ٹیکنوکریٹس کا تجربہ بھی ناکام
پاکستان تحریک انصاف کی ناکامیوں کی فہرست بنائی جا سکتی ہے۔ اسی طرح کچھ دوست اس کی کامیابیوں کی فہرست بھی بنا سکتے ہوں گے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان نے کم از کم ایک بہت اچھا کام کیا ہے، انھوں نے پاکستان میں ٹیکنوکریٹس کی حکومت کی خواہشات کو زمین بوس کر دیا ہے۔
ورنہ اس سے پہلے ایک رائے یہ بھی تھی کہ ملک میں مختلف شعبوں کے ماہرین پر مشتمل ایک حکومت بنائی جائے جسے عرف عام میں ٹیکنوکریٹس کی حکومت کہا جاتا ہے۔ کچھ دوستوں کی رائے تھی کہ پاکستان جس بھنور میں پھنس چکا ہے اس سے نکلنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ ملک کی باگ ڈور پڑھے لکھے اور مختلف شعبہ جات کے ماہرین کے سپرد کر دی جائے۔ اسی لیے جب بھی جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی بات کی جاتی ہے، ٹیکنوکریٹ حکومت کے حق میں دلائل اور اس کے لیے راہ ہموار ہوتی نظر آنی شروع ہو جاتی۔
لیکن عمران خان نے اپنی ٹیم میں اہم عہدوں پر ٹیکنوکریٹس کو لا کر یہ متھ بھی توڑ دی ہے کہ ٹیکنوکریٹس اس ملک کی کوئی قسمت بدل سکتے ہیں۔ بلکہ اب تو یہ بات سامنے آئی ہے کہ ٹیکنوکریٹس کو ملک چلانے اور عوامی مسائل کو حل کرنے کا عملی تجربہ نہیں ہوتا اور نہ ہی انھی عوامی مسائل کا کوئی ادراک ہوتا ہے۔ اس لیے نہ تو وہ عوا م کے لیے اچھے ہیں اور نہ ریاست کے لیے اچھے ثابت ہوئے ہیں۔
وہ اچھی انگریزی بول سکتے ہیں، بہترین لباس پہن سکتے ہیں، اشرافیائی آداب کا پتہ ہوتا ہے، جس چیز کا انھیں علم اور پتہ نہیں ہوتا، گراس روٹ لیول پر عوام کے مسائل اور ان کا حل ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال وزارت خزانہ کی ہے۔ عمران خان نے وزارت خزانہ اور عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ معاملات حل کرنے کے لیے مختلف ٹیکنوکریٹس کوآزمایا ہے۔
لیکن سب نے مایوس کیا ہے۔ ایف بی آر چیئرمین کے لیے ٹیکنوکریٹس کے جو تجربات کیے گئے ہیں وہ بھی ناکام ہی ثابت ہوئے ہیں۔ جن معاشی ماہرین کو حکومتی معاملات میں ساتھ جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے، وہ بھی ناکام ہی نظر آ رہے ہیں۔ شوکت ترین بھی ایک ٹیکنوکریٹ ہی ہیں۔
ان میں کتنی صلاحیت اور ذہانت ہے، وہ اسی کے مطابق کام کر رہے ہیں، وہ کیسا کام کر رہے ہیں، یہ اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اسی طرح پٹرولیم کے معاملات کے لیے بھی ندیم بابر اور دیگر کو آزمایا گیا ہے، ان کے کام بھی بول رہے ہیں۔ صحت کے شعبہ میں ابھی تک ٹیکنوکریٹس سے ہی معاملات چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تا ہم دیکھا جائے تو عمران خان کی صحت کے شعبہ میں پالیسیاں بھی کوئی عوامی امنگوں کی ترجمان نہیں ہیں۔ ادویات کی قیمتوں میں جس طرح اضافہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح دیکھا جائے تو صحت کے شعبہ میں کوئی خاص بہتری نظر نہیں آتی۔
آج عمران خان کے سیاسی ساتھیوں کو بھی یہی گلہ ہے کہ انھوں نے حکومت کی مکمل باگ ڈور غیر منتخب لوگوں کو دے دی ہے اور انھیں کوئی پوچھ ہی نہیں رہا۔ ٹیکنوکریٹس نے غیر مقبول فیصلے کیے ہیں جس کی وجہ سے تحریک انصاف کی عوامی مقبولیت کو بہت دھچکا پہنچا ہے، لیکن میرے لیے یہ زیادہ اہم بات نہیں ہے۔
زیادہ اہم بات یہ ہے کہ کیا ان غیر منتخب اور ٹیکنوکریٹس کی کارکردگی سے ریاست پاکستان کو کوئی فائدہ ہوا ہے۔ اگر ریاست پاکستان کو فائدہ ہوا ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ریاست کے لیے تو ٹھیک ہیں تاہم ان کے سخت فیصلوں سے عوام ناراض ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ان کے فیصلوں اور کارکردگی سے ریاست کو بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا تو پھر یقیناً ان کی کارکردگی پر سوالیہ نشانات ہیں۔ اگر ریاست اور عوام دونوں ہی ناراض ہوں تو کیا کیا جائے۔
