پاکستان کے لیے سعودی پیکیج
سعودی عرب نے پاکستان کو ایک دفعہ پھر مالی امداد دی ہے۔ حکومت اور بالخصوص وزیراعظم عمران خان اس کو اپنی بہت بڑی فتح قرار دے رہے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب نے یہ مدد اس وقت فراہم کی ہے جب پاکستان ایک مالی بحران میں پھنس چکا تھا۔
آئی ایم ایف سے قسط جاری ہونے میں شدید مشکلات نظر آرہی تھیں۔ پاکستان میں روپے کی قدر روز کم ہو رہی تھی۔ حکومت کے پاس ان مسائل کا کوئی حل نظر نہیں آرہا تھا۔ ایسے میں سعودی عرب کی جانب سے مالی پیکیج ایک بہت بڑے ریلیف کا باعث بنے گا۔
موجودہ حکومت کے بر سر اقتدار آنے کے بعد بھی سعودی عرب نے اسی قسم کا ایک مالی پیکیج پاکستان کو دیا تھا۔ سعودی ولی عہد شہزاد محمد بن سلمان پاکستان آئے بھی تھے۔ وزیر اعظم عمران خان نے ان کو بہت عزت بھی دی تھی۔ انھوں نے پاکستان کے ساتھ مالی تعاون بڑھانے کا اعلان بھی کیا تھا۔ یہ بھی وہ وقت تھا جب پاکستان کو آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل کرنے میں مشکلات پیش آرہی تھیں۔
تب بھی سعودی اور متحدہ عرب امارات کے الگ الگ مالی پیکیج کی وجہ سے ہی آئی ایم ایف کی پاکستان کے ساتھ ڈیل ممکن ہوئی تھی۔ حالانکہ آج بھی ہم سب کا خیال ہے کہ حکومت نے تب بھی آئی ایم ایف کے ساتھ بروقت مذاکرات نہیں کیے۔ اور آئی ایم ایف جانے کے فیصلے میں تاخیر کی وجہ سے پاکستان کو بہت نقصان ہوا، وزیر اعظم عمران خان خود بھی ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ مان چکے ہیں کہ تاخیر کی وجہ سے بہت نقصان ہوا۔ تا ہم تب بھی سعودی عرب نے پاکستان کی موجودہ حکومت کی مدد کی تھی۔
اس وقت سعودی عرب میں دس لاکھ سے زائد پاکستانی روزگار کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ان کی وجہ سے پاکستان کو زرمبادلہ بھی آتا ہے۔ سعودی عرب میں موجود پاکستانی بھی پاکستان کی معیشت کے لیے اہم ہیں۔ ان کی وجہ سے بھی ہمیں بہت سہارا ہے۔
لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ ہم موجودہ دور میں ان پاکستانیوں کی تعداد میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں کر سکے۔ بلکہ کورونا کی وجہ سے اس تعداد میں کمی بھی ہوئی ہے، لیکن حکومت پاکستان کو کوشش کرنی چاہیے کہ اب جب کورونا کے بعد پابندیاں ختم ہو رہی ہیں تو پاکستانیوں کے لیے سعودی عرب میں روزگار کے حصول کے لیے سعودی حکومت کے ساتھ بات چیت کی جائے۔
پاکستان کے لوگ سعودی عرب سے ایک خاص محبت کا جذبہ رکھتے ہیں۔ ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ ترکی کے ڈرامے دیکھا کر بھی پاکستان میں ترکی کے لیے وہ جذبات نہیں پیدا کر سکے جو عام پاکستانی کے دل میں سعودی عرب کے لیے موجود ہیں۔ سعودی عرب ہر پاکستانی کے دل کے بہت قریب ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی حکومت سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے کام کرے۔ سعودی عرب کے ساتھ اچھے تعلقات نہ صرف ریاست پاکستان کے مفاد میں ہیں بلکہ اس کا عام پاکستانی کو بھی فائدہ ہے۔
ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ گزشتہ سال پاک سعودی تعلقات میں جو سرد مہری رہی ہے اس کا پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہی ہوا ہے۔ مجھے امید ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو اس حوالے سے خارجہ پالیسی کے محاذ پر کی جانے والی غلطیوں کا اندازہ ہوگیا ہوگا۔ مجھے امید ہے کہ عمران خان اور ان کی ٹیم کو سعودی عرب اور ملائیشیا میں فرق سمجھ آگیا ہوگا۔
مجھے امید ہے کہ ترکی اور سعودی عرب میں بھی فرق سمجھ آگیا ہوگا۔ پاکستان کے مفاد میں کس ملک کی کیا اہمیت ہے، یہ بات سمجھنا بہت ضروری ہے۔ پاکستان کا مفاد سعودی عرب کے ساتھ ہے۔ سعودی عرب سے الگ ہو کر پاکستان کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
