پنجاب اورسندھ میں ڈنگی پھیلنے کا ذمے دار کون؟
میں بہت خوش ہوں کہ پاکستان میں جمہوریت اپنی حقیقی شکل میں آرہی ہے۔ آج صحت کی سہولیات صفائی تعلیم جیسے مسائل بنیادی اہمیت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ کراچی کا کچرا ملک کا اہم مسئلہ ہے۔ سندھ میں کتے کے کاٹنے کی ویکسین نہ ملنا ایک قومی مسئلہ بن گیا ہے۔ بالا آخر سندھ کے وزیر اعلیٰ کو اپنی کابینہ کے ساتھ کراچی کی سڑکوں پر کچرا صاف کرنے کے لیے آنا پڑا ہے۔
سندھ حکومت کو اندازہ ہو گیا کہ مئیر کراچی پر ملبہ ڈال کر ان کی جان نہیں بچ سکتی۔ یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے آنے میں بہت دیر کر دی۔ پی پی پی کا سندھ میں بہت سیاسی نقصان ہوگیا ہے۔ لیکن سندھ میں تو شروع سے حالات ایسے ہی تھے۔ سندھ کو کبھی گڈ گورننس نہیں ملی ہے۔ وہاں جب ایم کیو ایم بھی حکومت میں رہی ہے تب بھی گڈ گورننس کے کوئی اعلیٰ معیار نہیں رہے ہیں۔ قائم علی شاہ کے جانے اور مراد علی شاہ کے آنے سے حالات بہتر ضرور ہوئے لیکن کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ شاید پی پی پی گڈ گورننس پر یقین ہی نہیں رکھتی۔ ۔
پنجاب میں حالات مختلف رہے ہیں۔ یہاں گڈگورننس ہمیشہ سے اہم رہی ہے۔ یہاں امن وامان سندھ سے بہتر رہا ہے۔ صحت کی سہولیات سندھ سے بہتر رہی ہیں۔ لوگ شہباز شریف کی بہت بات کرتے ہیں لیکن چوہدری پرویز الہیٰ کا دور بھی اچھا تھا۔ پنجاب میں ہر دور میں کام ہوا ہے۔ ہمیشہ سے ہی پنجاب گڈ گورننس، ترقی اور دیگر شعبوں میں سندھ سے آگے رہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پنجاب کے مسائل بھی سندھ سے مختلف ہو گئے ہیں۔ شائد پنجاب میں آوارہ کتوں کا بہت پہلے خاتمہ ہو گیا تھا۔ اس لیے آوارہ کتوں سے کاٹنا پنجاب میں اہم مسئلہ نہیں ہے۔ یہاں کرپشن بھی سندھ جیسی نہیں ہے۔ پنجاب میں کسی بھی بیوروکریٹ کے گھر سے اس طرح دولت برآمد نہیں ہوئی جیسے سندھ میں لیاقت قائم خوانی کے گھر سے برآمد ہوئی ہے۔ یہ درست ہے کہ پنجاب میں کرپشن ڈھونڈنے کی بہت کوشش ہوئی ہے۔ لیکن یہاں سندھ جیسی کرپشن نہ کبھی تھی اور نہ ہی مل سکتی ہے۔ پنجاب میں لوٹ مار او ر بھتہ مافیا کا کلچر نہیں ہے۔
آجکل ڈنگی دوبارہ پھیل گیا ہے۔ بے شک سندھ میں ڈنگی کے مریضوں کی تعداد پنجاب سے اب بھی زیادہ ہے۔ لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ جب پنجاب میں ڈنگی کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ جب پنجاب میں شہباز شریف کے دور میں ڈنگی کا خاتمہ کیا گیا تھا تب بھی سندھ اور کے پی میں ڈنگی کا خاتمہ نہیں ہوا تھا۔ کے پی میں ڈنگی رہتا ہے۔ کے پی کی وجہ سے پنجاب کے شمالی اضلاع میں ڈنگی کا مکمل خاتمہ نہیں ہو سکا تھا۔
شہباز شریف کے دور میں بھی یہ گلہ تھا کہ کے پی سے ڈنگی کے مریض پنجاب آجاتے ہیں اور پنجاب میں ڈنگی کا اسکور نظر آتا ہے۔ اس ضمن میں جب شہباز شریف کے دور میں کے پی اور پنجاب کا موازنہ ہوا تھا تو عمران خان نے خود کہا تھا کہ کے پی کی حکومت مناسب انتظامات نہیں کر سکی۔ اس لیے پنجاب ہمیشہ سے ہی پاکستان کے دیگر صوبوں کے لیے ترقی صحت تعلیم اور امن ومان میں سمیت ہر شعبہ میں رول ماڈل رہا ہے۔ تا ہم آج پنجاب میں گڈ گورننس کی بہت بات ہو رہی ہے۔ پنجاب میں ڈنگی کے دوبارہ پھیلنے پر بہت تنقید ہو رہی ہے۔
