تبادلوں کی بھرمار
مرکز اور پنجاب میں اعلیٰ افسر شاہی کے تبادلوں کی بھر مار کر دی گئی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق دو دن میں مرکز میں اعلیٰ سطح کے چالیس جب کہ پنجاب میں نوے تبادلے کیے گئے ہیں۔ یوں دو دن میں 130افسران کا باہمی تبادلہ کر دیا گیا ہے۔ ایک کو دوسرے کی جگہ اور دوسرے کو تیسرے کی جگہ لگا دیا گیا۔
تبصر ہ نگاروں کی رائے میں افسر شاہی کی پرانی شراب نئی بوتل میں ڈال کر دوبارہ کام چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ بات ناقابل فہم ہے کہ بیوروکریسی کے ان باہمی تبادلوں سے کیا حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اہداف کیا ہیں۔ جنھیں ہٹایا گیا ہے انھیں بھی آپ نے ہی لگایا تھا۔ جنھیں اب لگایا ہے وہ پہلے جہاں تھے وہ بھی آپ نے ہی لگایا تھا۔ اس میں نیا کیا ہے۔
مرکز کی بات بعد میں کرتے ہیں پہلے پنجاب کی بات کریں گے۔ پنجاب میں چیف سیکریٹری آئی جی سمیت تمام سنیئر بیوروکریسی بدل دی گئی ہے۔ میجر (ر) اعظم سلیمان کو چیف سیکریٹری لگا دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے یوسف نسیم کھوکھر پنجاب کے چیف سیکریٹری تھے۔ یوسف نسیم کھوکھر کو میجر (ر) اعظم سلیمان کی جگہ وفاقی سیکرٹر ی داخلہ لگا دیا گیا ہے۔ اس طرح یہ بھی ایک باہمی تبادلہ ہے۔ اگر حکومت یوسف نسیم کھوکھر کی بطور چیف سیکریٹری کارکردگی سے خوش نہیں تھی تو انھیں سیکریٹری داخلہ جیسی اہم جگہ پر کیوں تعینات کیا گیا ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ سوال کارکردگی نہیں ہے۔ بہر حال میجر (ر) اعظم سلیمان پنجاب کے لیے کوئی نئے نہیں ہے۔ وہ شہباز شریف دور میں پنجاب کے ہوم سیکریٹری رہے ہیں۔ پھر نگران دور میں چیف سیکریٹری سندھ بن گئے۔ میجر (ر) اعظم سلیمان مقتدر حلقوں کے بھی پسندیدہ خیال کیے جاتے ہیں۔
میرے خیال میں سردار عثمان بزدار کے لیے بھی اس وقت میجر (ر) اعظم سلیمان بہترین چوائس تھے۔ ایک ماحول بن رہا تھا کہ ایک طاقت ور گروپ عثمان بزدار کی کارکردگی سے خوش نہیں ہے۔ پنجاب میں ڈیلیو ری کے مسائل ہیں۔ بزدار کو ہٹانا ناگزیر ہو گیا ہے۔ ایسے میں میجر (ر) اعظم سلیمان کو چیف سیکریٹری لگانے سے اس سارے ماحول اور بیانیہ کو الٹ دیا گیا ہے۔ اب کہا جا سکتا ہے کہ بہترین چوائس کو پنجاب کی کمان دے دی گئی ہے۔ یہ پیغام بھی دے دیا گیا ہے کہ تقرر و تبادلوں سے لے کر تمام بنیادی نوعیت کے فیصلوں میں چیف سیکریٹری اور آئی جی کو مکمل آزادی ہو گی۔
اب گڈ گورننس اور ڈیلیوری کا محاذ میجر (ر) اعظم سلیمان اور آئی جی شعیب دستگیر کے پاس ہو گا۔ حالیہ تبادلوں میں وزیر اعلیٰ کی کوئی مداخلت شامل نہیں ہے۔ تاہم ان دونوں کو عثمان بزدار کا مکمل تعاون اور حمایت حاصل ہوگی۔ بلکہ وہ ان کی پشت پر کھڑے ہوں گے۔ یہی طے ہوا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ عثمان بزدار کے لیے بہترین ٖفارمولہ تھا۔ اس میں ان کی دونوں طرح جیت ہے۔ کامیابی اور ناکامی دونوں میں ان کی جیت ہے۔ اس لیے انھوں نے اس کو قبول کر کے سیاسی دانش کا مظاہرہ کیا ہے۔ مرکز میں عمران خان بھی ایسے ہی حکومت چلا رہے ہیں۔ اگر ایسا پنجاب میں ہو جائے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ویسے بھی عثمان بزدار کا کیا نقصان ہے۔ پہلے بڑے تبادلوں اور فیصلوں کے لیے بنی گالہ سے پوچھا جاتا تھا۔ اب پنجاب میں فیصلے ہوں گے۔
