پاک امریکا تعلقات اور حکمران طبقہ
امریکا افغانستان سے جانے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ دوسری طرف طالبان امریکا کا اقتدار سنبھالنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ اشرف غنی کو اپنے اقتدار کا سورج ڈوبتا نظر آرہا ہے۔ اس لیے وہ نہ تو امریکا سے خوش نظر آرہے ہیں اور نہ ہی پاکستان سے خوش نظرا ٓرہے ہیں۔ انھیں امریکا اور طالبان کے درمیان صلح کرانے والے سب کردار دشمن نظر آرہے ہیں۔
ایک عمومی رائے یہی ہے کہ جیسے جیسے افغانستان سے امریکا فوج کا انخلا قریب آتا جائے گا، افغانستان میں بد امنی بڑھتی جائے گی۔ اقتدار کے لیے جنگ تیز ہو جائے گی۔ ایسے میں ایک مانیٹر کا کردار ادا کرنے کے لیے امریکا کو خطے میں موجودگی درکار ہے۔
امریکا چاہتا ہے کہ وہ بظاہر افغانستان سے چلا جائے لیکن ایسا بھی نہیں کہ افغانستان اس کے تسلط سے نکل جائے۔ وہ افغانستان کے اندر بھی امریکی اڈے قائم رکھنا چاہتا ہے اور افغانستان کے باہر بھی ایسی سہولیات برقرار رکھنا چاہتا ہے جس سے افغانستان کے اندر سب کو علم ہو کہ اگر انھوں نے امریکی مفادات کے خلاف کام کیا تو امریکا کی دوبارہ واپسی ممکن ہے۔ امریکا اب باہر بیٹھ کر اندر ہونے والی خانہ جنگی کو نہ صرف دیکھنا چاہتا ہے بلکہ اس میں ایک مانیٹر اور ریفری کا کردار بھی ادا کرنا چاہتا ہے۔
نائن الیون کے بعد پرویز مشرف حکومت نے افغانستان سے طالبان کی حکومت ختم کرنے میں امریکا کا ساتھ دیا۔ آج پاکستانی پالیسی ساز امریکا کی خواہش پر افغانستان میں دوبارہ طالبان حکومت قائم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اشرف غنی الزام لگا رہے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے کل بھی امریکی مفادات کے لیے کام کیا تھا اور آج بھی تیار ہیں۔
افوائیں، قیاس آرائیاں اور خبریں یہ بھی گھوم رہی ہیں کہ امریکا کے لیے پاکستان کی فضائی اور زمینی حدود استعمال کرنے کی سہولت برقرار رہے گی۔ اس ضمن میں پاکستان اور امریکا کے درمیان جنیوا میں مذاکرات بھی ہو رہے ہیں۔ پہلے تو یہ خبریں بھی آئی تھیں کہ ہم اڈے دے رہے ہیں لیکن اﷲ کا شکر ہے کہ اب تمام اطرا ف سے تردید آگئی ہے کہ ہم کوئی اڈے نہیں دے رہے ہیں۔ تا ہم اگر زمینی اور فضائی حدود کے استعمال کی اجازت برقرار رہتی ہے تو اسے کیا نام دیا جائے گا۔
ویسے دیکھا جائے تو ہمارے حکمرانوں نے کب امریکا کو اپنی زمینی و فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی ہے۔ ستر سال سے یہ سہولت امریکا کے پاس کسی نہ کسی شکل میں موجود رہی ہے۔ امریکا نے جب چاہا آمرحکمرانوں کو اتحادی بنا لیا اور جب چاہا پابندیاں بھی لگا دیں۔ جب روس افغانستان سے نکلا تھا تب امریکا نے منہ موڑ کر پاکستان پر پابندیاں لگا دی تھیں۔ اس لیے ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے پاکستان کو اب کوشش ضرور کرنی چاہیے کہ افغانستان میں دوبارہ ایسی صورتحال نہ بن جائے کہ امریکا اور پاکستان میں کشیدگی پیدا ہوجائے۔
دوسری طرف یہ لگ رہا ہے کہ امریکا کو بھی احساس ہو گیا ہے کہ ماضی میں افغانستان سے لاتعلق ہوکر امریکا نے بھی غلطی کی تھی۔ اس لیے امریکن افغانستان سے جانا بھی چاہتے ہیں لیکن لا تعلق بھی نہیں ہونا چاہتے۔ لہذ ا صورتحال پاکستان کے لیے بہتر ہے۔
اس رائے میں بہت وزن ہے کہ پاکستان کے لیے راستہ موجود ہے۔ ہمیں اس راستے سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اگر امریکا تعاون ختم نہیں کرنا چاہتا تو ہمیں بھی یہ راستہ ختم نہیں کرنا چاہیے۔ تعاون اور ساتھ کام کرنے کے راستے بند نہیں کرنا چاہیے۔ اس لیے فضائی حدود اور زمینی راستے استعمال کرنے کی سہولت قائم رکھنے میں کوئی مضا ئقہ نہیں۔ یہ پاکستان کے مفاد میں ہے۔
دوسری طرف یہ رائے بھی موجود ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکی تعاون کی پاکستان نے بہتبھاری قیمت ادا کی ہے جب کہ امریکا سے کچھ ملا بھی نہیں ملا۔ اتحادی فنڈ نقصان کے مقابلے میں مونگ پھلی کے چند دانے بھی نہیں۔ لیکن امریکا وہ دے کر بھی بہت احسان جتاتا رہا ہے۔ پاکستان امریکا کا اتحادی ہے لیکن فیٹف کی پابندیاں بھی ہیں۔ عالمی تنہائی بھی ہے۔ پاکستان کے خود غرض حکمرانوں نے امریکا سے کبھی فیئر ڈیل نہیں کی، اور آج بھی ایسا نہیں کررہے ہیں۔ ایسی بات نہیں کہ کل پاکستان میں کمزور قیادت تھی اور آج مضبوط قیادت ہے بلکہ جیسی قیادت کل تھی ویسی ہی آج ہے کیونکہ جو صورتحال کل تھی وہی آج ہے۔
امریکا کو پاکستان کی فضائی حدود اور زمینی حدود کا استعمال کل بھی ہمارا قومی مفاد تھا، آج بھی ہمارا قومی مفادہے لیکن المیہ یہ ہے کہ نہ کل ایسے معاملات پر پارلیمنٹ اور قوم کو اعتماد میں لیا جاتاتھا اور نہ آج دوبارہ یہ معاملات طے کرنے کے لیے پارلیمنٹ اور قوم کو اعتماد میں لینے کی کوئی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ البتہ ہر حکمران ہمیں سمجھاتا ہے کہ ہم نے ماضی میں غلط معاہدے کیے ہیں لیکن اب بہتر وقت ہے۔
ہمارے پالیسی عوام کو یہ نہیں سمجھا جا سکے کہ امریکا سے تعلقات مستحکم رکھنے میں پاکستان کا مفاد ہے۔ آج بھی ہم عوام سے حقائق چھپا رہے ہیں۔ آج بھی صورتحال عوام سے پوشیدہ رکھی جا رہی ہے۔ اس لیے آج بھی عوامی جذبات اور عوامی رائے امریکا کے خلاف ہے۔ ایسی رائے بنانے میں ہمارے حکمرانوں کا قصور زیادہ ہے، اگر عوام کو بتایا جائے کہ امریکا کے ساتھ پاکستان کے مفادات وابستہ ہیں تو عوام کے ذہن میں امریکا کے بارے میں کبھی شکوک پیدا نہ ہوں۔