مجھے افسوس ہے کہ پاکستان کی حکومت نے اپنی غلط خارجہ پالیسی کی وجہ سے سعودی عرب کے ساتھ بے وجہ دوریاں پیدا کیں۔ جس کی وجہ سے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان معاشی تعاون کی نہ صرف راہیں بند ہوئیں بلکہ دوریا ں پیدا ہو گئیں۔ ان دوریوں کا شاید سعودی عرب کو کم اور پاکستان کو زیادہ نقصان ہوا ہے۔ اگر ہم نے وہ غلطیاں نہ کی ہوتیں تو آج سعودی عرب کے ساتھ تعاون کی مزید راہیں پیدا ہو سکتی تھیں۔
ہمیں کیا ضرورت تھی کہ ہم ترکی اور ملائیشیا کے ساتھ مل کر عربوں سے الگ کوئی نیا اسلامی بلاک بنائیں۔ ہم شروع سے عربوں کے ساتھ ہیں اور ہمیں عربوں کے ساتھ ہی رہنا چاہیے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ حکومت پاکستان کو یہ بات سمجھ میں آگئی ہے۔
میں آج بھی سمجھتا ہوں کہ ہمیں یمن کی لڑائی میں سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے تھا۔ اس انکار کا بھی نقصان ہی ہوا ہے۔ ایران کے اور ہمارے اہداف میں بہت فرق ہے۔ اس لیے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کشیدہ کرنے کی منطق ناقابل فہم ہے۔ اگر ہم نے تب بھی سعودی عرب کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا ہوتا تو پاکستان کا زیادہ فائدہ ہوتا۔ شاید ہم آج جس قدر بحران کا شکار ہیں وہ بھی نہ ہوتے۔ اور سعودی عرب کو بار بار اپنی دوستی کا یقین دلانے کی بھی ضرورت نہ پیش آتی۔ اگر ہم امریکا کی جنگ میں شریک ہو سکتے ہیں۔
تو ہم سعودی عرب کے ساتھ ایسا تعاون کیوں نہیں کر سکتے۔ میں سمجھتا ہوں تب بھی جوش کے بجائے ہوش سے فیصلے کیے جاتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ سعودی عرب کے ساتھ ایک مستقل اور مرطوب پالیسی کی ضرورت ہے۔ جسے کوئی بھی نئی آنے والی حکومت تبدیل نہ کر سکے۔ یہی پاکستان کا مفاد ہے۔
ہمیں سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات بھارت کے تناظر میں نہیں دیکھنے چاہیے۔ سعودی عرب اور بھارت کی قربت کی وجہ سے پاک سعودی تعلقات میں کشیدگی نہیں آنی چاہیے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ہماری نہیں ہمارے دشمن کی کامیابی ہے۔ اگر ہم سعودی عرب بھارت تعلقات سے لا تعلق ہو کر صرف پاک سعودی تعلقات پر توجہ دیں۔ جس طرح ہم سعودی عرب سے اپنی قربت میں اضافہ کریں گے بھارت کے عزائم خود بخود ناکام ہو جائیں گے۔ لیکن اگر ہم بھارت کی وجہ سے سعودی عرب سے تعلقات خراب کر لیں گے تو بھارت کے عزائم کامیاب ہو جائیں گے۔
سعودی عرب نے پاکستان کی آئی ایم ایف جتنی مدد کی ہے، لیکن سعودی عرب نے آئی ایم ایف جیسی شرائط عائد نہیں کی ہیں۔ سعوودی عرب کے پیکیج میں پاکستان کی خود مختاری کا کوئی سمجھوتہ نہیں۔ عام پاکستانی پر ٹیکس لگانے کی کوئی شرط نہیں۔ بجلی مہنگی کرنے کا کوئی مطالبہ نہیں۔ بلکہ ادھار تیل دیا گیا ہے تاکہ پاکستان اپنے زرمبادلہ کے ذخائر بھی بہتر کر سکے اور پاکستان میں پٹرول کی قیمتوں میں استحکام بھی آسکے۔ سعودی پیکیج آنے کے بعد روپے کی قدر میں کمی نہ صرف رکی ہے بلکہ اس میں بہتری آئی ہے۔
ورنہ جس طرح روپے کی قدر کم ہو رہی تھی ہم سب خوفزدہ تھے۔ حالانکہ گورنر اسٹیٹ بینک خوشیاں منا رہے تھے۔ کیا عمران خان کو اندازہ ہے کہ اگر اس وقت سعودی عرب ان کی مدد نہ کرتا تو ان کے لیے ملک میں معاشی محاذ پر اپنی کارکردگی کا دفاع کتنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ یہ پیکیج انھیں اپنی سیاسی ساکھ بہتر کرنے میں بھی مدد دے گا۔ اس لیے مجھے امید ہے کہ عمران خان کی سعودی عرب کے حوالے سے سوچ تبدیل ہو گئی ہوگی اور اب ہمیں ایک نئی پالیسی نظر آئے گی۔