ووٹ کو عزت اور مفاہمت کی منزل ایک
مسلم لیگ (ن) میں کیا بیانیوں کی کوئی لڑائی ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ کوئی لڑائی نہیں ہے، البتہ حکمت عملی پر اختلاف ضرور ہے لیکن منزل پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔ دونوں انتخاب لڑنے اور جیتنے پر یکسو ہیں۔ دونوں حکومت میں آنے پر متفق ہیں اور اپوزیشن میں نہیں رہنا چاہتے۔ دونوں قانون کے دائرے میں رہ کر عوامی جدو جہد پر یقین رکھتے ہیں۔
دونوں اپنے مخالفین کو سیاسی میدان میں شکست دینے کے حامی ہیں۔ اس طرح ایک لمبی فہرست بیان کی جا سکتی ہے۔ ایک طرف ووٹ کو عزت دو کی بات کی جا رہی ہے، دوسری طرف شہباز شریف مفاہمت اور مشاورت کی بات کر رہے ہیں۔ ایک طرف آئین کی بالادستی بات کی جا رہی ہے، دوسری طرف شہباز شریف مل کر چلنے کی بات کر رہے ہیں۔ ایک ماحول بنایا جا رہا ہے کہ اختلاف اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ اب اکٹھے رہنا مشکل ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اختلاف کوئی اتنا بڑا نہیں ہے کہ بات علیحدگی تک پہنچ جائے۔
شہباز شریف آئینی حدود میں مفاہمت اور مشاورت کی بات کر رہے ہیں۔ وہ کوئی اسٹبلشمنٹ کو اقتدار دینے کی بات نہیں کر رہے بلکہ ان کے ساتھ مل کر نظام حکومت کو چلانے کی بات کر رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ اقتدار ملنے کے بعد پاکستان کے معروضی حالات ایسے نہیں کہ ہم کوئی سولو فلائٹ کر سکیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ اختیار اور اقتدار کے لیے لڑنے کی بجائے مل کر ملک کی ترقی کے لیے کام کرنا چاہئے۔ یہ سب پاکستان کے آئین کے اندر رہ کر ممکن ہے۔
کیا یہ حقیقت نہیں کہ اس ملک کی اسٹبلشمنٹ بھی اکیلی ملک نہیں چلا سکتی۔ اسے ملک چلانے کے لیے ملک کی مقبول قیادت کی حمایت کی ضرورت رہتی ہے۔ اسٹبلشمنٹ کے حکومت کے تمام ماڈل اسی لیے فیل ہوئے ہیں کہ اسے اپنے تمام تر ماڈلز میں ملک کی مقبول سیاسی قیادت کی حمایت نہیں حاصل رہی ہے۔ اسی لیے تمام تر کوششوں کے باجود ملک کو کوئی کامیاب نظام حکومت کا کوئی ماڈل نہیں دے سکی۔ دس دس سال کے بلا شرکت غیر اقتدار بھی کوئی کامیاب نہیں رہے ہیں اور عوامی حمایت سے محروم رہے ہیں۔ ساری قوت ملک کی مقبول سیاسی قیادت کو اقتدار سے باہر رکھنے میں ہی لگ جاتی ہے۔
ایوب فاطمہ جناح سے لڑتے لڑتے ہار گئے۔ یحیی خان مجیب سے لڑتے لڑتے آدھا ملک گنوا بیٹھے۔ ضیاء الحق بھٹو کو مار کر بھی آرام سے حکومت نہیں کر سکے۔ بھٹو نے پھانسی کے بعد بھی ان کی جان نہیں چھوڑی۔ مشرف ملک کی دونوں مقبول قیادت کو جلا وطن کرکے بھی غیر مقبول ہی رہے اور آج بھی غیر مقبول ہی ہیں۔ انہوں نے سیاست میں آنے کی بہت کوشش کی لیکن غیر مقبول ہونے کی وجہ سے ناکام رہے۔
دوسری طرف انتہائی طاقتور مقبول سیاسی حکومتیں بھی اسٹبلشمنٹ سے لڑائی کی وجہ سے ملک کی وہ خدمت نہیں کر سکی ہیں جیسی ان سے توقع تھی۔ نواز شریف دو تہائی اکثریت کے ساتھ بھی اپنی حکومت نہیں بچا سکے۔ بھٹو تمام تر مقبولیت کے باجود اسٹبلشمنٹ کا راستہ نہیں روک سکے۔ نواز شریف اب بھی سولو فلائٹ میں کچھ کامیاب نہیں رہے ہیں۔ انہوں نے بے شک اسٹبلشمنٹ کو بہت کمزور کیا۔ لیکن آخر میں اسٹبلشمنٹ نے انہیں نکال لیا اور وہ جی ٹی روڈ پر پوچھتے رہے مجھے کیوں نکالا۔