یہ سوال بہت اہم ہے کہ پنجاب میں ڈنگی پھیلنے کا ذمے دار کون ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ پنجاب میں ڈنگی کے پھیلنے، کینسرکے مریضوں کو ادویات نہ ملنے، اسپتالوں میں ٹیسٹوں کے مہنگے ہونے کی ذمے داری پنجاب کی وزارت صحت پر عائد ہوتی ہے۔ ڈاکٹر یاسمین راشد بھی اسد عمر کی طرح تحریک انصاف کی وہ اسٹار تھیں جن سے انقلاب کی توقع تھی۔ جس طرح یہ امید تھی کہ اسد عمر معیشت میں انقلاب لے آئیں گے اسی طرح پوری تحریک انصاف کو امید تھی کہ داکٹر یاسمین راشد پنجاب میں صحت کے شعبہ میں انقلاب لے آئیں گی۔
آج پنجاب میں ڈنگی پھیلنے کی ذمے داری وزیر اعلیٰ عثمان بزدار پر عائد کی جائے یا وزیر صحت یاسمین راشد پر عائد کی جائے، اس کا جواب تو پنجاب حکومت ہی دے سکتی ہے تاہم آپ کہہ سکتے ہیں کہ ماضی میں اگر پنجاب میں ڈنگی ختم کرنے کا کریڈٹ شہباز شریف کا ہے تو آج پنجاب میں ڈنگی پھیلنے کی ذمے داری عثمان بزدار کی کیوں نہیں ہے۔ لیکن دونوں ادوار کے انداز حکومت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ شہباز شریف کے دور میں ہر چیز ان کے کنٹرول میں تھی۔ وہ ہر کام خود کرنے کے عادی ہیں۔ جب کہ تحریک انصاف کے اسٹائل میں پہلے دن سے وزیروں کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ ہر وزیر اپنی وزارت کی کارکردگی کا ذمے دار ہے۔
پنجاب میں یاسمین راشد کے پاس محکمہ صحت میں مکمل اختیار اور کنٹرول ہے۔ وہ اپنی وزارت میں کسی بھی قسم کی مداخلت پسند نہیں کرتی ہیں۔ حتیٰ کے وزیر اعلیٰ کی مداخلت بھی پسند نہیں کرتی ہیں۔ عثمان بزدار نے ایک سال میں انھیں مکمل فری ہینڈ دیا ہے۔ لیکن آج ایک سال بعد اس فری ہینڈ کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ گزشتہ دنوں بھی پنجاب میں صحت کے شعبہ کی کارکردگی کے حوالے سے وزیر اعظم عمران خان نے ایک اجلاس کی صدارت کی ہے۔ جس میں پنجاب میں صحت کے شعبہ میں اصلاحا ت پر غور کیا گیا۔ یاسمین راشد نے اس اجلاس کی تصاویر بہت اہتمام سے سوشل میڈیا پر جاری کیں۔
پنجاب میں ڈنگی پھیلنے اور محکمہ صحت کی کارکردگی پر پہلی دفعہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے اپنے تحفظات کا اظہار کر دیا ہے۔ میرے سامنے وزیر علیٰ عثمان بزدار اور پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کی ملاقات کے بارے جاری ہونے والی پریس ریلیز پڑی ہے۔ اس کی زبان سب کچھ بتا رہی ہے۔ ویسے تو آپ سب نے یہ پریس ریلیز پڑھ ہی لی ہوگئی لیکن اگر آپ اس کو میری نظر سے دیکھیں تو منظر شائد مختلف لگے گا۔
کیا کوئی سوال کر سکتا ہے کہ پنجاب کے اسپتالوں میں کینسر کے مریضوں کی ادویات نہ ملنے کا ذمے دار کون ہے؟۔ ایک سال میں پنجاب کا ایک بھی اسپتال ٹھیک نہیں ہوسکا۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پنجاب کے اسپتال بھی سندھ اور کے پی کی طرح ہورہے ہیں۔ اب یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اگر سلمان رفیق ڈنگی سے خاتمہ کا یقین دلائیں تو انھیں جیل سے نکال کر ان کی مدد لی جا سکتی ہے۔
سلمان رفیق نے تو اپنے دور وزارت میں ڈنگی کا خاتمہ کیا تھا۔ اب کیا ہو گیا ہے۔ باقی سوشل میڈیا پر جتنا مرضی شور مچا لیا جائے۔ سوشل میڈیا کا شور حقائق چھپا نہیں سکتا۔ اگر سوشل میٖڈیا اتنا ہی طاقتور ہوتا تو آج عثمان بزدار وزیر اعلیٰ نہ ہوتا۔ یہ درست ہے کہ لاہور اور راولپنڈی کے ڈپٹی کمشنر تبدیل کیے جا چکے ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ عثمان بزدار کو اس ضمن میں چھوٹے نہیں بڑے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ تب ہی مسائل حل ہوںگے۔ جب کہ اس کے مقابلے میں سندھ جہاں ڈنگی کے مریض زیادہ ہیں۔ وہاں سب امن ہے۔ نہ کوئی افسر تبدیل ہو رہا ہے۔ نہ وزیر اعلیٰ وزیر کسی سے ناراض ہے۔ شائد سندھ کے لیے یہ کوئی اہم بات نہیں ہے۔ بس یہی سندھ اور پنجاب میں فرق ہے۔