجود ہو لیکن صوبائی حکومت کی بالا دستی بھی قائم رہے۔ میں ذاتی طور پر صوبائی خود مختاری کے حق میں ہوں، اس لیے اٹھارویں ترمیم کے بھی حق میں ہوں۔ لیکن اگر اٹھارویں ترمیم اگر صوبوں کو وفاق کی طرح اختیار دیتی ہے تویہ غلط ہے۔

جمہوریت کی اصل روح تو اختیارات کی مقامی سطح تک تقسیم میں ہے۔ اٹھارویں ترمیم کی اصل روح بھی وفاق سے صوبوں کو اختیارات کی تقسیم تھی اور یہ بھی امید رکھی گئی تھی کہ صوبے یہ اختیارات بلدیاتی نظام کے تحت ضلع، تحصیل اور یونین کونسلز تک منتقل کریں گے لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ صوبوں نے اختیارات کو قابو میں رکھنے کے لیے غیر قانونی اقدامات کا سہارا بھی لیا ہے اور نئے نئے قوانین کے تحت اختیارات بھی اپنے پاس رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

پاکستان کو ایک یکساں مضبوط بلدیاتی نظام کی ضرورت ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا ہے کہ کراچی کا میئر تو بہت مضبوط ہو اور اختیارات حاصل ہو جائیں لیکن لاہور پشاور، کوئٹہ اور دیگر شہروں کے میئر اور بلدیاتی نمایندے کمزور رہیں۔ پاکستان میں اگر جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے تو مضبوط بلدیاتی نظام ہی اس کی بنیاد ہوگا۔ اگر مضبوط وفاق جمہوریت کی راہ میں رکاوٹ تھا تو مضبوط صوبائی حکومتیں بھی جمہوریت کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ اس لیے پورے ملک کے لیے ایکیکساں اختیارات کا حامل بلدیاتی نظام کے لیے اتفاق پاکستان کی ضرورت ہے۔

اس مقصد کے لیے مرکزی سطح پر بھی آئینی ترامیم کی جا سکتی ہیں۔ جس میں صوبوں کو وفاقی سطح پر طے کیا جانا والا بلدیاتی نظام نافذ کرنے کا پابند بنایا جائے۔ یہ منطق بھی نا قابل فہم ہے کہ ہر صوبے کو اپنے حالات کے مطابق بلدیاتی نظام بنانے کی اجازت ہونی چاہیے۔ جب صوبوں میں صوبائی حکومتوں کا نظام یکساں ہے تو بلدیاتی نظام یکساں ہونے میں کیا رکاوٹ ہے بلکہ یکساں نظام میں ہی پاکستان کا مستقبل پنہاں ہے۔

اسی طرح جیسے وفاق کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ صوبوں کو ایک طے شدہ فارمولے کے تحت محصولات تقسیم کرے، اسی طرح صوبوں کو آئینی طور پر پابند کیے جانے کی ضرورت ہے کہ وہ بھی ایک طے شدہ فارمولے کے تحت محصولات اضلاح کو تقسیم کریں اور اضلاح تحصیلوں کو تقسیم کریں اور وہاں سے یونین کونسلز کو تقسیم کریں۔ یہ کیا نظام ہے کہ صوبے تو بندوق کی نوک پر وفاق سے اپنا حصہ لے لیتے ہیں لیکن جب مقامی حکومتوں حصہ دینے کی باری آئے تو رونے لگ جائیں۔ جیسے وفاق کو پابند بنایا گیا ہے ویسے ہی صوبوں کو بھی پابند بنانا ضروری ہے۔

اگر پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے حالات کا ادراک نہ کیا تو ملک میں مسائل بڑھتے جائیں گے۔ آج جو آوازیں سندھ سے آرہی ہیں کل وہ تمام صوبوں سے آئیں گی۔ کہیں نہ کہیں گوادر سے بھی جو آوازیں آرہی ہیں وہ بھی بتا رہی ہیں کہ نظام میں خرابی موجود ہے۔ صرف کراچی ہی نہیں گوادر کو بھی ایک مضبوط بلدیاتی نظام کی ضرورت ہے۔ جیسے کراچی کے مسائل کا حل ایک مضبوط بلدیاتی نظام میں ہے۔

ایسے ہی گوادر، لاہور، پشاور، ایبٹ آباد، کوئٹہ کے مسائل کا حل بھی مضبوط بلدیاتی نظام میں ہی ہے۔ وسائل کی یکساں تقسیم بھی یکساں بلدیاتی نظام سے ہی ممکن ہے۔ صوبائی حکومتوں کا یہ اختیار درست نہیں کہ وہ کسی ایک خاص علاقے کو کسی دوسرے علاقے کی قیمت پر ترقی دیں۔ سب کو اپنے طے شدہ حصے کے فنڈز مساوی اور انصاف سے ملنے چاہیے۔ اگر وفاق یا صوبائی حکومتیں کسی خاص علاقے میں کوئی خاص کام کرانا چاہتی ہیں تو اس کا راستہ بھی آئین بھی موجود ہے۔