سوال یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے پاس اس صورتحال کا کیا حل ہے۔ ووٹ کو عزت دو اور سول بالا دستی کے جو نعرے لگائے جارہے ہیں کیا وہ اس صورتحال کا کوئی حل پیش کرتے ہیں۔ ایک لمحہ کے لیے مان لیتے ہیں کہ عوام ان نعروں کے نتیجے میں مسلم لیگ (ن) کو اقتدار دے دیتے ہیں۔ لیکن اقتدار تو پہلے بھی تین دفع ملا ہے۔ سوال اقتدار لینے کا نہیں، سوال اقتدار چلانے کا ہے، اگر دوبارہ پھر اقتدار ملنے کے بعد محاذ آرائی میں جانا ہی ہے تو پھر کیا دوبارہ مجھے کیوں نکالا ہی بولتے رہیں گے۔ اس لیے مسلم لیگ (ن) کو پاکستان کی ایک مقبول سیاسی جماعت کے طور پر اقتدار چلانے کا بھی کوئی فارمولہ دینا ہوگا۔ شاید شہباز شریف یہی فارمولہ دے رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ بار بار کے تجربات سے دونوں اطراف کو سبق سیکھنا چاہئے۔
آج بھی اسٹبلشمنٹ کی حمایت یافتہ ایک سیاسی حکومت ہے۔ لیکن یہ سیاسی حکومت بھی وہ نتائج نہیں دے رہی ہے جن کی ضرورت ہے۔ یہ سیاسی حکومت بھی انہیں مسائل کا شکارہے۔ جیسی اسٹبلشمنٹ کی حمایت یافتہ دیگر حکومت شکار رہی ہیں۔
کیا ووٹ کوعزت دو اور سول بالا دستی کے نعرہ لگانے والے دوستوں کے پاس ایسا کوئی روڈ میپ ہے جس سے وہ انتخابی میدان میں ہی اسٹبلشمنٹ کی حمایت یافتہ سیاسی جماعتوں اور الیکٹبلزکو شکست دے سکیں۔ ووٹ کی طاقت سے ایسا مشکل ہے۔ اسٹبلمشمنٹ کوئی آپ کے سامنے انتخاب نہیں لڑ رہی ہوتی کہ آپ اسے انتخاب میں شکست دے دیں۔
اسٹبلشمنٹ کے ہتھیار مختلف ہیں۔ نواز شریف ملک میں ووٹ کو عزت دو اور سول بالا دستی کے حوالے سے کوئی قومی اتفاق رائے بھی نہیں بنا سکے ہیں۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں بھی ان کے ساتھ متفق نہیں ہیں۔ اپوزیشن کی بڑی جماعتیں بھی ان کے ساتھ متفق نہیں ہیں۔ حکمران جماعت بھی ان کے ساتھ متفق نہیں ہے۔ اس لیے سیاسی تناؤ بھی ان کے سیاسی اہداف کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ پی ڈی ایم کی ہی مثال سب کے سامنے ہے۔ اے این پی اور پیپلزپارٹی درمیان میں راستہ چھوڑ گئے ہیں۔
کیا پاکستان مسلم لیگ (ن) اگلا انتخاب ہارنے کی متحمل ہو سکتی ہے۔ اگر مسلم لیگ (ن) نے اگلا انتخاب ہارنا ہی ہے۔ جیسے 2018میں ہی ہرایا گیا ہے۔ لیکن ہر ہار کی ایک سیاسی قیمت ہے۔ انتخاب لڑنے والے لوگ ہارنے کے لیے انتخاب نہیں لڑتے۔ سیاسی جماعتوں کی ٹکٹوں کی مانگ اسی لیے ہوتی ہے کہ لوگ اس ٹکٹ سے جیت کی راہ تلاش کرتے ہیں۔
لیکن اگر پہلے سے معلوم ہو جائے کہ ٹکٹ جیت کا نہیں ہار کا ہے تو کون ٹکٹ لے گا۔ جب معلوم ہو جائے کہ ٹکٹ رحمت کی بجائے زحمت بن جائے گا تو ٹکٹ کون لے گا۔ مسلم لیگ (ن) کے پاس ہار سے بچنے کا کوئی روڈ میپ بھی نہیں ہے۔ ابھی دیکھ لیں آزاد کشمیر میں ہار کے بعد حلف نہ اٹھانے کی بہت بات کی گئی۔ لیکن پھر حلف اٹھا لیا۔ جب نظام کا حصہ رہنا ہے بغاوت نہیں کرنی ہے تو پھر کیا ہوگا۔ ایک راستہ تو یہ ہو سکتا ہے کہ آپ انتخابی سیاست سے علیحدگی کا علان کر دیں۔
اور صرف سول بالادستی کے لیے انقلاب کے لیے کام کریں۔ اور جب تک انقلاب نہ آجائے اقتدار کی طرف نہ دیکھیں۔ اسٹبلشمنٹ کے بنائے ہوئے کھیل کا حصہ نہ بنیں۔ لیکن اگر اسی انتخابی نظام میں کھیلنا بھی ہے اور اسی میں سے راستہ نکالنا ہے تو پھر پہلے مرحلہ میں کم از کم مشاورت اور مفاہمت کے ساتھ چلنے کی بات کرنی ہوگی۔ نئے رولز آف گیم بنانے ہوں گے۔ محاذ آرائی اور سولو فلائٹ سے دو تہائی اور مکمل اکثریت سے بھی نتائج حاصل نہیں ہوئے، اس لیے شہباز کا راستہ ہی واحد راستہ ہے جہاں سے جیت اور منزل کا راستہ نکل سکتا ہے ورنہ صورتحال سب کے سامنے ہے۔