آدھی سے زائد پنجاب پولیس میں باہمی تبادلہ کر دیے گئے ہیں۔ جیسے چیف سیکریٹری نے کیے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اب پنجاب کی افسر شاہی کام کرنے پر آمادہ ہوجائے گی۔ پولیس کا مسئلہ شائد اتنا اہم نہیں ہے بہر حال بیوروکریسی کا مسئلہ زیادہ اہم ہے۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ جب سے یہ حکومت آئی ہے افسر شاہی نے قلم چھوڑ ہڑتال کی ہوئی ہے۔ افسران ایک روپے کی فائل پر دستخط کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہر کوئی کہتا ہے کہ میں کیوں دستخط کروں، کل نیب پکڑ لے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ افسران نے فیصلہ کر لیا ہوا ہے جب تک نیب ہے وہ کام نہیں کریں گے۔ یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ یہ درست ہے کہ بیوروکریسی کو کہا گیا ہے کہ وہ نیب کا خوف چھوڑ دیں۔ لیکن جہاں تک میری معلومات ہیں کسی نے اس بات پر یقین نہیں کیا۔ سب کی رائے ہے، کہنے سے کیا ہوتا ہے۔ جب تک اس ضمن میں مناسب قانون سازی نہیں ہوگی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ایسی زبانی یقین دہانیوں سے کام نہیں چلے گا۔ مرکز میں بھی یہی مسئلہ ہے۔ وہاں بھی افسر شاہی کام کرنے کو تیار نہیں۔ اسی لیے عمران خان بار بار تبدیلیاں کرنے پر مجبور ہیں۔ کوئی بھی رسک لینے کے لیے تیار نہیں ہے۔
مجھے پنجاب کے تبادلوں کی منطق سمجھ نہیں آئی۔ آپ دیکھیں ڈی سی او سیالکوٹ کو ڈی سی او میانوالی لگا دیا گیا ہے۔ سیکریٹری آبپاشی کو کمشنر لاہور لگا دیا گیا ہے۔ سیکریٹری سوشل ویلفیئر کو سیکریٹری وومن ڈویلپمنٹ لگا دیا گیا ہے۔ سیکریٹری اسپورٹس کو سیکریٹری اربن ڈویلپمنٹ لگا دیا گیا ہے۔ سیکریٹری ہیلتھ کو اٰیڈشنل چیف سیکریٹری اور ایڈیشنل چیف سیکریٹری کو وزیر اعلیٰ انسپکشن ٹیم کا انچارج لگا دیا گیا ہے۔ ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ کو سیکریٹری آبپاشی لگا دیا گیا۔ سیکریٹری وومن ڈویلپمنٹ کو سیکریٹری پراسیکیوشن لگا دیا گیا۔ سیکریٹری پاپولیشن کو سیکریٹری مائنز لگا دیا گیا۔ کمشنر راولپنڈی کو سیکریٹری انرجی لگا دیا گیا ہے۔ ملتان کے کمشنر کو وزیر اعلیٰ کا سیکریٹری لگا دیا گیا ہے۔ زیادہ تر تبادلوں میں ایک افسر کو ایک جگہ سے ہٹا کر دوسری جگہ لگا دیا گیا ہے۔ اس تبدیلی کے پیچھے کیا منطق ہے۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں۔
اسی طرح پولیس میں دیکھیں آر پی او شیخوپورہ کو آر پی او راولپنڈی لگا دیا گیا ہے۔ سی سی پی او لاہور بی اے ناصر کو ایڈیشنل آئی جی ٹریفک لگا دیا گیا ہے جب کہ ڈی آئی جی پولیس انفارمیشن ٹیکنالوجی ذوالفقار حمید کو سی سی پی او لاہور لگا دیا گیا ہے۔ وہ لاہور میں متعدد اہم جگہوں پر تعینات رہ چکے ہیں۔ لیکن کہا جاتا تھا کہ وہ شہباز شریف کے دور میں لگے رہے ہیں۔ سنیئر پولیس افسر بلال کمیانہ کو گزشتہ دور کی تعیناتیوں کی وجہ سے نظرانداز کیا گیا۔ حالانکہ ان کے دور میں فیصل آباد میں کرائم ریٹ میں واضح کمی ہوئی تھی۔ انھیں انعام بھی ملے تھے۔ لیکن وہ سب گزشتہ دور میں تھا۔ کیا اب پالیسی بدل گئی ہے۔ یا چند افراد کے لیے بدلی ہے۔ یہ بات بھی دیکھنے کی ہے۔
آپ وفاق میں دیکھ لیں۔ وہاں بھی تبادلوں کی کوئی خاص منطق نہیں۔ ڈی جی ایف آئی اے ریٹائر ہو رہے تھے ان کی جگہ واجد ضیا کو لگانا بھی کوئی خبر نہیں۔ سب کو توقع تھی کہ واجد ضیا کو اس حکومت میں اہم تعیناتی ملے گی۔ لیٹ ملی ہے۔ باقی کچھ اہم نہیں۔ جو لوگ بطور ایڈیشنل سیکریٹری کام کر رہے تھے انھیں اگلے گریڈ میں ترقی کے بعد انھی محکوں میں سیکریٹری لگا دیا گیا ہے۔
دوستوں کی رائے ہے کہ افسر شاہی کی پرانی شراب کو نئی بوتل میں ڈال کر کام چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن کامیابی نہیں ملی۔ کام تب ہی چلے گا جب افسر شاہی کے دل سے نیب کا خوف ختم ہوگا۔ دیکھتے ہیں اب پنجاب میں بیوروکریسی کا ردعمل دیتی ہے۔ البتہ چیف سیکریٹری میجر ریٹائرڈ اعظم سلیمان کی محنت سے فرق ضرور پڑے گا۔