واپسی اور صلح کا کوئی راستہ نہیں
ایک سوال سب پوچھ رہے ہیں کہ کیا جہانگیر ترین اور عمران خان کے درمیان صلح ممکن ہے۔ میری رائے میں صلح کا تو کوئی امکان نہیں۔ تاہم عمران خان کی کوشش ہونی چاہئے کہ لڑائی بڑھنے کی بجائے کسی نہ کسی طرح سیز فائر ہو جائے۔ جہانگیر ترین کے لیے عمران خان کے پاس واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
تا ہم عمران خان کی کوشش ہوگی کہ جہانگیر ترین ان کے اقتدار کے لیے مسائل نہ پیدا کریں۔ اب جہانگیر ترین عمران خان کے لیے یہ مسائل ڈر اور خوف سے پیدا کریں گے یا اس کے لیے وہ سیاسی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ جہانگیر ترین کو خاموش کروانے میں ہی عمران خان کی جیت ہے لیکن یہ جیت جہانگیر ترین کی سیاست کے لیے زہرقاتل ہو گی۔
جہانگیر ترین کو چوہدری نثار کی مثال سامنے رکھنا ہوگی۔ ان کے پاس بھی نواز شریف کو سیاسی نقصان پہنچانے کے کافی مواقع تھے۔ جب ن لیگ کے ارکان چوہدری نثار علی خان کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہوتے تھے، تب وہ کسی نہ کسی مفاہمتی وفد سے ملاقات کر کے کھیل ختم کر دیتے تھے۔ آج وہ سیاسی طور پر تنہا نظر آتے ہیں۔
چوہدری نثار علی خان پاکستان کی حالیہ سیاست میں ایک بہترین مثال ہیں کہ اگر لڑائی کے درمیان صلح بھی جاری رکھی جائے تو ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے، اگر سیاسی فیصلے بروقت نہیں کیے جائیں تو کھیل ہاتھ سے نکل جاتا ہے، سیاست میں مفاہمت اور لڑائی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ حامیوں اور دوستوں کو کنفیوژ نہیں کرنا چاہئے۔ اگر دوست کنفیوژ ہو جائیں تو وہ آپکا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔
چوہدری نثار علی خان نے بروقت فیصلہ نہ کر کے اپنا بہت نقصان کیا ہے۔ اگر انھوں نے ن لیگ میں گروپ بنانا تھا تو اس میں بھی تاخیر کی اور اگر کسی دوسری جماعت کے ساتھ جانا تھا تو اس میں بھی غیر ضروری تاخیر کی۔
اس لیے جہانگیر ترین نے اگر بروقت فیصلے نہ کیے تو جو دوست ان کے ساتھ آج کھڑے نظر آرہے ہیں وہ آہستہ آہستہ ساتھ چھوڑ جائیں گے۔ اگر جہانگیر ترین نے جلد اپنی سیاسی حکمت عملی کا اعلان نہیں کیا تو ان کے ساتھ کھڑے ہونے والے خود کو غیر محفوظ سمجھیں گے۔ ان کے لیے اپنی اگلی سیاسی راہ کا انتخاب مشکل ہو جائے گا۔ اس لیے جہانگیر ترین کے پاس عمران خان کی جانب واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اگر وہ اس مرحلہ پر عمران خان کے ساتھ صلح کر لیتے ہیں تو ان کے دوست کہاں جائیں گے۔ جہانگیر ترین اب اکیلے نہیں ہیں ان کے ساتھ ارکان اسمبلی کا ایک بڑاگروپ ہے۔ وہ اکیلے کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے۔
جہانگیر ترین کے ساتھ اب تک تیس سے زائد ارکان اسمبلی کھڑے نظر آرہے ہیں۔ یہ وہ ارکان ہیں جو ان کے ساتھ عدالت جاتے ہیں۔ یہ تیس ارکان عمران خان کے ساتھ بغاوت کر کے جہانگیر ترین کے ساتھ آئے ہیں۔ اگر آج جہانگیر ترین عمران خان کے ساتھ صلح کر لیتے ہیں تو عمران خان ان تیس ارکان میں سے اکثریت کو عبرت کا نشان بنا دیں گے۔ ان کو آگے ٹکٹ نہیں دیں گے۔
ان کو حکومت کی طرف سے نشانے پر رکھ لیا جائے گا۔ اس لیے یہ ارکان اسمبلی کشتیاں جلا کر جہانگیر ترین کے ساتھ آئے ہیں۔ ان کے پاس بھی واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس لیے اگر جہانگیر ترین واپس چلے بھی جائیں گے تو اپنے دوستوں کو چھوڑ کر ہی یہ صلح کریں گے۔