نیشنل سیکیورٹی میں دیکھ لیں۔ نیشنل سیکیورٹی کے مشیر معید یوسف بھی ایک ٹیکنوکریٹ ہیں۔ بتایا یہی گیا ہے کہ انھیں امریکا اور مغرب کے ساتھ کام کرنے کا وسیع تجربہ ہے۔ اس لیے ان کو مشیر بنانے سے پاکستان کو بہت فائدہ ہوگا۔ اب حالات کچھ یوں ہیں کہ پاکستان کے مغرب اور امریکا کے ساتھ تعلقات پہلے سے زیادہ کشیدہ نظر آرہے ہیں۔ آج کل بہت شور ہے کہ انھوں نے پاکستان کی پہلی نیشنل سیکیورٹی پالیسی بنا دی ہے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ ان کا کام پیپر لکھنا نہیں اس پر عمل کرنا ہے۔ دیکھا یہ جائے گا کہ پاکستان کے دنیا کے ساتھ سیکیورٹی تعلقات بہتر ہوئے یا خراب ہوئے۔
اگر ہمارے امریکا کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے تو سیکیورٹی کی پالیسی کس کام کی۔ حالت تو یہ ہے کہ امریکی صدر کی وزیراعظم عمران خان کو کال نہیں کرائی جا سکی ہے۔ آئی ایم ایف کی سخت شرائط کو نرم کروانے کے لیے بھی امریکی حمایت نہیں لے سکے ہیں۔ یہ تجربہ بھی کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔
اسٹیٹ بینک کے گورنر بھی ایک ٹیکنوکریٹ ہی ہیں۔ لیکن جس طرح روپے کی قدر گر رہی ہے۔ شرح سود کے ساتھ کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ ان کے بارے میں آج بھی عمومی رائے یہی ہے کہ وہ پاکستان کے گورنر اسٹیٹ بینک نہیں بلکہ آئی ایم ایف کے نمایندہ ہیں۔ ان کی کارکردگی بھی آج تک نہ تو ریاست پاکستان اور نہ ہی پاکستان کے عوام کے حق میں نظر آرہی ہے۔ یہ تجربہ بھی کوئی خاص کامیاب نظر نہیں آرہا۔ وہ آئی ایم ایف سے تو پاکستان کے لیے کچھ بھی نہیں لے سکے ہیں البتہ پاکستان سے آئی ایم ایف کو بہت کچھ دے رہے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کے اقدام کو بھی کوئی ان کی اچھی کارکردگی نہیں سمجھا جائے گا۔
جیسے خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ عمران خان حکومت کی ایک اور خاصیت یہ بن گئی ہے کہ ایک طرف تو جن ٹیکنوکریٹس کو انھوں نے حکومت میں شامل کیا ہے وہ بھی نہ تو عوام اور نہ ہی عوامی نمایندوں کو اپنے حق میں کر سکے ہیں۔ ان کی کارکردگی پر بہت سے سوالیہ نشانات موجود ہیں۔ آج رائے بن گئی ہے کہ عمران خان کی حکومت کو عوامی نمایندوں نے نہیں بلکہ ان ٹیکنوکریٹس نے ڈبویا ہے۔ آج مقبولیت میں کمی اور عوامی ناراضگی کے ذمے دار یہ ٹیکنوکریٹ ہیں۔ اسی طرح زیادہ افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ حکومت میں جو عوامی نمایندے شامل ہیں انھوں نے بھی ٹیکنوکریٹک انداز ہی اپنا لیا ہے۔
بجائے اس کے کہ وہ کابینہ میں شامل ٹیکنوکریٹس کو سیاسی حکومت اور عوامی حکومت کے رموز سکھاتے انھوں نے ٹیکنوکریٹس کے رموز سیکھ لیے ہیں۔ اس کی بہترین مثال حماد اظہر ہیں۔ وہ بھی ٹیکنوکریٹ بن گئے ہیں۔ اسی لیے اب کابینہ میں انھیں بھی عوامی نمایندے کے بجائے ٹیکنوکریٹ ہی سمجھا جاتا ہے۔
اسد عمر، شفقت محمود سب ہی ٹیکنو کریٹ بن گئے ہیں۔ شاہ محمود قریشی میں بھی عوامی رنگ ختم ہو گیا ہے۔ وہ بھی خود کو وزارت خارجہ کا ٹیکنوکریٹ ہی سمجھنے لگ گئے ہیں۔ اس لیے ہمیں عمران خان کی کابینہ اور حکومت میں ٹیکنوکریٹ کا رنگ چڑھا نظر آتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ لوگ جو عوامی سیاست کرتے ہیں وہ ناراض دکھائی دیتے ہیں۔ ان کو عوام میں جانے میں مشکل پیش آرہی ہے۔
لوگ ان سے سوال کرتے ہیں لیکن وہ اپنی ہی کابینہ کے ان ٹیکنوکریٹس سے سوال نہیں کر سکتے۔ یہ معاملہ عمران خان کے لیے مسائل پید اکر رہا ہے۔ لیکن ٹیکنوکریٹس کی حالیہ ناکامی مستقبل میں جمہوریت کی بساط لپیٹنے کے لیے ٹیکنوکریٹ حکومت کے شوشوں کو بند کر دے گی۔ جو اپنی جگہ ایک خوش آیند ہے۔