سیاسی منظر نامہ
حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان ایک مرتبہ پھر معاہدہ ہو گیا ہے۔ البتہ سابقہ معاہدوں کے برعکس اس معاہدہ کی تفصیلات کو عوام اور میڈیا سے مخفی رکھا جا رہا ہے۔ ورنہ پہلے معاہدوں کی کاپیاں بہت فخر کے ساتھ عوام اور میڈیا میں تقسیم کی جاتی تھیں۔
اس لیے موجودہ معاہدہ کو مخفی رکھنے سے جو شکوک و شبہات پیدا ہوئے ہیں وہ بھی اپنی جگہ اہم ہیں۔ ویسے تو اگر حکومت کوئی بھی معاہدہ کرنے پر مجبور ہوئی ہے تو اسے حکومت کی فتح نہیں قرار دیا جا سکتا ہے۔ معاہدہ کے لیے حکومت کو بار بار اپنی مذاکراتی ٹیم میں تبدیلیاں کرنی پڑی اسے بھی حکومت کی نہ تو کوئی کامیا ب حکمت عملی اور نہ ہی فتح قرار دیا جا سکتا ہے۔
حکومت کو اپوزیشن کا بھی شکر گزار ہونا چاہیے۔ دس دن تک جاری رہنے والے اس بحران کے دوران اپوزیشن نے اس بحران سے فائدہ اٹھانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اپوزیشن کی بڑی سیاسی جماعتوں نے ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت خود کوسارے معاملے سے علیحدہ رکھا۔ اپوزیشن نے اس بحران سے فائدہ اٹھانے اور حکومت کی مشکلات میں اضافہ کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔
اپوزیشن کے اس ذمے دارانہ رویہ کا حکومت کو بہت فائدہ ہوا ہے۔ اگر اپوزیشن بھی اپنا وزن تحریک لبیک کے پلڑے میں ڈال دیتی تو یقیناً حکومت کے لیے مشکلات بڑھ سکتی تھیں، لیکن اپوزیشن نے ایسا نہیں کیا۔ کیا حکومت اس پر اپوزیشن کی شکر گزار ہو گی۔ لگتا نہیں کیونکہ تحریک انصاف نے ابھی تک سیاسی رواداری کی کوئی سیاست نہیں کی ہے۔
سیاسی تجزیہ نگار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ماضی میں جب تحریک لبیک نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف اسی قسم کے دھرنے اور مارچ کیے تھے تو عمران خان نے بطور اپوزیشن رہنما نہ صرف ان مارچ اور دھرنوں کی حمایت کی تھی بلکہ ان سے بھر پور سیاسی فائدہ اٹھانے کی بھی بھر پور کوشش کی۔ اس لیے جب آج عمران خان کی حکومت اس بحران کا شکار تھی تو یہ تجزیہ کیا گیا کہ آج وہ مکافات عمل کا شکار ہے۔ دھرنوں اور مارچ سے باتیں منوانے کی روایت کو پاکستان میں عمران خان نے ہی پروان چڑھایا اور آج وہ اپنی ہی بوئی ہوئی فصل کاٹ رہے ہیں۔
وہ جب اپوزیشن میں تھے تو انھیں یہ احساس نہیں تھا کہ کل جب وہ حکومت میں ہونگے تو یہ حالات ان کی حکومت کے لیے کس قدر مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ موجودہ اپوزیشن کو اس بات کا احساس ہے کہ کل جب وہ حکومت میں ہونگے تو یہ حالات ان کے لیے بھی مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔ اس لیے انھوں نے اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی ہے۔
پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کی پالیسی میں کوئی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔ گزشتہ حکومت میں بھی مقتدر حلقوں نے ایسی صورتحال میں حکومت کو معاملات مذاکرات اور طاقت کے استعمال کے بغیر حل کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ آج بھی پاکستان کی اسٹبلشمنٹ اور مقتدر حلقوں نے حکومت کو معاملات مذاکرات اور طاقت کے استعمال کے بغیر حل کرنے کا ہی مشورہ دیا۔ فرق صرف اتنا ہے اس بار مشورہ بند کمرے میں دیا گیا تب برملا دیا گیا تھا۔ اطلاعات یہی ہیں کہ نیشنل سیکیورٹی کے اجلاس میں طاقت کا استعمال نہ کرنے کا مشورہ دیا گیا حالانکہ حکو مت طاقت کے استعمال کے لیے بھر پور تیار تھی۔