بہر حال اس وقت معاملہ سندھ میں گرم ہے۔ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ دیہی سندھ کی شہری سندھ پر سیاسی بالادستی سندھ اور شہری سندھ کے مسائل کی بنیاد ہے۔ کوٹہ سسٹم میرٹ کا قتل ہے۔ آج جب پوری دنیا میرٹ کے نظام پر چلنے پر متفق ہے، سندھ کوٹہ سسٹم پر کیوں چل رہا ہے۔ کیوں کراچی کی مردم شماری درست نہیں کی جاتی۔ باقی یہ بھی حقیقت ہے کہ جتنا ظلم کراچی کے ساتھ دیہی سندھ کی قیادت نے کیا ہے تو اتنا ہی ظلم کراچی کے ساتھ شہری سندھ کی نمایندگی کی دعویدار سیاسی قیادت نے بھی کیا ہے۔

اگر دیہی سندھ نے کراچی کے فنڈز کھائے ہیں تو شہری سندھ کی قیادت نے کراچی ڈسٹرکٹ لیول پر جعلی بھرتیوں کی بھرمار کی اور لسانیت کو ہوا دے کر کراچی شہر کا امن تباہ کیا ہے۔ اگر پیپلزپارٹی کے ہاتھ صاف نہیں ہیں توایم کیو ایم کا دامن بھی صاف نہیں ہے۔ دیکھا جائے تو شہری سندھ کے عوام پر ظلم دونوں نے برابر کیا ہے۔ دونوں ہی کراچی کے برابرملزم ہیں لیکن کراچی کیا کرے۔ اس نے جس کو بھی ووٹ دیے اس نے ظلم ہی کیا ہے۔ اب آپ دیکھیں تحریک انصاف کو ووٹ دے کر شہری سندھ کوکیا مل گیا ہے۔ ماضی میں ن لیگ نے بھی کوئی انصاف نہیں کیا ہے۔ کراچی کے ساتھ سیاست تو کی گئی ہے لیکن اس کا خیال نہیں کیا گیا۔

میں نے اس سے پہلے کالم میں لکھا ہے کہ کراچی کو میئر نہیں وزیر اعلیٰ چاہیے۔ اس پر بہت تنقید ہوئی۔ کہا گیا کہ وزارت اعلیٰ کوئی خیرات میں نہیں ملتی، یہ بات درست ہے کہ وزارت اعلیٰ خیرات میں نہیں ملتی۔ لیکن دوست یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ علاقوں کو ساتھ لے کر چلنے کے لیے انھیں طاقت دی جاتی ہے۔ پنجاب میں اگر جنوبی پنجاب سے وزیر اعلیٰ آسکتا ہے تو سندھ میں کراچی سے کیوں نہیں آسکتا۔ پنجاب میں جنوبی پنجاب سے وزیر اعلیٰ کوئی خیرات میں نہیں آیا۔ سندھ کو پنجاب سے سیکھنا ہوگا۔

میں سمجھتا ہوں جیسے پورے ملک میں صوبائی اور قومی انتخابات ایک ہی دن میں ہوتے ہیں، اس طرح بلدیاتی انتخابات بھی ساتھ ہی ہونے چاہیے۔ وفاقی، صوبائی اور بلدیاتی حکومتوں کا قیام اور حلف بھی ایک ہی دن ہونا چاہیے۔ اس سے بلدیاتی انتخابات کی شفافیت اور اہمیت میں بھی اضافہ ہوگا اور بلدیاتی حکومتوں کو تحلیل کرنے اور ان کے ساتھ کھیلنے کا عمل بھی ختم ہو جائے گا۔ صوبائی حکومتوں کا بلدیاتی انتخابات پر اثر انداز ہونے کا عمل بھی ختم ہو جائے گا۔ ملک کے سیاسی کلچر میں ایک مثبت تبدیلی آئے گی۔ جہاں لوگ دو ووٹ ڈالتے ہیں وہاں تین یا چار ووٹ ڈٖال دیں گے۔

لوگ میئر بھی منتخب کر لیں گے۔ اس میں کوئی خاص مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ بہر حال پاکستان کو ایک مضبوط بااختیار اور یکساں بلدیاتی نظام کی ضرورت ہے۔ اس سے پاکستان میں جمہوریت مضبوط ہوگی۔ صوبائیت اور لسانیت ختم ہوجائے گی، سیاسی و مالی کرپشن کم ہوگی اور لوگوں کا بلدیاتی حکومت پر اعتماد بڑھے گا۔ آپ دیکھیں گے لوگ قومی و صوبائی کے بجائے بلدیاتی انتخاب لڑنے کو ترجیح دیں گے۔ یوں سیاسی جماعتوں کی حاکمیت میں بھی کمی آئے گی، یہی اصل جمہوریت ہو گی۔

Check Also

Aik Ustad Ki Mushkilat

By Khateeb Ahmad