شہباز شریف سے جیل سے رہائی کے بعد مکالمہ
ہاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی کے قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف ایک لمبی جیل کاٹ کر آئے ہیں۔ ابھی انھوں نے اپنی سیاسی سرگرمیاں پوری طرح شروع نہیں کی ہیں۔ لمبی جیل کے بعد لوگ ان سے مل رہے ہیں۔ میں نے سوچا مجھے بھی ملنا چاہیے۔
شہباز شریف ابھی کوئی لمبی سیاسی بات کرنے کے موڈ میں نظر نہیں آئے تاہم میرے پاس بھی ایک اسکرپٹ تھا۔ اس لیے انھوں نے سیاسی باتوں سے جتنا اجتناب کرنے کی کوشش کی میں نے پھر بھی اپنے سوالات کے جواب جاننے کی بھر پور کوشش کی۔
ہر طرف شور ہے کہ ن میں سے ش نکل رہی ہے۔ مجھے بہت تجسس تھا کہ کیا واقعی ن میں سے ش نکل رہی ہے۔ میں نے پوچھا کہ یہ ن میں سے ش نکلنے کی کیا کہانی۔ مسکرائے اور قہقہہ لگاتے ہوئے کہنے لگے کہ یہ آج کی نہیں تیس سال کی کہانی ہے۔ تیس سال سے ن میں سے ش نکالنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ کب نہیں ہوئی۔ اور ن میں سے ش نکالنے والے کب کب ناکام نہیں ہوئے ہیں۔ اس لیے نہ پہلے کبھی ن میں سے ش نکلی ہے اور نہ کبھی نکل سکتی ہے۔ ش اور ن انشاء اللہ ایک ہی رہیں گے۔
میں نے کہا ن میں سے ش نکال کر وزارت عظمیٰ مل سکتی ہے۔ انھوں نے کہا یہ بھی پرانی کہانی ہے۔ جب جب ن میں سے ش نکالنے والوں نے کوشش کی ہے وزارت عظمیٰ پلیٹ میں رکھ کر دی ہے۔ میں نے ہمیشہ وزارت عظمیٰ پر ن کو ترجیح دی ہے۔ ن اور ش ایک ہیں۔ یہ جو روز ن میں سے ش نکالنے کا خواب دیکھتے ہیں۔ انھیں کچھ نہیں ملے گا۔
میں نے کہا پھر مفاہمت کا کیا بنے گا۔ شہباز شریف نے کہا مفاہمت کا میرا بیانیہ کوئی نیا نہیں ہے۔ میں تیس سال سے مفاہمت کی بات کر رہا ہوں۔ اس لیے یہ بھی میرا پرانا موقف ہے۔ میں نے پارٹی ڈسپلن کے اندر رہتے ہوئے ہمیشہ اپنی بات کی ہے۔ کبھی پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔ ن لیگ کے اندر مکمل جمہوریت ہے۔
پارٹی کے تمام فورمز پر میں اپنی بات رکھتا ہوں۔ پھر جو فیصلہ ہو جائے وہ ہم سب کا فیصلہ ہے۔ اب بھی یہی ہوگا۔ میں پارٹی کے اندر ہی اپنی بات رکھوں گا اور پھر جو فیصلہ ہوگا وہیں ہوگا۔ اس لیے مفاہمت کا مطلب یہ نہیں کہ میں کوئی الگ ہو رہا ہوں۔ میں نے اتنی لمبی جیل کاٹی ہے بلکہ عمران خان کے دور میں سب سے زیادہ جیل میں نے اور میرے بیٹے نے کاٹی ہے۔ اگر ن میں سے ش نکالنی ہوتی تو اتنی لمبی جیل کاٹنے کی کیا ضرورت تھی۔
اب تو بشیر میمن کے انکشافات سے ظاہر ہو گیا ہے کہ میری گرفتاری کے احکامات کہاں سے آتے تھے۔ مجھ پر مقدمات کیسے بنے ہیں۔ میں نے سب سے پہلے نیب نیازی گٹھ جوڑ کی بات کی تھی۔ آج وقت نے میری بات کو سچ ثابت کر دیا ہے۔ میری جیل نواز شریف سے میری اٹوٹ وفاداری کا ثبوت ہے۔ مجھے اس پر فخر ہے۔ حمزہ کی جیل بھی اس بات کی گواہی ہے۔ آپ لوگ مخالفین کے پراپیگنڈے میں آکر ایسی باتیں پھیلاتے ہیں جس کا مجھے بہت دکھ ہے۔ میاں نواز شریف ہم سب کی بات سنتے ہیں اور سن کر ہی فیصلے کرتے ہیں۔ اب بھی ایسا ہی ہوگا۔ میں نے جو بات کرنی ہے وہاں کروں گا۔ میڈیا میں کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
میں نے کہا لوگ آپ کے اور مریم نواز کے تعلقات کے بارے میں بہت بات کرتے ہیں۔ بہت قیاس آرائیاں ہیں۔ شہباز شریف نے کہا مریم نواز میری بیٹی ہیں۔ آپ ہمارے خاندان کی روایات کو سمجھیں۔ مریم نواز مجھے اپنی بیٹیوں سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔ جیسے بڑے میاں صاحب کو حمزہ عزیز ہیں۔
شہباز شریف نے سوشل میڈیا پر چلنے والے میرے ایک تجزیہ پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ بالکل غلط ہے۔ انھوں نے کہا میں ایسی زبان استعمال ہی نہیں کرتا۔ اس لیے میں چٹکی والی بات کیسے کر سکتا ہوں۔ انھوں نے کہا کہ اس کی تردید ہونی چاہیے۔ ن لیگ میں میری وجہ سے نہ تو ماضی میں کوئی تقسیم ہوئی ہے اور نہ ہی آگے ہو سکتی ہے۔ اس لیے ایسے تجزیے غلط ہی ثابت ہونگے۔
انھوں نے کہا جب میں بھی جیل میں تھا۔ بڑے میاں صاحب بھی باہر ہیں تو مریم نے پارٹی کے لیے بہت شاندار کام کیا ہے۔ مریم نواز نے جس طرح مسلم لیگ (ن) کی سیاست کو سنبھالا ہے اس کی جتنی بھی داد دی جائے کم ہے۔ میں اور مریم ملکر اگلی سیاست کریں گے۔ میں مریم کا روشن مستقبل دیکھتا ہوں، اس نے ہمارا پرچم بلند کیا ہے۔
میں نے کہا لوگ ابہام میں ہیں کہ مفاہمت یا مزاحمت۔ انھوں نے کہا بات ایسی نہیں ہے۔ نہ اکیلا بیانیہ چل سکتا ہے اور نہ ہی اکیلی کارکردگی چل سکتی ہے۔ سیاست میں بیانیہ اور کارکردگی نے ساتھ ساتھ چلنا ہوتا ہے۔ لوگ بیانیہ پر ووٹ دیتے ہیں اور کارکردگی آپ کے بیانیہ کو زندہ رکھتی ہے۔ اس لیے مسلم لیگ (ن) کے پاس کارکردگی بھی ہے اور بیانیہ بھی ہے۔