جہانگیر ترین کو اب واپس عمران خان کی طرف دیکھنے کی بجائے جلد از جلد اگلی حکمت عملی کا اعلان کرنا ہوگا۔ ورنہ مزید لوگ ان کے ساتھ نہیں آئیں گے۔ یہ درست ہے کہ جہانگیر ترین نے پیپلزپارٹی کے ساتھ جانے سے انکارکر دیا ہے۔ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ جہانگیر ترین کے ساتھی انھیں پیپلزپارٹی میں نہیں جانے دیں گے۔
پیپلزپارٹی کے ساتھ ملکر جہانگیر ترین گروپ کے ارکان سیٹیں نہیں جیت سکتے۔ جہانگیر ترین کے ساتھی ارکان کی اکثریت پنجاب سے ہے۔ پنجاب میں پیپلزپارٹی کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ اس لیے جہانگیر ترین کے ساتھی کسی مردہ گھوڑے کے ساتھ نہیں جائیں گے۔ اگر وہ جائیں گے تو ن لیگ کے ساتھ جائیں گے۔ پیپلزپارٹی کے ساتھ جانے کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔
جہانگیر ترین کو جلد از جلد گروپ کو کوئی شناخت دینا ہوگی۔ اس کے سیاسی اہداف کو سامنے لانا ہوگا۔ انھیں پنجاب اور مرکز میں عمران خان کو کھل کر چیلنج کرنا ہوگا۔ پنجاب میں ان کے ساتھ ارکان پنجاب اسمبلی کی تعداد کافی ہے۔ وہ پنجاب میں تبدیلی کا نعرہ بھی لگا سکتے ہیں۔ انھیں اپنے گروپ کی طرف سے اعلان کرنا ہوگا کہ وہ پنجاب میں تبدیلی کے لیے تیار ہیں۔ پنجاب میں تبدیلی تحریک انصاف کی ضرورت ہے۔
تحریک انصاف کی بہتری میں پنجاب میں تبدیلی لائے جائے گی۔ وہ اپنے گروپ کے لیے وزارت اعلیٰ بھی مانگ سکتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ن لیگ شائد پیپلز پارٹی کے ساتھ ملکر تو پنجاب میں تبدیلی کے لیے تیار نہیں۔ لیکن جہانگیر ترین کے ساتھ ملکر وہ پنجاب میں تبدیلی کے لیے تیار ہو جائیں گے۔
اگر منظور وٹو 18ارکان کے ساتھ وزارت اعلیٰ لے سکتے ہیں تو جہانگیر ترین کے ساتھ تو اس وقت 22ارکان پنجاب اسمبلی آچکے ہیں۔ یہ سب لوگ ن لیگ کے ساتھ شراکت اقتدار اور اگلے انتخاب میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے تیار ہوں گے۔ یہی ان کے مفاد میں ہے۔ اس لیے جہانگر ترین کو ایک طرف اپنے گروپ کو نہ صرف مضبوط کرنا ہے بلکہ ساتھ ساتھ اگلی حکمت عملی بھی دینی ہے۔ خاموشی کا سیاست میں کوئی کام نہیں۔ خاموشی بزدلی کی نشانی ہے۔ اور بغاوت میں بزدلی کا کوئی کام نہیں ہے۔ ابھی تو شہباز شریف کی رہائی تاخیر کا شکار ہو گئی ہے۔ لیکن جہانگیر ترین کو شہباز شریف کے ساتھ چلنے کی راہیں کھولنا ہونگی۔ جہانگیر ترین اور شہباز شریف ملکر اگلا نقشہ بنا سکتے ہیں۔ جو مقتدر حلقوں کو بھی قابل قبول ہوگا۔
جہانگیر ترین کو اب تحریک انصاف ترین گروپ کے لیے اعلان میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ جو لوگ انھیں ڈرا رہے ہیں کہ ان کے ساتھ ووٹ بینک نہیں ہے۔ اس لیے وہ آگے کیا کریں گے۔ تو جہانگیر ترین سے زیادہ بہتر کون جانتا ہے۔
کہ جیت کے لیے ووٹ بینک کی کتنی اور دوسرے لوازمات کی کتنی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسے جہانگیر ترین باہر نکلیں گے کارکن بھی ان کے ساتھ آئیں گے۔ کیونکہ تحریک انصاف کا کارکن بھی اس وقت تحریک انصاف کی کارکردگی سے نا امید ہے۔ اسے بھی نئی امید دینے کی ضرورت ہے۔ عین ممکن ہے کہ جہانگیر ترین گروپ تحریک انصاف کے کارکنان اور ووٹرز میں ایک نئی امید پیدا کر سکے۔ لیکن یہ سب قبل از وقت ہے۔
تا ہم پھر بھی جہانگیر ترین کو اب سیز فائر اور صلح کانہیں سوچنا چاہئے۔ وہ ایک ایسی بند گلی میں ہیں جہاں پیچھے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ انھیں آگے ہی بڑھنا ہے۔ سیز فائر اور صلح کے مشورے دینے والے جہانگیر ترین اور ان کے دوستوں کے دوست نہیں ہیں۔ وہ ان کی سیاسی موت کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہی حقیقت ہے۔