اب تو تمام خبریں اور تصاویر عوام کے سامنے آگئی ہیں۔ مذاکراتی علماء نے بھی میڈیا کے سامنے اقرار کر لیا ہے کہ معاملہ صرف اور صرف آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی وجہ سے حل ہوا ہے۔ آرمی چیف کی مفتی منیب اورمولانا محمد بشیر فاروقی قادری سے ملاقات کی تصویر میڈیا میں موجود ہے۔ بعدازاں مولانا محمد بشیر فاروقی نے میڈیا میں کہا ہے کہ آرمی چیف کے بغیر معاملہ حل ہونا ممکن نہیں تھا۔ انھوں نے ایک بہترین کردار ادا کیا ہے۔ جس کو سب قدر کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔
کیا کسی کو اندازہ ہے کہ اگر طاقت کا استعمال کیا جاتا تو اس کے کیا نتائج ہوتے۔ یہ کہنا آسان ہے کہ سب کو مار دیں گے۔ لیکن جمہوری ہی نہیں بلکہ آمر حکومتوں کے لیے بھی لوگوں کو مارنا آسان نہیں ہے۔ حکومت طاقت کا استعمال کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ حکومت معاملات کو بہتر انداز میں حل کرنے کا نام ہے۔
موجودہ بحران نے ایک دفعہ پھر پاکستان میں قانون نافذکرنے والے سول اداروں اور پولیس کی صلاحیت پر سوال اٹھائے ہیں۔ یہ درست ہے کہ پولیس کے جوانوں نے جانوں کی قربانی دی ہے۔ ان کی قربانی ہم سب پر قرض ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ یہ صورتحال بھی قابل غور ہے کہ پولیس اس بحران سے نبٹنے میں ناکام رہی ہے۔ ان کو لاہور اور پھر مریدکے میں روکنے میں ناکام رہی۔ پھر حکومت رینجرز کو بلانے پر مجبور ہوئی۔
میں ذاتی طور پر سیاسی تنازعوں میں رینجرز کو بلانے کے حق میں نہیں۔ میں اس کو پاکستان کے لیے بہتر نہیں سمجھتا۔ پاکستان کے سول اداروں کو سیاسی تنازعوں سے نبٹنے کے قابل ہونا چاہیے۔ سول حکومت کو بار بار رینجرز کو بلانے کے بجائے پولیس کی استطا عت بڑھانے پر توجہ دینا چاہیے۔
موجود بحران میں حکومت کنفیوژ بھی نظر آئی۔ کبھی مذاکرات نہ کرنے کا اعلان کیا جاتا۔ کبھی طاقت کے استعمال کا اعلان کیا جاتا۔ کبھی سخت موقف پر قائم رہنے کا اعادہ کیا جاتا۔ لیکن حکومت کے پاس مسئلہ کا کوئی حل نہیں تھا۔ حکومت ایک طرف حکومتی رٹ قائم رکھنے کا اعادہ کرتی نظر آئی۔ دوسری طرف رٹ قائم کرنے کا کوئی منصوبہ موجود نہیں تھا۔ کوئی حکومتی وزار کو سمجھائے رٹ کوئی بیانات سے قائم نہیں ہوتی اس کے لیے ایک حکمت عملی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ بیانات توموجود تھے اور دوسری طرف حکمت عملی غائب نظر آئی۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا معاملہ حل ہونے کے باوجود حکومت کمزور ہوئی ہے۔ معاملہ حل ہونے کے باوجود وزرا کی نا اہلی سامنے آئی ہے۔ میڈیا بھی حکومت کے ساتھ تھا۔ لیکن اگر کل کو ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے اسلام آباد کی طرف مارچ شروع کیا تو حکومت کیا کرے گی۔ کیا ملک کی سیاسی جماعتوں کے مارچ کو بھی ایسے ہی رکاوٹیں کھڑی کر کے روکا جائے گا۔
کیا حکومت کے پاس سیاسی جماعتوں کا مارچ روکنے کے لیے طاقت کے استعمال کے علاوہ کوئی حکمت عملی نہیں ہوگی۔ کیا تب بھی یہی کہا جائے گا کہ ہم گولی چلا دیں گے۔ کیا تب بھی وزیر اعظم یہی کہیں گے کہ میں بلیک میل نہیں ہونگا۔ کیا تب بھی حکومتی وزرا بیانات سے ہی کام چلائیں گے۔ کیونکہ موجودہ صورتحال سے ملک کی اپوزیشن جماعتوں نے بے شک فائدہ نہیں اٹھایا۔ لیکن حکومت کی ایسی صورتحال سے نبٹنے کی نا اہلی کا بخوبی اندازہ ہو گیا ہے۔ جو حکومت کے لیے کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ حکومتوں کا بھرم ہی ہوتا ہے۔ بھرم ختم تو سب ختم۔